QuestionsCategory: نکاح و طلاقنو مسلم خاتون کا نکاح اس کے غیر مسلم شوہر کے ساتھ
Dr Abdus Salam Ausim asked 5 years ago

کیا فرماتے ہیں علمائےدین اور مفتیان  عظام اس مسئلے میں کہ ایک غیر مسلم خاتون نے اسلام قبول کیا مگر اس کا شوہر غیر مسلم ہی ہے تو اس صورت حال میں اس نو مسلم عورت کا نکاح اس کے غیر مسلم شوہر کے ساتھ بر قرار رہیگا؟ کیا وہ عورت اس کے ساتھ تعلقات رکھ سکتی ہے؟
اگر اس کا نکاح اس کے غیر مسلم شوہر کے ساتھ فسخ ہو چکا ہے تو کیا وہ نو مسلم عورت اس کے مذہب کے مطابق طلاق لیے بغیر کسی مسلمان سے شادی کر سکتی ہے؟
براہ کرم اس کا جواب تفصیل سے فرمائیں اللہ پاک آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے آمین
فقط والسلام سیاہ کار
عبد السلام عاصم

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 5 years ago

الجواب حامدا و مصلیا مسلما:
[1]: جہاں کفار کی حکومت ہو اور وہاں کوئی عورت اسلام قبول کرے تو اس کا نکاح اپنے کافر خاوند سے اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک وہ عورت اسلام لانے کے بعد تین حیض نہ گزار لے۔ تین حیض گزارنے کے بعد وہ اپنے خاوندکے نکاح سے نکل جائے گی۔اس  کے بعد  اگر وہ چاہے تو فوراً  کسی مسلمان مرد سے نکاح کر سکتی ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ مزید تین حیض بطور عدت گزار لے پھر نکاح کرے۔
فقہ حنفی کی معروف کتاب ”ہدایہ“ میں ہے:

وإذا أسلمت المرأة في دار الحرب وزوجها كافر أو أسلم الحربي وتحته مجوسية لم تقع الفرقة عليها حتى تحيض ثلاث حيض ثم تبين من زوجها.

(الہدایۃ: ج2ص 366باب نکاح اھل الشرک)

ترجمہ: اگر عورت دار الحرب میں اسلام قبول کر لے اور اس کا شوہر کافر ہو یا کوئی حربی کافر مسلمان ہو جائے اور اس کی زوجیت میں کوئی مجوسی عورت ہو تو (دونوں صورتوں میں ) وہ عورت اپنے خاوند کی زوجیت سے اس وقت تک نہ نکلے گی جب تک وہ تین حیض نہ گزار لے۔ تین حیض  گزارنے کے بعد وہ اپنے خاوند کی زوجیت سے نکل جائے گی۔
اسی طرح فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

وإذا أسلم أحد الزوجين في دار الحرب ولم يكونا من أهل الكتاب أو كانا والمرأة هي التي أسلمت فإنه يتوقف انقطاع النكاح بينهما على مضي ثلاث حيض سواء دخل بها أو لم يدخل بها.

(فتاویٰ عالمگیری: ج1 ص371 الباب العاشر فی نکاح الکفار)

ترجمہ: اگر دار الحرب میں میاں بیوی میں سے کوئی ایک اسلام قبول کر لے اور یہ دونوں اہل کتاب میں سے نہ ہوں یا اہلِ کتاب میں سے تو ہوں لیکن  خاص عورت اسلام قبول کر لے تو نکاح کا ختم ہونا تین حیض گزرنے پر موقوف ہو گا، چاہے عورت کے ساتھ خاوند نے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو۔
علامہ بدر الدین العینی (م855ھ) لکھتے ہیں:

قال أبو يوسف ومحمد: عليها أن تعتد.

(البنایۃ شرح الھدایۃ: ج5 ص241)

ترجمہ: امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما للہ فرماتے ہیں کہ (کافر خاوند کے نکاح سے نکلنے کے بعد) یہ عورت عدت گزارے۔
[2] اور اسلامی ممالک میں کہ جہاں پر حکومت مسلمانوں کی ہو وہاں میاں بیوی میں سے کوئی ایک مسلمان ہو جائے اور دوسرا غیر مسلم ہو تو محض مسلمان ہونے کی  صورت میں نکاح فسخ نہیں ہو گا بلکہ  اگر عورت مسلمان ہو جائے تو اسے چاہیے کہ قاضی کے پاس مقدمہ درج کروائے قاضی شوہر پر اسلام پیش کرے گا اگر شوہر مسلمان ہو جائے تو ان کا نکاح باقی رہے گا اور وہ عورت اسی شوہر کی ہی بیوی رہے گی اور اگر شوہر مسلمان ہونے سے انکار کرے تو قاضی دونوں کے درمیان تفریق ڈال دے گا اور نکاح فسخ کر دے گا اس کے بعد عدت گزار کر وہ عورت دوسرے مسلمان مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔درمختار میں ہے:
ولو اسلم الزوج وہی مجوسیۃ فتھودت او تنصرت بقی نکاحھا کما لو کانت فی الابتداء کذلک الخ
رد المحتار باب نکاح الکافر ج 2 ص 534۔ط۔س۔ج3ص192
اور شامی میں ہے:  اما اذا اسلم زوج الکتابیۃ فان النکاح یبقی
رد المحتار باب نکاح الکافر  ج 2 ص 534۔ط۔س۔ج3ص192
اور ہدایہ میں ہے:
واذا اسلمت المراۃ وزوجھا کافرعرض القاضی علیہ الاسلام فان اسلم فھی امراتہ وان ابی فرّق بینھماوکان ذالک طلاقا عند ابی حنیفۃ و محمد رحمھما اللہ تعالیٰ وان اسلم الزوج وتحتہ مجوسیۃ عرض علیہا الاسلام فان اسلمت فھی امراتہ  وان ابت فرّق القاضی بینھما ولم تکن الفرقۃ بینھما طلاقاً
اور جب عورت مسلمان ہو گئی اور اس کا خاوند کافر ہے تو قاضی اس کے شوہر پر اسلام پیش کرے گا اگر وہ بھی مسلمان ہو گیا تو وہ عورت اس کی بیوی ہی رہے گی اور اگر مسلمان ہونے سے انکار کر لے تو قاضی دونوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا اور یہ جدائی ان دونوں کے درمیان بطور طلاق تصور کی جائے گی۔
اور اگر شوہر مسلمان ہو گیا اور اس کے نکاح میں مجوسی [یا کوئی بھی غیر مسلم] عورت ہے اس عورت پر اسلام پیش کیا جائے گا اگر وہ عورت اسلام قبول کر لے تو وہ اس کی بیوی ہی رہے گی اور اگر اسلام لانے سے انکار کر لے تو قاضی دونوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا اور یہ جدائی ان دونوں کے درمیان بطور طلاق نہیں ہو گی [بلکہ بطور فسخ نکاح کے ہو گی]
ھذا ماکان عندی واللہ اعلم بالصواب
دار الافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ
سرگودھا، پاکستان
منگل 3 ربیع الثانی 1440ھ مطابق 11 دسمبر 2018