QuestionsCategory: میت وجنازہشہید کی نماز جنازہ کا حکم
Mufti Shabbir Ahmad Staff asked 5 years ago

یہ حدیث ہے شہداء احد کو غسل اور نماز جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق…

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ثُمَّ يَقُولُ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدٍ قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ وَقَالَ أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ بِدِمَائِهِمْ وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِمْ وَلَمْ يُغَسَّلُوا.

(صحیح البخاری: ج2 ص584 بَاب مَنْ قُتِلَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ أُحُدٍ)

ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُحدکے مقتو لین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں جمع کرتے پھر پوچھتے: ان میں قرآن کسے زیادہ یاد تھا ؟ جب ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لحد میں آگے کر دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  یہ جملے ارشادفرماتے کہ میں قیامت کے دن ان پر گواہ بنوں گا۔ پھر آپ نے ان کو خونوں کے ساتھ ہی دفن کر دینے کا حکم دیا،  نہ انہیں غسل دیا گیا اور نہ ہی ان کا جنازہ پڑھا  گیا۔
اس روایت میں شہید کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔
سائل: محمد عمر، راولپنڈی

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 5 years ago

جواب:
دلائل کی رو سے شہید کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ دلائل یہ روایات ہیں:
 
1: عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ.
(صحیح البخاری: باب  الصلاۃ علی الشہید. رقم الحدیث  1344، صحیح مسلم: باب اثبات حوض نبینا صلى الله علیہ وسلم وصفاتہ  رقم الحدیث 2296)
ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نکلے تو احد والوں پر نماز پڑھی  جس طرح مُردوں پر پڑھی جاتی ہے۔  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر کی طرف تشریف لائے اور فرمایا: میں (تمہارے لیے انتظام کرنے کے لیے آخرت میں) آگے جانے والا ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں۔
 
2:  عَنْ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَعْرَابِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَ بِهِ وَاتَّبَعَهُ ثُمَّ قَالَ أُهَاجِرُ مَعَكَ فَأَوْصَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ أَصْحَابِهِ فَلَمَّا كَانَتْ غَزْوَةٌ غَنِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيًا فَقَسَمَ وَقَسَمَ لَهُ فَأَعْطَى أَصْحَابَهُ مَا قَسَمَ لَهُ وَكَانَ يَرْعَى ظَهْرَهُمْ فَلَمَّا جَاءَ دَفَعُوهُ إِلَيْهِ فَقَالَ مَا هَذَا قَالُوا قِسْمٌ قَسَمَهُ لَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَهُ فَجَاءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا هَذَا قَالَ قَسَمْتُهُ لَكَ قَالَ مَا عَلَى هَذَا اتَّبَعْتُكَ وَلَكِنِّي اتَّبَعْتُكَ عَلَى أَنْ أُرْمَى إِلَى هَاهُنَا وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ بِسَهْمٍ فَأَمُوتَ فَأَدْخُلَ الْجَنَّةَ فَقَالَ إِنْ تَصْدُقْ اللَّهَ يَصْدُقْكَ فَلَبِثُوا قَلِيلًا ثُمَّ نَهَضُوا فِي قِتَالِ الْعَدُوِّ فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحْمَلُ قَدْ أَصَابَهُ سَهْمٌ حَيْثُ أَشَارَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهُوَ هُوَ قَالُوا نَعَمْ قَالَ صَدَقَ اللَّهَ فَصَدَقَهُ ثُمَّ كَفَّنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جُبَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَدَّمَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ فَكَانَ فِيمَا ظَهَرَ مِنْ صَلَاتِهِ اللَّهُمَّ هَذَا عَبْدُكَ خَرَجَ مُهَاجِرًا فِي سَبِيلِكَ فَقُتِلَ شَهِيدًا أَنَا شَهِيدٌ عَلَى ذَلِكَ.
(سنن النسائی:  باب الصلاۃ علی الشہداء رقم الحدیث 1952 ، شرح معانی الآثار: ج1 ص291 باب الصلاۃ علی الشہداء رقم الحدیث 2661)
ترجمہ: حضرت شداد بن الہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو کہ ایک اعرابی (دیہات کا باشندہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور مشرف با اسلام ہوا۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں رہنے لگا۔ایک بار کہنے لگا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کروں گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وصیت کی۔ جس وقت غزوہ ہوا اور اس غزوہ میں مسلمانوں کو بکریاں حاصل ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بکریوں کو تقسیم فرمایا اور اس کا بھی حصہ  نکالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا حصہ اس کو دے  دیا۔ وہ ان کے سواری کے جانور چرایا کرتا تھا۔ جس وقت  وہ (بکریاں چرا کے واپس) آیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم اس کا حصہ اسے دیا تو اس نے دریافت کیا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ تمہارا حصہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو عطا فرمایا ہے۔ اس نے وہ حصہ لے لیا اور اس کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارا حصہ میں نے دیا ہے۔ اس نے عرض کیا: میں اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہیں ہوا تھا بلکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اس وجہ سے کی ہے کہ میری اس جگہ پر  تیر مارا جائے۔ اس نے اس جگہ (یعنی حلق )کی طرف اشارہ کیا، پھر میرا انتقال ہو جائے اور میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تو اپنے اس ارادے میں سچا  رہا تو اللہ تعالیٰ بھی تم کو سچا کرے گا (یعنی شہادت کی موت عطا فرمائے گا)۔ پھر کچھ دیر تک لوگ ٹھہرے رہے۔ اس کے بعد دشمن سے جنگ کرنے کے واسطے اٹھے اور لڑائی شروع ہوئی۔ لوگ اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے، اس شخص کو اسی جگہ پر تیر لگا ہوا تھا جہاں اس نے بتلایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا یہ وہی شخص ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شخص اپنے اس ارادے میں سچا  تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو سچ کر دیا (یعنی شہادت کی موت عطا فرمائی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک جبہ کا کفن اس کو دے دیا اور آگے کی جانب رکھا اور اس پر نماز جنازہ ادا کی۔  تو جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں سے لوگوں کو سنائی دیا وہ یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ : ”یا اللہ یہ تیرا بندہ ہے اور تیرے راستے میں ہجرت کر کے نکلا اور یہ شخص اللہ کے راستہ میں شہید ہوگیا میں اس بات کا گواہ ہوں۔“
علامہ نیموی فرماتے ہیں: واسنادہ صحیح. (آثار السنن: ج2 ص120، 121)
کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔
 
3: عن عبد الله بن الزبير رضي الله عنهما : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم أمر يوم أحد بحمزة فسجى ببرده ثم صلى عليه فكبر تسع تكبيرات ثم أتى بالقتلى يصفون ويصلى عليهم وعليه معهم.
(شرح معانی الآثار للطحاوی: ج1 ص290 باب الصلاۃ علی الشہداء رقم الحدیث 2657)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے متعلق حکم دیا تو انہیں ایک چادر میں چھپا دیا گیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی نو تکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ ادا فرمائی ۔ پھر دوسرے شہداء باری باری لائے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بھی نماز جنازہ ادا فرمائی اور ان کے ساتھ ساتھ حمزہ کی نماز بھی ادا فرماتے رہے۔
علامہ نیموی فرماتے ہیں: واسنادہ مرسل قوی، وھو مرسل صحابی رضی اللہ عنہ. (آثار السنن: ج2 ص121)
ترجمہ:  اس روایت کی سند مرسل قوی ہے اور یہ صحابی رسول کی مرسل ہے۔
واضح رہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پر نو تکبیریں پڑھنا یہ ان کی خصوصیت ہے۔
 
4: عن أبي مالك قال أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد بحمزة بن عبد المطلب فوضع، وجئی بتسعة فصلى عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فرفعوا وترك حمزة ثم جئی بتسعة فوضعوا فصلى عليهم سبع صلوات حتى صلى على سبعين رجلا و فیهم حمزة في كل صلاة صلاها.
(المراسیل لابی داؤد:  باب الصلاۃ علی الشہیدرقم الحدیث 417)
ترجمہ: حضرت ابو مالک غفاری سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ  غزوہ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ حضرت حمزہ کی میت لائی جائے۔ چنانچہ ان کی میت لائی گئی اور ساتھ نو شہید اور بھی لائے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کی نماز جنازہ پڑھی۔ ان شہداء کی میتوں کو اٹھا لیا گیاب جبکہ حضرت حمزہ کی میت وہیں رکھی رہی۔ پھر نو مزید شہداء کو لایا گیا اور سامنے رکھا گیا۔ یوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ستر شہداء کی نماز جنازہ سات بار پڑھی (یعنی ایک مرتبہ دس دس شہداء کی نماز جنازہ پڑھی تو کل نماز جنازہ سات بار ہوئی) حضرت حمزہ کی میت پر ہر بار جنازہ پڑھی گئی۔
حافظ ابن حجر عسقلانی (ت852ھ) ابو داؤد کی اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
رجالہ ثقات.(التلخیص الحبیر:  ج2 ص273)
ترجمہ: اس روایت کے راوی قوی ثقہ ہیں۔
 
5: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أُتِيَ بِهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ فَجَعَلَ يُصَلِّي عَلَى عَشَرَةٍ عَشَرَةٍ وَحَمْزَةُ هُوَ كَمَا هُوَ يُرْفَعُونَ وَهُوَ كَمَا هُوَ مَوْضُوعٌ.
(سنن ابن ماجۃ: باب ما جاء فی الصلاة على الشهداء ودفنهم رقم الحدیث 1502)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے روز شہداء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس دس شہداء پر جنازہ پڑھنا شروع کیا اور حضرت حمزہ جوں کے توں رکھے رہے اور باقی شہداء اٹھا لئے جاتے لیکن حضرت حمزہ کو نہ اٹھایا جاتا ۔
علامہ سندھی نے اس روایت کی سند کو حسن“ قرار دیا۔ (حاشیہ سنن ابن ماجہ)
نیز ناصر الدین البانی نے بھی اسے ”صحیح“   قرار دیا۔ (سنن ابن ماجۃ باحکام الالبانی: رقم 1502)
 
”شہداء کا جنازہ نہیں پڑھا گیا“ والی روایت کی تحقیق
مذکورہ پانچ روایات سے ثابت ہوتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کی نماز جنازہ پڑھی ہے۔ اب اس روایت ”وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِمْ“ (جنازہ نہیں پڑھا گیا) کا صحیح مفہوم پیش ہے:
 
1: جس روایت میں ہے کہ شہداء احد کا جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھایا، یہ حضرت جابر رضی اللہ  عنہ سے مروی ہےلیکن جب دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند سے ثابت ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر شہداء کا جنازہ پڑھایا ہے تو لامحالہ اسے تسلیم کرنا پڑے گا ۔کیونکہ یہ ثابت شدہ اصول ہے کہ ایک واقعہ کے متعلق جب ایک آدمی یہ بیان کرے کہ یہ واقعہ نہیں ہوا اور دوسرے بیان کریں کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور دونوں سچے ہوں تو اس شخص کی بات تسلیم کی جائے گی جو واقعہ ثابت ہونے کا راوی ہے۔ دوسرے کے متعلق سمجھا جائے گا کہ اسے علم نہیں ہو سکا۔
مشہور محدث، فقیہ و اصولی علامہ  فخر الدين عثمان بن علی الزیلعی الحنفی  فرماتے ہیں:
وَحَدِيثُ جَابِرٍ نَافٍ وما رَوَيْنَاهُ مُثْبِتٌ فَكَانَ أَوْلَى وَلِأَنَّ ما رَوَيْنَاهُ يُوَافِقُ الْأُصُولَ وما رَوَاهُ يُخَالِفُ فَالْأَخْذُ بِمَا يُوَافِقُ أَوْلَى.
(تبیین الحقائق: ج1 ص248 باب الشہید)
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث جنازہ کی نفی کرتی ہے اور جو روایات ہم نے بیان کی ہیں وہ جنازہ کا اثبات کرتی ہیں تو اثبات والی روایت کو لینا بہتر ہے۔ نیز اثبات والی روایت کو اس لیے بھی لینا بہتر ہے کہ یہ اصول کے موافق ہیں (کہ جنازہ میت کے اعزاز و اکرام کے لیے ہوتا ہے)  اور  جو روایت  حضرت جابر نے نقل کی ہے اس اصول کے مخالف ہے اس لیے موافق اصول روایات ہی کو لیا جائے گا۔
 
2: حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی؛ حدیث جابر کے متعلق فرماتے ہیں:
لم یصل علیھم واحدا واحدا کالعادۃ الاکثریۃ فی الاموات.
(اعلاء السنن: ج8 ص368 باب الصلاۃ علی الشہید)
ترجمہ: حدیث جابر کہ ”ان کی جنازہ نہیں پڑھی گئی“ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح عام میت کی جنازہ اکیلے اکیلے پڑھی جاتی ہے شہداء احد کی جنازہ ایسے نہیں پڑھی گئی (بلکہ یہ دس دس کی تعداد میں پڑھی گئی ہے)
 
3: حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری فرماتے ہیں:
انہ کان یومئذ مشغولا فانہ قُتل ابو واخوہ وخالہ فرجع الی المدینۃ لیُدبِّر کیف یحملھم الی المدینۃ فلم یکن حاضرا حین صلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلھذا روی ما روی ومن شاھد النبی صلی اللہ علیہ وسلم قد روی انہ صلی علیھم.
(بذل المجہود: ج4 ص190 باب فی الشہید یغسل)
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ اس دن مشغول تھے کیونکہ غزوہ احد میں ان کے والد، بھائی اور خالو شہید ہوگئے تھے تو حضرت جابر مدینہ تشریف لے گئے تاکہ ان کی میتوں کو مدینہ لانے کا انتظام کر سکیں۔ اسی دوران جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کی جنازہ پڑھائی تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ موجود نہ تھے۔  اس لیے انہوں نے جنازہ نہ پڑھنے کو نقل کر دیا اور جو حضرات اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے انہوں نے یہ نقل کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھا ہے۔
واللہ اعلم وعلمہ اتم
دار الافتاء مرکز اھل السنۃ والجماعۃ
سرگودھا، پاکستان
4 ربیع الاول 1440ھ
13 نومبر 2018ء