Questionsسیاہ خضاب کا حکم
Mufti Mahtab Hussain Staff asked 6 years ago

(الف)۔ مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ کیا داڑھی کو کلر کرنا جائز ہے؟اگر ہے تو کون کون سا ؟ خضاب یا مہندی؟ اور کس حد تک مہندی کے رنگ کا شیڈچینج کر سکتے ہیں تفصیل کے ساتھ ۔

(ب): مرد کے لیے کن سورتوں میں ایک سے زیادہ نکاح کرنا سنت یا مستحب ہے؟ مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ ازواج تھیں،اسی طرح مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بھی ایک سے زیادہ ازواج تھیں۔اس طرح کن کن احکام و مسائل کو سامنے رکھ کرانسان ایک سے زیادہ شادی کر سکتا ہے؟مفتی صاحب میں جانتا ہوں سوال تفصیلی ہیں جیسے آپ کے لیے ممکن ہو رہنمائی فرمائیے گا۔

المستفتی: چوہدری ثاقب

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 6 years ago

داڑھی کوکلر کرنا بشرطیکہ سیاہ رنگ کے علاوہ ہو جائز و مستحب ہے۔ سیا ہ خضاب استعمال کرنا مکرہ تحریمی ہےالبتہ مجاہد کو سیاہ خضاب دورانِ جہاد استعمال کرنا جائز ہے۔ اور مہندی کا رنگ کیسا ہو؟ تو سیاہ رنگ مستثنی کر کے کسی خاص رنگ کی تحدید نہیں ،حدیث میں تین رنگ کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے۔1۔ مہندی کا خضاب2۔ کتم کا جو سیاہی مائل ہوتا ہے،حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بہترین خضاب قرار دیا ہے۔3۔زردرنگ
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا معمول زرد خضاب کا تھا اور روایت فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی رنگ سب سے زیادہ محبوب تھا اس طرح ان تین رنگوں کے علاوہ بعض صحابہ سے زعفرانی خضاب کا استعمال بھی مروی ہے۔
1۔ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى لَا يَصْبُغُونَ فَخَالِفُوهُمْ
صحیح البخاری:ج2ص875
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بےشکیہود و نصاری خضاب استعمال نہیں کرتے تم(خضاب استعمال کر کے) ان کی مخالفت کرو۔
2۔ عن أبي ذر قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن أحسن ما غيرتم به الشيب الحناء والكتم
سنن النسائي:ج2ص278
ترجمہ:حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہسے مروی ہے وہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ بے شک بہترین خضاب جس کے ذریعہ تمداڑھی کو رنگ دو وہ مہندی کا خضاب اور کتم ہے۔
3۔ عن زيد بن أسلم قال : رأيت بن عمر يصفر لحيته بالخلوق فقلت يا أبا عبد الرحمن إنك تصفر لحيتك بالخلوق قال إني رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم يصفر بها لحيته ولم يكن شيء من الصبغ أحب إليه منها ولقد كان يصبغ بها ثيابه كلها حتى عمامته
سنن النسائي:ج2ص278
ترجمہ: حضرت زید بن اسلم سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حلوق سے اپنی داڑھی کوزرد کر رہے ہیں تو میں نے ان سے کہاکہ اے ابو عبد الرحمٰن آپ دوڑھی کو خلوق کے ساتھ زرد کر رہے ہیں تو ابن عمر نے جوابا فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی داڑھی خلوق سے زرد کرتے ہوئے دیکھا ہےاور آپ علیہ السلام کو تمام رنگوں میں زرد رنگ بہت زیادہ پسند تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس زرد رنگ سے اپنے کپڑوں اور اپنے عمامہ کو بھی رنگتے تھے۔
4۔ وَرُوِيَ عن أبي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ قال كما يُعْجِبُنِي أَنْ تَتَزَيَّنَ لي يُعْجِبُهَا أَنْ أَتَزَيَّنَ لها كَذَا في الذَّخِيرَةِ۔
فتاوی الھندیۃ:ج5ص439
ترجمہ: امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے مروی ہےوہ فرماتے ہیں کہ جس طرح مجھے یہ پسند ہے کہ میری بیوی میرے لیے زیب و زینت کو اختیار کرے اسی طرح اسے بھی یہ بات پسند ہے کہ میں اس کے لیے زیب و زینت اختیار کروںجیسا کہ ذخیرہ میں ہے۔
5۔ وَأَمَّا الْخِضَابُ بِالسَّوَادِ فَمَنْ فَعَلَ ذلك من الْغُزَاةِ لِيَكُونَ أَهْيَبَ في عَيْنِ الْعَدُوِّ فَهُوَ مَحْمُودٌ منه اتَّفَقَ عليه الْمَشَايِخُ رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى
فتاوی الھندیۃ:ج5ص438
اور بہر حال سیاہ خضاب استعمال کرنا تو اگر مجاہدین میں سے کسی نے سیاہ خضاب لگایا تاکہ دشمن کی آنکھوں میں یہ زیادہ رعب دار لگے تو یہ محمود ہےاس پر تمام مشایخ علیھم الرحمۃ کا اتفاق ہے۔
(ب):مرد کے لیے ایک سے زیادہ نکاح کرنا اسی صورت میں جائز اور مناسب ہےجبکہ شریعت کے مطابق تمام بیویوں کے درمیان برابری کر سکےاور سب کے حقوق کا لحاظ رکھ سکے۔
یعنی تمام بیویوں کو برابر نفقہ،ایک ہی معیار کی رہائش اور ایک ہی جیسی سہولتیں دےاور تمام ازواج کے درمیان دنوں کی تقسیم بھی یکساں ہو،اگر ان تمام باتوں پر قدرت نہ ہو تو ایسی صورت میں ایک ہی نکاح کافی ہےکیونکہ اگر تمام بیویوں میں عدل و انصاف اور مساوات قائم نہ رکھ سکا تو سخت گنہگار ہو گا۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں کے درمیان عدل و مساوات کی سخت تاکید فرمائی ہےاور اس کے خلاف کرنے والے پر سخت وعید سنائی ہیں۔
چنانچہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے نکاح میں دوعورتیں ہوں اور وہ ان کے حقوق میں برابری اور انصاف نہ کر سکے تو وہ قیامت میں اس طرح اتھایا جائے گا کہ اس کا ایک پہلوگرا ہوا ہو گا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد مبارک ہے:
فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا
سورۃ النساء:آیت،3
ترجمہ: پس نکاح کرو ان عورتوں کے ساتھ جو تمہیں اچھی لگیں دودو،تین تین،اور چارچار،پھر اگر تمہیں ڈر ہوکہ ان میں انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرو،یا جو لونڈی تمہاری ملکیت میں ہے وہی سہی،یہ ظلم سے بچنے کی زیادہ بہتر صورت ہے۔
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ” إذا كانت عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط ” . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي
مشكاة المصابيح: باب القسم،الفصل الثاني ص279 رقم،3236
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اگر ایک شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان میں عدل و انصف قائم نہ کرے تو وہ قیامت کہ دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک دھڑ گرا ہوا ہو گا۔
امام ترمذي،امام أبو داود، امام نسائي، امام ابن ماجہ،اور امام دارمي نے بھی اس روایت کواپنی سنن میں نقل کیا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے آیت مذکورہ کی تفصیل معارف القرآن:ج2سورۃ النساء آیت 3کے تحت ذکر کی گئی تفسیر اور “اسلام میں چار شادیوں کی شرعی حیثیت”میں دیکھ لی جائے،
کتبہ: مولانا مہتاب حسین سدوزئی