کچھ لوگ غیراللہ سے مدد مانگنے کی دلیل کے طور پرحضرت شاہ ولی اللہ رحمةاللہ کا عمل انکی کتاب الانتباہ سلاسل اولیاءاللہ یا اس سے ملتا جلتا نام کا حوالہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت فرماتے ہیں کہ مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو میں بعد مغرب نجف شریف کی طرف 6 قدم چل کر 11 بار نادِعلی پڑھتا ہوں تو میری مشکل حل ہو جاتی ہے- مزید یہ کہ حضرت نے اس کتاب میں خود جواہرِ خمسہ اور دعائے سیفی جس میں نادِعلی بھی شامل ہے کی اجازت اور سند کا واقعہ تحریر فرمایا ہے۔
یہ بات کہاں تک ٹھیک ہے؟
الجواب
اہل السنت والجماعت احناف دیوبندکے ہاں اصول شرعیہ چار ہیں قرآن وحدیث اور اجماع وقیاس ۔ان چار اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئےہمارے اکابر کی وہ عبارات جو ان اصول اربعہ سے ٹکراتی ہیں بوجود یہ کہ ان اکابر کاادب واحترام کوملحوظ رکھتےہوئےان عبارات کواکابر کامحض تفرد سمجھا جائے گااور عبارات کو رد کردیاجائےگا۔
شاہ ولی اللہ رحمۃاللہ علیہ کی مذکورہ عبارت بھی جو،،جواہرخمسہ،،میں موجود ہےاس عبارت کو بھی شاہ صاحب کا محض تفرد سمجھا جائے گااور اصول اربعہ سے ٹکرانے کی وجہ سے رد کر دیا جائےگا۔
اس بات کو عام فہم انداز میں سمجھانے کےلیے حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی صاحب کی وہ عبارت جوان کی کتاب،،علمائےدیوبند کادینی رخ اور مسلکی مزاج،،میں ہےذکر کرنا مناسب ہے۔
حکیم الاسلام رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :علمائے دیوبند کامسلک اولیاء اللہ کےشطحیات اور ان کے غلبہ حال کے کلمات و افعال میں نقطہ اعتدال پر ہے وہ نہ تواقوال و افعال پر ان حضرات کی شان میں کوئی ادنی سی بے ادبی اور گستاخی کو جائز سمجھتے ہیں کہ ان کی ولایت سے منکر ہوجائیں یا اس ولایت کو مشکوک سمجھنے لگیں یا ان پر طعن وتشنیع کرنے لگیں اور ان امور کو خرافات وواہیات کہ کر ان پر طعن وملامت یا سب وشتم ہی کو دین سمجھنے کی گمراہی میں مبتلاہوجائیں اور نہ ا س کے بالمقابل غلو ئے محبت سے ان مبہم یاموہم کلمات وافعال کو اصلی طریق ہی سمجھتے ہیں کہ اس کی طرف لوگوں کو بلائیں اور جو نہ آئے تو جذباتی رنگ میں اسے اسلام سے خارج کرنے کے درپے ہوجائیں۔
پس نہ انہیں علی الطلاق رد کردینا جائز سمجھتے ہیں کہ وہ بالکل ہی “لایعباء بہ”ہو کر رہ جائیں اور نہ انہیں کوئی مستقل مقام سمجھتے ہیں کہ اس کے بارے میں لب کشائی کو خلاف طریق سمجھنے لگیں۔
مجوعہ رسائل حکیم الاسلام ج3ص574
2.حضرت مجدد الف ثانی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں “عمل صوفیہ در حل وحرمت سند نیست ہمیں بس است کہ ایشاں رامعذور داریم وملامت نہ کنیم۔
مطلب۔ یہ ہےکہ جب حلال وحرام کے مسئلہ میں صوفیاء کرام کی بات حجت اور سند نہیں تو عقائد میں انکی گول مول اور مجمل باتیں کب قابل قبول ہو سکتی ہیں۔
مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ چہارم ج1 ص136
3۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب بھی “البلاغ المبین” میں صاف طور پر اس کی تصریح کرتے ہیں کہ کسی پیر اور صوفی کی بات حجت نہیں ہو سکتی ۔قرآن کریم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی اتباع ہی ایمان ہے اور اسی میں سلامتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دالافتاء
مرکز اھل السنۃوالجماعۃ سرگودھا پاکستان
23دسمبر2018
Please login or Register to submit your answer