QuestionsCategory: نکاح و طلاقشادی میں کھانا کھلانا
اسامہ خان asked 5 years ago

شادی پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانا کھلانا جائز ہے؟

بارات کا لانا اور دیگر لوگوں کو بلا کر کھانے کا انتظام کرنا لڑکی والوں کی طرف سے کیسا ہے؟؟؟

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی کسی بیٹی کے نکاح میں کھانا دیا ہے ؟؟؟

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 5 years ago

الجواب حامدا و مصلیا  ومسلما:
لڑکی کی شادی  میں جو کھانا کھلایا جاتا ہے یہ درحقیقت اپنے خاندان اور برادری کے لوگوں کے لیے دعوت کی جاتی ہے اس کو محض دعوت  سمجھ کر ہی کھلایا جائے تو جائز ہے جب کہ اس میں خرافات اور خلاف شریعت امور کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو اور رخصتی کے دن  مہمان اگر دور سے آئے ہوں  تو ان کے لیے کھانے کا انتظام کرنے میں کچھ حرج نہیں، اسی طرح باراتی اگر دودر سے آئے ہوں یا کھانے کے وقت پہنچے ہوں تو ان کے لیے کھانا تیار کرنا بھی جائز ہے،  یہ کھانا حقِ ضیافت کے طور پر جائز اور مباح ہے، لیکن مسنون نہیں،
اس موقع پر دیگر رشتے داروں اور محلہ والوں کو دعوت دینا بھی مباح ہے۔
ما في ’’ کفایت المفتي ‘‘ : ’’لڑکی والوں کی طرف سے براتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے، اگر بغیر التزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں، تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں۔‘‘ 
5/156 ،157، 158، نکاح کے بعد لڑکی والوں کا برادری کو کھانا کھلانا، مکتبہ دار الاشاعت کراچی
ما في ’’ کتاب الفتاوی‘‘ : ’’نکاح کے موقع پر بغیر کسی جبر ودباؤ کے لڑکی والوں کی طرف سے بھی ضیافت کی گنجائش ہے،… … پس یہ دعوتِ طعام سنت تو نہیں ہے، نہ عہدِ صحابہ میں اس کا عمومی رَواج تھا، اس لیے اس کو رَواج دینا بھی مناسب نہیں، البتہ اس کی گنجائش ہے۔‘‘
4/417، دلہن والوں کی طرف سے ضیافت
، لیکن آج کل لوگوں نے لڑکی کے یہاں کھانے کو لازم وضروری سمجھ لیا ہے ایسے لازم سمجھنا جائز نہیں۔
ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وکل جائز إذا أدی إلی اعتقاد ذلک کرہ۔
ہر جائز کام جب کہ وہ اس کو اعتقاد کی طرف لے جائے وہ مکروہ ہے۔
2/30 ، کتاب الصلاۃ ، مطلب یشترط العلم بدخول الوقت ، دار الکتب العلمیۃ بیروت ، و1/371 ، مکتبہ سعید کراچی ، و دار الفکر بیروت
 اور جو دعوت نہ دے اُسے طعن وتشنیع بھی کرتے ہیں، حالاں کہ یہ دونوں باتیں شرعاً جائز نہیں ہیں، مسلمانوں کو ان سے بچنا چاہیے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا نکاح جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا تو اس میں خاص کھانے کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا لیکن جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین  تشریف لےآئے تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور مہمان نوازی کے  کشمش اور کھجوروں میں سے جو کچھ گھر میں موجود تھا وہ ان کے سامنے پیش کر دیا۔
ما في ’’ مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ‘‘ : عن جابر بن عبد اللہ قال : ’’ حضرنا عرس علي بن أبي طالب وفاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فما رأینا عرسًا کان أحسن منہ حسنًا ، ہیّأ لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زبیبًا وتمرًا فأکلنا ، وکان فراشہا لیلۃ عرسہا إہاب کبش ‘‘ ۔ رواہ الطبراني في الأوسط وفیہ مسلم بن خالد الزنجي وہو ضعیف وقد وثق ۔
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 4/52 ، کتاب الصید والذبائح ، باب ما یجري في الولیمۃ ، رقم : 6147، دار الکتب العلمیۃ بیروت ، المعجم الأوسط للطبراني : 5/16، رقم : 6441، دار الکتب العلمیۃ بیروت
مجمع الزوائد میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ: ’’ہم حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ا کی شادی میں حاضر ہوئے، ہم نے اس شادی سے بہتر کوئی شادی نہیں دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر کشمش اور چھوہارے مہیا فرمائے، جسے ہم نے تناول کیا، اورشادی کی رات  ان کا بستر مینڈے کا چمڑہ تھا‘‘
اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:’’اس روایت سے لڑکی والوں کی طرف سے ثبوتِ دعوتِ طعام کی تائید تو ہوتی ہے،… لیکن سنّیت کا اِثبات مشکل ہے، بظاہر یہ’’ مِن باب ضیافۃِ الأضیافِ الحاضرین‘‘ ہے۔
ان کی عبارت \” المسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة \” کے حوالے کے ساتھ یہاں ذکر کی جا رہی ہے جو کہ اس مسئلہ میں بہترین تحریر ہے۔
 ما في ’’ نوادر الفقہ ‘‘ : ’’بیٹی والوں کی طرف سے دعوت کا مسنون ہونا اگرچہ بعض اہل فتویٰ نے لکھ دیا ہے اور مصنف عبد الرزاق کی ایک روایت پر جس میں حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے نکاح کا مفصل تذکرہ ہے اعتماد کیا ہے، جو امام عبد الرزاق نے (5/487) پر درج کی ہے، لیکن اس کا راوی یحییٰ بن العلاء البجلی ہے: وہو متروک قالہ الدار قطني وقال أحمد بن حنبل : کذاب یضع الحدیث ۔ \”یہ روی متروک الحدیث ہے اور امام احمد اور دار قطنی نے کہتے ہیں کہ یہ آدمی جھوٹا تھا اور احادیث گھڑتا تھا\”  نکاح فاطمہ کے سلسلے میں اسی انداز کی ایک روایت ابن حبان (ص/550) نے نقل کی ہے ، جس میں دعوت کا مضمون نہیں ، حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب (11/340) میں اس پر نکارت کا حکم لگادیا ہے، اور حاشیہ موارد الظمآن میں لکھا ہے: والحدیث ظاہر علیہ الإفتعال ۔ میرے خیال میں یہ حدیث بھی موضوع ہے متروک راوی کی روایت سے مسئلہ ثابت نہیں ہوسکتا ہے جب کہ وہ متہم بھی ہو۔اس کے بعد ایک روایت ملی جس سے فی الجملہ اس کی تائید ہوتی ہے:
 عن جابر بن عبد اللہ قال : حضرنا عرس علي بن أبي طالب وفاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فما رأینا عرسًا کان أحسن منہ حسنًا ہیأ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زبیبًا وتمرًا فأکلنا وکان فراشہا لیلۃ عرسہا إہاب کبش ۔ رواہ الطبراني في الأوسط وفیہ مسلم بن خالد الزنجي وہو ضعیف وقد وثق ۔
کذا في مجمع الزوائد 4/50
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ: ’’ہم حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ا کی شادی میں حاضر ہوئے، ہم نے اس شادی سے بہتر کوئی شادی نہیں دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر کشمش اور چھوہارے مہیا فرمائے، جسے ہم نے تناول کیا، اورشادی کی رات  ان کا بستر مینڈے کا چمڑہ تھا‘‘
لیکن سنیت کا اثبات مشکل ہے، بظاہر یہ مِن باب ضیافۃ الأضیاف الحاضرین ہے۔
 بندہ محمد یونس عفی عنہ ۔ ص/107، شادی میں لڑکی والوں کی طرف سے دعوت کرنے والی موضوع حدیث،ادارہ افاداتِ اشرفیہ دوبگّا ، ہردوئی روڈ لکھنؤ،
بحوالہ: المسائل المہمة فیما ابتلت بہ العامة ۔ اہم مسائل جن میں ابتلائے عام ہے جلد 8  ص186
مؤلف : حضرت مفتی محمد جعفر ملی رحمانی 
واللہ اعلم بالصواب
دار الافتاء مرکز اھل السنۃ والجماعۃ
سرگودھا، پاکستان
6 ربیع الاوّل 1440ھ بمطابق 15 نومبر2018ء