اس حدیث کے دنیاوی اور اخروی اعتبار سے الگ الگ معنی ہیں :
دنیاوی اعتبار سے اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ مومن بالکل سیدھا سا بندہ ہوتا ہےاور انتہائی شریف اور ناتجربہ کار ہوتا ہے مومن کسی کو تنگ نہیں کرتا ۔اگر کسی پر احسان نہیں کر سکتا تو تکلیف بھی نہیں دیتا ۔اورفاجر ، بدکار دھوکے ہی دیتا رہتا ہے اور ناانصافیاں کرتا رہتا ہے۔ نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتا رہتا ہے ۔
اخروی اعتبار سے مطلب یہ ہے کہ مومن موت اور آخرت کی فکر میں لگا رہتا ہے اور جنت کا امیدوار ہوتا ہے اسی والے اعمال کو اپناتا ہے اور فاجرلوگوں کے درمیاں پھوٹ ڈالنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور گناہ والے اعمال جھوٹ ،غیبت ،وغیرہ والے اعمال کو اپناتا ہے اور انہی بد اعمالیوں میں اپنی زندگی گزار دیتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا پاکستان
11۔صفر1442
29۔ستمبر2020
Please login or Register to submit your answer