QuestionsCategory: عقائدعقیدہ حاضر و ناظر
abdul Mujeeb asked 5 years ago

میرا سوال حاضر و ناظر کے مسئلہ حوالے سے ہے۔ ایک بریلوی عالم نے اپنا عقیدہ بتاتے ہوئے چند باتیں کہی ہیں کہ

1: حضورصلى الله علیہ و سلم روحانی طور پر یا اللہ کی عطا کردہ جسد سے جسم مثالی کے ساتھ اور اگر حقیقی جسم کے ساتھ کہیں جانا چاہے تو وہ ان کی مرضی ہے  اور حضور صلى الله علیہ و سلم اپنی قبر میں ہیں اور ساری کائنات آپ کے سامنے ہتھیلی کی طرح ہے۔

2: شیخ محدث دہلوی نے مدارج النبوۃ میں اور ملا علی قاری نے بھی لکھا ہے کہ حضور صلى الله علیہ و سلم کا روحانی تصرف ہے کہ آپ جسم مثالی کے ساتھ کہیں بھی جلوہ گری فرمائیں۔

3: آگے کہتے ہیں کہ مولانا اشرف علی تھانوی اور دیگر بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ علامہ جلال الدین سیوطی کو 130 سے زیادہ مرتبہ عالم بیداری میں رسول اللہ کی کو دیکھا ہے۔اور اس میں علامہ سیوطی  نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حدیث آپ سے مروی ہے یا نہیں؟ اب انہوں نے حضور کو دیکھا، وہ کیا تھا؟ یہ یقیناً جسم مثالی تھا!!!

4: اس پر وہ بریلوی عالم کہنے لگے کہ ہم جو اللہ کے حبیب کو حاضر و ناظر سمجھتے ہیں تو وہ اللہ کی عطا سے سمجھتے ہیں۔

5: انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح رحمٰن، رحیم اور رؤوف اللہ ہے  لیکن کوئی مسلمان اپنے گھر میں قرآن اٹھائے جہاں اللہ کے صفاتی نام لکھے ہیں وہاں رسول الله کے لیے بھی صفاتی نام لکھے ہوئے ہیں واللہ رؤوف بالعباد․

اور بہت کچھ کہا ہے انہوں نے، پر اتنے سے سوال سمجھ آجائے گا۔

برائے مہربانی مدلل جواب ضرور  دیں۔ جزاک اللہ خیرا

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 5 years ago

جواب:

جوابات سے پہلے دو باتیں سمجھ لینی چاہییں:

پہلی بات:   حاضر وناظر کا مطلب
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”یہ دونوں عربی زبان  کے لفظ ہیں جن کے معنی ہیں ”موجود اور دیکھنے والا“ اور جب ان دونوں کو ملا کر استعمال کیا جاتا ہے تو اس  سے مراد  ہوتی ہے ”وہ شخصیت جس کا وجود کسی خاص جگہ میں نہیں بلکہ اس کا وجود بیک وقت ساری کائنات کو محیط ہے اور کائنات کی ایک ایک چیز کے تمام حالات اول سے آخر تک اس کی نظر میں ہیں  ۔“  میرا عقیدہ یہ  ہے کہ ”حاضروناظر“کا یہ مفہوم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر صادق آتاہے اور یہ صرف  اسی کی شان ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روضہ اطہر میں استراحت فرما ہیں  اور دنیا بھر کے مشتاقان زیارت وہاں حاضری دیتے ہیں ۔ اس لیے آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ موجود ہیں  اور کائنات کی ایک ایک چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ہے    بداہت عقل کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں  چہ جائیکہ یہ  شرعا درست ہو،   یہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کو کسی دوسری شخصیت کے لئے ثابت کرنا غلط ہے۔
اور اگر ”حاضر وناظر“ ماننے والوں کا یہ مطلب ہے کہ اس دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح طیبہ کو اجازت ہے کہ جہاں چاہیں تشریف لے جائیں تو اول تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر جگہ ”حاضر وناظر “ ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ پاکستان کے ہر شخص کو اجازت ہے کہ وہ ملک کے جس حصے میں چاہے آ جا سکتا ہے ۔ کیا  اس اجازت کا کوئی شخص  یہ مطلب سمجھے گا کہ پاکستان کا ہر شہری پاکستان میں”حاضر ونا ظر “ہے ؟  کسی جگہ جانے کی اجازت ہونے سے وہاں واقعتا حاضر ہونا تو لازم نہیں آتا ۔اس کے علاوہ جب کسی خاص جگہ مثلا کراچی کے بارے میں کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں حاضر ہیں تو یہ  ایک مستقل دعویٰ ہے جس کی دلیل کی ضرورت ہوگی ، چونکہ اس کی کوئی دلیل شرعی موجود نہیں اس لیے بغیر دلیل شرعی کے اس کا عقیدہ رکھنا ناجائز ہوگا۔بعض لوگ نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں  بلکہ تمام اولیاء اللہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ہر جگہ حاضرونا ظرہوتے ہیں ۔مجھے ان حضرات کی سخاوت پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ کتنی فیاضی سے اللہ تعالیٰ شانہ کی صفات اس کی مخلوق میں تقسیم کرتے پھرتے ہیں ،بہر حال ائمہ اہل سنت  کے نزدیک یہ جسارت قابل برداشت  نہیں۔“
(اختلاف امت اور صراط مستقیم: ص 37، 38)

دوسری بات :  بیداری میں زیارت کی حیثیت
جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم خواب میں دیکھا جاسکتا ہے اسی طرح عالم بیداری میں بھی دیکھنا ممکن ہے ۔ اکابرین و اسلاف میں سے کئی ایک حضرات اس عالم بیداری والی زیارت سے مشرف بھی ہوئے ہیں ۔پھر عالم بیداری میں جو زیارت ہوتی ہے یہ مثالی رؤیت ہے ، عالم شہادت کی رؤیت نہیں۔ جس طرح خواب میں رؤیت مثالی ہوتی ہے اور وہ بیک وقت کئی افراد کے خواب میں نظر آئیں تو اس سے  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حاضر و ناظر ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر بیداری میں یہ رؤیت مثالی کئی حضرات کو نصیب ہو تو اس سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاضروناظر ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔
حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:
”عالم بیداری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا ممتنع  نہیں ہے، حدیث یا فقہ میں اس کی ممانعت نہیں بلکہ ایک حدیث میں ایسا  ارشاد ملتا ہے ۔ارباب قلوب اور اہل تصوف کے  یہاں تو یہ چیز تواتر کو پہنچی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض ا کابر کی زیارت بیداری میں ہوتی رہی،اگر چہ بیداری کی رؤیت  مثالی رؤیت ہے، عام شہادت کی رؤیت نہیں ورنہ ہر شخص اس وقت دیکھتا بلکہ خاص مثالی رؤیت ہے۔ عالم مثال کی مثال بھی خواب جیسی ہے البتہ جو خواب میں دیکھ لے وہ رؤیا کہلائے گا اور جو بیداری میں ہو گی وہ رؤیت ہو گی۔ ہاں یہ ضرور خیال رہے کہ اس رؤیت میں ضروری نہیں کہ مرئی؛جن کو دیکھا جاتا ہے اس کو علم وخبرہو ،یا اس کے تصرف و قدرت کو دخل ہو ، جیسے خواب میں کسی کو دیکھتا ہے  کہ جس کو دیکھتا ہے وہ حق تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اس شخص کے ارادے اور قدرت ،بلکہ علم کو بھی دخل نہیں ہے اور چونکہ رؤیت مثالی ہوتی ہے ، اس  لیے ایک وقت میں متعدد اشخاص متعدد مقامات پر دیکھ سکتے ہیں۔“
(ماہنامہ بینات خصوصی نمبر بیاد حضرت بنوری: ص     178)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”حاصل کلام یہ ہے کہ موت کے بعد حضرت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا مثالی صورت میں ہے  جیسا کہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال شریف کا دیدار ہوتا ہے ،جاگتے میں بھی مثال شریف کا دیدار ہو تا ہے اور وہ مبارک وجود جو مدینہ منورہ (زادھا اللہ شرفا وکرامۃ) میں قبر اطہر کے اندر آرام فرما ہے اور زندہ ہے ،مثالی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ایک وقت میں کئی مثالی وجود عوام کو خواب میں اور خواص  کو جاگتے میں نظر آتے ہیں ۔ سوال وجواب کے وقت قبر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی صورت ظاہر ہوتی ہے ۔“
(مدارج النبوۃ    : ج 1 ص 76 بحث در خصوصیات)

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات ملاحظہ ہوں :

[1]:             ان صاحب کا یہ کہنا کہ ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم روحانی طورپر یا اللہ کے عطا کردہ جسد سے جسم مثالی کے ساتھ اور اگر حقیقی  جسم کے ساتھ کہیں جانا چاہیں تو وہ ان کی مرضی ہے الخ“   اگر یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے  حاضروناظر ہونے کی دلیل ہے تو یہ بات صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے کسی اور بندے کو بھی اس کی روح اور جسم کو کہیں بھیجنا چاہیں تو بھیج سکتے ہیں ۔ تو کیا   اس دلیل کی بنا پر ہر شخص حاضروناظر ہے ؟ واضح رہے کہ ایک چیز کا ہوسکنا اور چیز ہے اور ہونا اور چیز ہے۔ بقول حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃاللہ علیہ کے ” پاکستان کے ہر شخص کو اجازت ہے کہ وہ ملک کے جس حصے میں جب چاہے آجاسکتا ہے ، کیا اس اجازت کا کوئی شخص یہ مطلب سمجھے  گا کہ پاکستان کا ہر شہری پاکستان میں حاضروناظر  ہے۔“
نیز   ان صاحب کا یہ کہنا کہ ”ساری کائنات آپ کے سامنے ہتھیلی کی طرح ہے“  اس کے اثبات کے لیے صحیح دلیل درکار ہے ۔مزید تشریح وتوضیح کے لیے امام اھل السنۃ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃاللہ علیہ کی کتاب ”ازالۃالریب“   (ص516 ) کا مطالعہ فرمائیں ۔

[2]:        شیخ عبد الحق محدث دھلوی رحمۃاللہ علیہ کی عبارت گزر چکی ہے کہ وہ ”مثال شریف کے دیدار “ کے قائل ہیں تو اس سے ”حاضروناظر“ کا عقیدہ کہاں سے ثابت ہوا؟  بلکہ آپ کے  مسائل اور ان کا حل جلد نمبر 1میں حضرت شیخ عبد الحق دھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی مزید عبارات بھی ملا حظہ فرمالیں جن میں خود حضرت کی اپنی ہی زبانی اس عقیدہ کی صراحتاً نفی ہورہی ہے۔
اور ملاعلی قاری رحمۃاللہ علیہ کے فرمان ”روحانی تصرف“ کا مفہوم یہی ہے جو اوپربیان کیا گیا کہ رؤیت مثالی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو سکتی ہے۔ اس سے بھی عقیدہ حاضروناظر کہاں سےثابت ہوتاہے  ؟ فریق مخالف کو چاہیے کہ دعویٰ ودلیل میں مطابقت  کو بھی ملحوظ رکھا کریں۔  مزید   تشریح کے لیے امام اہل السنۃ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”حضرت ملا علی قاری علیہ رحمۃ الباری اور مسئلہ علم غیب اور حاضروناظر “  (ص32)  ملا حظہ کریں۔

[3]:        علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ہی نہیں بلکہ کئی ایک حضرات کو یہ زیارت نصیب ہوئی ہے ۔ لیکن اس سے حاضر وناظر کاثبوت کیسے ہے ؟   کیا ایک شخص کو خواب میں چند افراد دیکھ لیں (کہ رؤیت مثالی ہے) تو وہ بھی حاضر وناظر سمجھا جائے گا؟ مثالی رؤیت الگ چیز ہے  اور عالم  شہادت کی رؤیت الگ چیز ۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کو جو رؤیت نصیب ہوئی وہ عالم مثالی کی ہے نہ کہ عالم مشاہدہ کی ۔

[4]:        اس کا جواب نمبر 1 کے تحت ملاحظہ ہو ۔

[5]:        لفظی مماثلت سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ فریق مخالف کو چاہیے کہ نصوص شریعت سے اپنا عقیدہ ثابت کرے ورنہ ہر شخص کسی نہ کسی مقام پر موجود ہے  اور دیکھتا بھی ہے تو کیا اس لفظی مناسبت کے پیش نظر ہر شخص کو ”حاضر و ناظر“ کہیں گے ؟ یقینا نہیں اور ہرگز نہیں۔

واللہ الموفق
دار الافتاء مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا پاکستان
30- دسمبر 2018ء