عرض یہ ہے کہ میرا شہد کا کارباور ہے اور ہمارے پاس جو اکثر لوگ شہد لاتے ہیں جس کو دیسی شہد یا جنگلی شہد بھی کہا جاتا ہے تو جو اس شہد کے کاٹنے والے ہوتے ہیں وہ اکثر اس زمین اور درختوں کے مالک سے پوچھے بغیر وہ شہد اتار لیتے ہیں, مطلب مالک زمین سے پوچھے بغیر یعنی اگر اس کے مالک کو پتہ چل جائے تو وہ یہ شہد کسی صورت ان کو نہ دے۔ تواس صورت میں اس شہد کا کیا حکم ہے؟ ہم دوکانداروں یا عام عوام کو اس صورت میں ان سے یہ شہد خریدنا چاہیے یا نہیں؟ ان سے پوچھنا ہو گا کہ اپنا ہے یا کیسی اور کی زمین کا؟
واضح رہے کہ اگر کسی کی زمیں میں کوئی چیز ہو تو ایسی صورت میں زمین کا مالک ہی اس کا مالک ہو گا اس کی اجازت کے بغیر اس کا استعمال کرنا درست نہیں لہذا صورت مذکورہ میں جس شخص کی زمین کے درخت پر شہد کی مکھیوں کا چھتہ بنا ہوا ہے وہ زمین چونکہ اس شخص کی ملکیت ہے لہذا اس زمین میں لگے ہوئے درخت پر شہد کی مکھیوں کے چھتے کے شہد حاصل کرنے کا حق اس مالک زمین کو ہی ہے ۔ اس مالک زمین کی اجازت کے بغیر اس چھتہ سے شہد نکالنا جائز نہیں اور اس طرح اگر یہ معلوم ہو کہ اس شخص نے شہد کسی مملوکہ زمین سے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر اتارا ہے تو ایسی صورت میں چوری شدہ شہد خریدنا اوراس کا استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔ اور اگرخریدنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ شہد چوری کا ہے تو یہ سودا ختم کرے۔
” عن شرحبيل مولى الأنصار , عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: “من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها”
السنن الكبرى للبيہقي ۔ج5ص 548،کتاب البیوع، باب كراهيۃ مبايعۃ من أكثر مالہ من الربا أو ثمن المحرم
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے چوری کا مال خریدا اور اس کو معلوم ہے کہ یہ مال چوری کا ہے تو خریدنے والا شخص اس کے عار دلانے میں اور چوری کے گناہ میں شامل ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
مرکز اھل السنہ والجماعہ سرگودھا پاکستان
05۔صفر 1442
23۔ستمبر 2020
Please login or Register to submit your answer