Questionsانگوٹھی استعمال کرنا
Mufti Mahtab Hussain Staff asked 6 years ago

اسلام میں چاندی کی رِنگ مرد کے لیے پہننے میں کیا حیثیت ہے؟ اور اس رِنگ کے ساتھ کوئی بھی پتھر (یاقوت، عقیق، فیروزہ) لگا ہو تو ان کے پہننے کا کیا حکم ہے اور کون کون سے پتھر پہننے چاہییں؟

بہت لوگوں سے میں نے سنا کہ فلاں پتھر پہنو اس کا یہ یہ فائدہ ہے الحمد للہ میں اس قسم کے نظریہ سے بالکل بری ہوں مجھے تو حضرت عم رضی اللہ عنہ کی وہ بات یاد آتی ہے جو انہوں نے حجرِ اسود سے مخاطب ہو کر کہی تھی ۔

اللہ آپ کو اس کی جزا دے اس مسئلہ میں آپ میری رہنمائی فرما دیں آپ کی دعاؤں کا طلبگار

ارشد نواز

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 6 years ago

مرد کے لیے شریعت میں لوہا، سونا، پیتل، وغیرہ دھاتیں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔انگوٹھی کے استعمال میں علماء نے بہت کلام کیا ہے کہ کب پہننی چاہیے۔
محدثین کے طرز ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلق جائز ہے لیکن فقہاء نے اس میں ایک باریک نقطہ بیان فرمایا ہے کہ انگوٹھی کا استعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا جب ضرورت دامن گیر ہوئی اس سے معلوم ہوا کہ امیر، قاضی متولی وغیرہ جن کے لیے مہر مطلوب ہوان کو ہی استعمال کرنی چاہیے، بے ضرورت اس کا استعمال بہتر نہیں کہ یہ زینت اور آرائش کی چیز ہےاور یہ عورتوں کو ہی زیب دیتا ہے۔
چنانچہ رد المختار 3/231 میں بعض تابعین کے حوالے سے منقول ہے کہ انگوٹھی امیر [بادشاہ، خلیفہ، یا امام] استعمال کرتا ہے یا کاتب یا پھر احمق استعمال کرتا ہےلہذا بغیر ضرورت اس کا استعمال کرنا خلاف اولیٰ اور مکروہ تنزیہی ہے۔
مردوں کے لیے چاندی کی انگوٹھی ایک مثقال سے کم مقدار میں جائز ہے اس سے زیادہ چاندی بھی جائز نہیں اور ایک مثقال کی مقدار 4 گرام یا 374 ملی گرام ہے۔
اور انگوٹھی میں اصل اعتبار حلقہ [گول رِنگ] کا ہے اگر انگوٹھی کا حلقہ چاندی کا ہو اور اس پر نگینہ عقیق، یاقوت یا کسی اور پتھر کا ہو تو بھی جائز ہے اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔
در مختار و رد مختار5/230 بحوالہ قاموس الفقہ 3/322،323
اس کے علاوہ کسی قسم کا کڑا یا کوئی ہار زیب تن کرنا جائز نہیں۔
باقی آپ کا یہ کہنا کہ کون کون سے پتھر پہننے چاہییں اس کے لیے اتنا عرض ہے کہ بِلا ضرورت کسی قسم کا پتھر نہ پہنا جائے کہ آج کل یہ کفار، مشرکین اور روافض کی علامات بن چکی ہیں ان سے اجتناب لازم ہے ہاں اگر کسی شرعی مجبوری کی وجہ سے وقتی طور پر کوئی دہات استعمال کی جائے تو بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت گنجائش موجود ہو گی اس سے زیادہ جائز نہیں۔
ھذا ماکان عندی واللہ اعلم بالصواب
مولانا مہتاب حسین سدوزئی