QuestionsCategory: متفرق سوالاتتبلیغی جماعت کے متعلق بعض شبہات کے جوابات
کامران ملک asked 4 years ago

محترم و مکرم مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
السلام علیکم  ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ہمارے علاقے میں بعض لوگ تبلیغی جماعت کی مخالفت کرتے ہیں، ان پر فتویٰ بازی کرتے ہیں اور بعض اہل حق علماء کی عبارات پیش کرتے ہیں کہ فلاں فلاں بزرگ نے بھی تبلیغی جماعت کے خلاف بات کی ہے۔ براہِ کرم اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں ؟

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 4 years ago

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
[۱]:         تبلیغ دین اور حفاظت دین؛  اسلام کے بنیادی اور مرکزی شعبے ہیں۔ پھر اس  کی آگے مختلف صورتیں ہیں مثلاً تعلیم، تدریس، تربیت، خانقاہی نظام، تصوف وطریقت، رفاہِ عامہ، اصلاح و ارشاد، تمکین دین، تنفیذ دین، اہل باطل کے وساوس  و شبہات کی مدلل تردید وغیرہ  یہ سب کام اسلام کے شعبہ جات ہیں جن کی اہمیت اور افادیت سے ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
موجودہ دور میں اکابر کی ترتیب سے کئے جانے والے تبلیغی کام نے پوری دنیا میں خاموش انقلاب برپا کیا ہے، ہزارہا بے دین لوگوں کو ابدی کامیابی  نصیب ہوئی، لاکھوں انسانوں کو اسلام کا صحیح پیغام ملا اور وہ اس کے دامن عاطفت میں پناہ گزیں ہوئے۔ ان گنت افراد ایسے ہیں جن کے دل کی دنیا بدلی اور معصیت کی زندگی سے نکل کر اتباعِ سنت اور فرمانبرداری کی زندگی بسر کرنے لگے۔ بے نمازی  نمازی بن گئے اور بن رہے ہیں۔ معاشرے سے بے حیائی، معصیت اور فحاشی و عریانی دھیرے دھیرے ختم ہونا شروع ہو گئی  ۔
اللہ کرے یہ محنت والا کام اور بڑھے، یقین والی دعوت مزید ترقی پائے اور اللہ کے راستے میں چلنے والے افراد اخلاص اور لگن کے ساتھ اس کام میں جڑے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں اور کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے ۔
[۲]:        دین کے ہر شعبہ سے منسلک اکابر نے حالات اور وقت کی ضرورتوں کو  سامنے رکھ کر ایک نصاب ترتیب دیا ہے جیسے قرآن پڑھنے کے لیے ابتدائی قاعدے اور تجوید کی کتب، شریعت کو سمجھنے کے لیے نصاب تعلیم؛ درس نظامی۔ پھر یہ نصاب حالات کے بدلنے سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح اکابرینِ تبلیغ نے امت کو دین پر لانے کے لیے ایک  نصاب اور ترتیب مقرر کی تاکہ امت کو اس طرف لانے میں آسانی ہو۔ اب اگر دین کے کسی شعبہ سے متعلق مرتب کیا گیا نصاب یا ترتیب کسی کے ہاں قابلِ اشکال ہو تو بیٹھ کر اس پر بات کرنی چاہیے  اور اصلاح کی فکر کرنی چاہیے، اس کام کی مخالفت  نہیں کرنی چاہیے ۔
[۳]:        تبلیغ کا نصاب اور ترتیب بتانے والے حضرات نبی، صحابی یا تابعی نہیں بلکہ عام امتی ہیں جن میں خوبیاں بھی ہوں گی اور کوتاہیاں بھی ہوں گی۔ تو ان کی  خوبیوں پر حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اگر بعض افراد سے کوتاہی ہو جائے تو مکمل تبلیغ کو غلط کہنے کے بجائے اس فرد کی کوتاہی کی تلافی کا سوچنا چاہیے۔ جو حضرات سمجھا سکتے ہوں وہ سمجھانے کی کوشش کریں، بصورت دیگر ان کی اصلاح کی دعا کرنی چاہیے ۔
 یہ بات بھی ذہن میں رہے  کہ ہمارے حضرات میں سے  جن کو تبلیغ کا مخالف کہا جاتا ہے وہ نفسِ تبلیغ کے مخالف نہیں ہوتے بلکہ وہ  تبلیغ کرنے والے حضرات میں پائی جانے والی کوتاہیوں کی وجہ سے اصلاح کی نیت سے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ اس لیے  ان حضرات کی عبارات کو بنیاد بنا کر پوری تبلیغ  کی نفی کر دینا  نامناسب ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے کرم سے اس کا م کو قبول فرمائے ۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب
(مولانا) محمد الیاس گھمن
8-جولائی 2019ء