QuestionsCategory: قرآن وتفسیرقرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو جلانا
عمران احمد asked 5 years ago

قرآن مبارک کی آیات کو کیا جلانا چاہیے بہت ساری جمع ہوگئی ہو تو؟

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 5 years ago

اگر قرآن شریف کے اوراق بوسیدہ ہوجائیں تو ان کو کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردینا افضل ہے۔ جب تک ان اوراق پر حروف باقی ہوں تو انہیں جلانا نہیں چاہیے۔درمختار میں ہے کہالمصحف اذا صار بحال لایقرء فیہ یدفن کالمسلم

(الشامیۃ ج1ص354بیروت)

ترجمہ:

قرآن مجید کی جب ایسی حالت ہوجائے کہ اس پر تلاوت نہ کی جاسکے تو اسے دفن کردیا جائے گا جیسے مسلمانوں کو دفن کیا جاتاہے۔فقہاء احناف رحمہم اللہ نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق کو جلانے کی بجائے یا تو کسی محفوظ مقام پر دفن کردیئے جائیں یا اگر ان اوراق کے اندر دھلنے کی صلاحیت ہو تو ان اوراق کے حروف کو دھو کر ان کے پانی کوکسی کنویں وغیرہ میں ڈال دیا جائے۔

لہذا ان اوراق کو دفن کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کو کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کریں اور اگر یہ دونوں کام (بوسیدہ اوراق کو دھو کر اسکے پانی کو کنویں کے اندر ڈالنا یا ان اوراق کو دفن کرنا )مشکل ودشوار ہوتو ان اوراق کو کسی دریا، کنویں یا سمندر وغیرہ میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔

وفی الدرالمختار :الکتب التی لاینتفع بھا یمحی عنھا اسم اللہ وملائکتہ ورسلہ ویحرق الباقی، ولا باس بان تلقی فی ماء جار کما ھی اوتدفن وھو احسن کما فی الانبیاء

وفی الشامیۃ تحتہ:المصحف اذا صار خلقا وتعذر القراءۃ منہ لا یحرق بالنار، الیہ اشار محمد وبہ ناخذ،ولایکرہ دفنہ، وینبغی ان یلف بخرقۃ طاھرۃ، ویلحد لہ، لانہ لوشق ودفن یحتاج الی اھالۃ التراب علیہ،وفی ذالک نوع تحقیر

(الشامیۃ ج 9696بیروت)

ترجمہ:

ایسی کتابیں جو استعمال کے قابل نہیں ان سے اللہ تعالی،فرشتوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے ناموں کو مٹا کر باقی کو جلادیا جائے گا۔ان کتب کو جاری پانی میں ڈالنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔دفن زیادہ اچھا ہے جیسا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو دفن کیا گیا۔

شامی میں ہے کہ قرآن مجید جب بوسیدہ ہوجائے اور اس سے تلاوت کرنا مشکل ہو تو پھربھی اسے جلانا نہیں چاہیے۔ یہی بات امام محمد رحمہ اللہ نے فرمائی ہے اور ہم بھی اسی بات کے قائل ہیں اور اس قرآن کو دفن کرنا مکرہ نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اسے کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر بغلی قبر میں دفن کیا جائے،اس لیے کہ اگر شق (گڑھا کھود کر)بنا کر دفن کیا جائے تو اس قرآن پر مٹی ڈالنے کی ضرورت پیش آئے گی اور اس میں ایک قسم کی بے ادبی ہے۔

باقی رہا مسئلہ قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق کو جلانے کا۔ اگر ان بوسیدہ اوراق کو بطور احترام کے جلا بھی دیا جائے تو شرعاً اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ مگر احتیاطا ًبوسیدہ اوراق کو جلانے کے بعد اس کی راکھ کو کہیں دفن کردیا جائے۔

بعض فقہی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب قرآن مجید سے اوراق بوسیدہ ہوجائیں تو انہیں جلایا نہ جائے بلکہ کسی محفوظ مقام پر دفن کیا جائے جیسا کہ مذکورہ بالا حوالہ (الشامیۃ )سے معلوم ہوا ہے کہ

لایحرق بالنار

کہ بوسیدہ اوراق کوجلایا نہ جائے اور دوسری طرف حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارےمیں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور کے اندر ایسے مصاحف کو جلانے کا حکم دیا تھا کہ جن کے اندر منسوخ آیات لکھی ہوئی تھیں۔

بظاہر تو ان دونوں (فقہی عبارات، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قول )کے درمیان تعارض نظر آتا ہے۔مگر حقیقت میں ان دونوں کے درمیان کوئی تعارض نہیں،فقہی عبارات میں جہاں جلانے سے منع کیا گیا ہے وہ اس صورت پر محمول ہے کہ جب اس سے توہین کا قصد وارادہ ہو،اور اگر اس سے توہین کا قصد وارادہ نہ ہو بلکہ بطور احترام کے جلا یا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔

خلاصہ کلام:

احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق کو جلانا نہیں چاہیے،بلکہ دفن کردینا چاہیے۔