QuestionsCategory: نمازنماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا
Molana Abid Jamshaid Staff asked 6 years ago

نماز کی حالت میں ہاتھ کہاں باندھنے چاہیے؟ ہمارے یہاں کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ عورتوں کی طرح سینہ پر باندھنے چاہیے جب کہ ہم نے آج تک علماء سے یہی سنا ہے کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھنے چاہیے۔

برائے مہربانی مفصل اور مدلل جواب دےکرہماری لیے راہنمائی فرمائیں۔

محمد ادریس

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 5 years ago

نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے اس  کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑا جائے اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر دونوں ہاتھ ناف کے نیچے رکھے جائیں ،  سینہ پر ہاتھ باندھنے کی کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے۔
مختصرا دلائل پیش خدمت ہیں:

دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑنا:

عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّا مَعْشَرَالْاَنْبِیَاء اُمِرْنَا اَنْ نُؤَخِّرَ سُحُوْرَنَا وَنُعَجِّلَ فِطْرَنَا وَاَنْ نُمْسِکَ بِاَیْمَانِنَا عَلٰی شَمَائِلِنَا فِیْ صَلٰوتِنَا۔

 صحیح ابن حبان ص 555.554 ذکر الاخبارعما یستحب للمرئ،رقم الحدیث 1770، المعجم الکبیر للطبرانی ج 5 ص 233  رقم الحدیث10693،المعجم الاوسط ج 3ص179 رقم الحدیث 4249

ترجمہ :     حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم انبیاء علیہم السلام کی جماعت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ سحری تاخیر سے کریں، افطار جلدی کریں اور نماز میں اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر رکھ کر پکڑیں۔

دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے گٹے (کلائی )پر رکھنا:
:1                  عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : لَاَ نْظُرَنَّ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّیْ؟ قَالَ فَنَظَرْتُ اِلَیْہِ قَامَ فَکَبَّرَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی حَاذَتَا اُذُنَیْہِ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلٰی ظَھْرِکَفِّہِ الْیُسْریٰ وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ ۔

صحیح ابن حبان ص 577ذکر ما یستحب للمصلی رفع الیدین۔۔ رقم الحدیث 1860،سنن النسائی ج1 ص141 باب موضع الیمین من الشمال فیا لصلوٰۃ،سنن ابی داؤد ج 1ص112 باب تفریع استفتاح الصلوٰۃ

ترجمہ :     حضرت وائل بن حجررضی اللہ عنہفرماتے ہیں کہ ایک بار میں نے کہا کہ دیکھوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے ہیں ؟
تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نما زکے لئے کھڑے ہوئے ، تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ کانوں کے قریب کر لئے پھر اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پشت ، گٹے اور کلائی پر رکھا۔
:2                  عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍرضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ النَّاسُ یُؤْمَرُوْنَ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ الْیَدَ الْیُمْنٰی عَلٰی ذِرَاعِہِ الْیُسْریٰ فِی الصَّلٰوۃِ ۔

صحیح البخاری ج 1ص 102باب وضع الیمنی علی الیسریٰ

ترجمہ :     حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ لوگوں (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعینرحمہماللہکو حکم دیا جاتا کہ نمازکے وقت آدمی اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں کلائی پر رکھے ۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا:
:1                  عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَضَعَ یَمِیْنَہٗ عَلَی شِمَالِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔

مصنف ابن ابی شیبۃج3 ص321،322، وضع الیمین علی الشمال،رقم الحدیث 3959

ترجمہ :     حضرت وائل بن حجررضی اللہ عنہفرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے ہوئے تھے ۔
:2                  عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ اِنَّ مِنَ السُّنَّۃِ فِی الصَّلٰوۃِ وَضْعَ الْاَکُفِّ عَلَی الْاَکُفِّ تَحْتَ السُّرُّۃِ۔

الاحادیث المختارہ للمقدسی ج2 ص387 رقم الحدیث 771,مصنف ابن ابی شیبۃ ج 3ص324 ،وضع الیمین علی الشمال،رقم الحدیث 3966

ترجمہ :    حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت یہ ہے کہ اپنے (دائیں)ہاتھ کو (بائیں) ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے ۔
:3                  عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ ثَلاَثٌ مِّنْ اَخْلَاقِ النُّبُوَّۃِ تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَ تَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضْعُ الْیَدِالْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْریٰ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔

الجوہر النقی علی البیہقیج2 ص32 بابوضعالیدینعلیالصدرفیالصلوۃ

ترجمہ :حضرت انسرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں نبوت کے اخلاق میں سے ہیں۔
:1        روزہ جلدی افطار کرنا۔
:2         سحری دیر سے کھانا۔
:3        نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر ناف کے نیچے رکھنا۔
سینہ پار ہاتھ باندھنے والے جس روایت سے استدلال کرتے ہیں پہلے وہ حدیث اور پھر  اس  حدیث کی اسنادی حیثیت  بھی ملاحظہ فرمائیں۔
: أخبرنا أبو طاهر نا أبو بكر نا أبو موسى نا مؤمل نا سفيان عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره.

صحیح ابن خزیمۃ: ج1ص272،رقم الحدیث 479 باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلاۃ

جواب نمبر1:

اس کی سند میں ایک  راوی ”مؤمل بن اسماعیل“ ہے جن پر بہت سارے ائمہ  جرح و تعدیل نے کلام کیا ہے۔ ائمہ کی آراء ملاحظہ ہوں:
1:            امام بخاری:  منکر الحدیث•

 المغنی فی الضعفاء للذھبی: ج2ص446 ،میزان الاعتدال للذھبی: ج4ص417،تہذیب التہذیب لابن حجر: ج6ص489

2:            امام ابو زرعہ الرازی: فی حدیثہ خطاء کثیر• (میزان الاعتدال: ج4 ص417 رقم 8445)
3:            امام ابن حبان: ربمااخطاَ• (تہذیب التہذیب: ج6ص489 رقم 2877)
4:            امام ابن سعد: کثیر الغلط• (الطبقات الکبریٰ: ج5 ص501)
5:            امام عبد الباقی بن قانع البغدادی: یخطی• (تہذیب التہذیب: ج6 ص 490 رقم 8277)
6:            امام ذھبی: ذکرہ فی الضعفاء•  (المغنی فی الضعفاء ج2ص446)
7:            امام ابو حاتم الرازی: صدوق کثیر الخطاء• (الجرح و التعدیل: ج8 ص427 رقم 15016)
8:            امام زکریا بن یحییٰ الساجی: کثیر الخطاء لہ اوہام یطول ذکرہا• (تہذیب التہذیب: ج6 ص 490 رقم 8277)
9:            امام محمد بن نصر المروزی: فإن هذا حديث لم يروه عن حماد بن زيد غير المؤمل وإذا انفرد بحديث وجب أن توقف ويتثبت فيه لأنه كان سیئ الحفظ كثير الغلط• (تعظیم قدر الصلاۃ للمروزی: ص574)
10:         یعقوب بن سفیان الفارسی: أن حديثه لا يشبه حديث أصحابه، حتى ربما قال: كان لا يسعه أن يحدث وقد يجب على أهل العلم أن يقفوا عن حديثه، ويتخففوا من الرواية عنه؛ فإنه منكر يروي المناكير عن ثقات شيوخنا، وهذا أشد•

(کتاب المعرفۃ و التاریخ: ج3 ص492)

11:         امام دار قطنی: کثیر الخطاء• (سوالات الحاکم للدارقطنی: 492)
12:         امام احمد بن حنبل: مؤمل کان یخطئی (سوالات المروزی: 53)
13:         حافظ ابن حجر العسقلانی: صدوق سیئ الحفظ• (تقریب التہذیب:7029 رقم 584)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: مؤمل بن إسماعيل في حديثه عن الثوري ضعف• (فتح الباری: ج9 ص297)  كثير الخطأ• (ج13 ص42)
اور یہ روایت بھی مؤمل عن الثوری کے طریق سے مروی ہے۔
14:         علامہ ابن الترکمانی: دفن کتبہ فکان یحدث من حفظہ فکثر خطاءہ• (الجوہر النقی: ج2 ص30)
15:         علامہ نور الدین الہیثمی:  آپ نے مجمع الزوائد میں مختلف مقام پر مؤمل پر کلام کیا ہے، چند یہ ہیں:

ضعفه البخاري• (تحت ح6532 باب کراہیۃ شراء الصدقۃ لمن تصدق بھا)
ضعفه البخاري وغيره• (تحت ح7385 باب نکاح المتعۃ)

ضعفه الجمهور• (تحت ح8068 باب فی حمر الاھلیۃ)
ضعفه جماعة •(تحت ح8563باب ما جاء فی الصباغ)
ضعفه البخاري وغيره• (تحت ح8917 باب الخلفاء الاربعۃ)
علامہ الہیثمی کے اس مجموعی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک  مؤمل بن اسماعیل ”ضعیف عند الجمہور“ ہے۔
حتی کہ خود غیر مقلدین نے بھی اس پر کلام کیا یا دیگر حضرات کا کلام نقل کیا۔ چنانچہ ناصرالدین البانی صاحب نے اس پر جرح کی اور کہا:

ضعيف لسوء حفظه وكثرة خطإه• (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: ج2 ص293)

اور اس سند کے بارے میں کہا: اسنادہ ضعیف لان مؤملاوھو ابن اسماعیل سیئی الحفظ.

(حاشیہ ابن خزیمہ ج1ص272 باب فی الخشوع فی الصلاۃ)

نیز محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری غیر مقلد  نے امام بخاری اور حافظ ابن حجر کا کلام نقل کر کے اس کا  مؤمل کا ضعیف ہونا ثابت کیا۔

(دیکھیےتحفۃ الاحوذی: ج6 ص67)

عبد الرؤف بن عبد الحنان سندھو غیر مقلد نے لکھا:
”یہ سند ضعیف ہے کیونکہ مؤمل بن اسماعیل سئی الحفظ ہے جیسا کہ ابن حجر نے تقریب (۲/ ۹۰) میں کہا ہے۔ ابو زرعہ نے کہا ہے کہ یہ بہت غلطیاں کرتا ہے۔ امام بخاری نے اسے منکر الحدیث کہا ہے۔ ذہبی نے کہا ہے کہ یہ حافظ عالم ہے مگر غلطیاں کرتا ہے۔ میزان (۴/ ۲۲۸)“

(القول المقبول فی شرح و تعلیق صلاۃ الرسول از عبد الرؤف بن عبد الحنان غیر مقلد: ص340)

جواب نمبر 2:

اس روایت کے راوی امام سفیان ثوری  ہیں جو خود ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں ۔ (فقہ سفیان الثوری ص561)
اور جب راوی کا اپنا عمل اپنی روایت کے خلاف ہو تو وہ روایت قابل عمل نہیں ہوتی کیونکہ اصول حدیث کا قاعدہ ہے:

 عمل الراوی بخلاف روایتہ بعد الروایۃ مما ہو خلاف بیقین یسقط العمل بہ عندنا• (المنار مع شرحہ ص190)

لہذا یہ روایت ساقط العمل ہے۔
اس تمام تحریر کا خلاصہ یہ نکلا کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے، قرآنی تفسیر، احادیثِ صحیحہ اور صحابہ کرام کے آثار سے ثابت ہے اور سینہ پر عورتوں کی طرح مردوں کا ہاتھ باندھنا خلاف سنت ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم