QuestionsCategory: اسلامی تہوارنمازِ عید کے بعد دعا کرنا
Molana Abid Jamshaid Staff asked 6 years ago

نماز عید کے بعد خطبہ سے قبل امام کا اجتماعی دعاء کرنا پھر خطبہ دینا عند الاحناف کیسا ہے . کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کے بعد خطبہ سے پہلے اپنی زندگی میں کبھی بھی اجتماعی دعاء کرائی تھی اگر کرائی تھی تو ہمارے سوال کا جواب مل جائے گا اور اگر نہیں کرائی تھی تو کیا ہمارا یہ عمل سنت کے خلاف نہیں ؟اور ہمارے علماء احناف کا اس پر اصرار قابل اصلاح نہیں ؟اور مزید بر آں سلام کے بعد دعا ء سے پہلے مسجد کے چندے کے لیےدو تین منٹ کا وقفہ دینا کیا یہ درست ہے اور نماز عید اور خطبہ کے ما بین اس طرح کا فصل طویل کی اجازت ہے؟

برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل و مدلل معجل جواب عنایت فرمائیں ۔نوٹ میں خود ایک حنفی ہوں :

آمنہ خاتون

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 6 years ago

1۔نمازعید کے بعد اجتماعی دعاء کرنا جائز و مستحب ہے ۔ اور یہ احا دیث سے ثابت ہے۔
1۔عن ام عطیتہ قالت کنا نومر ان نخرج یوم العید حتی تخرج البکر من خدرھا حتی تخرج الحیض فیکن خلف الناس فیکبرن بتکبیرھم و یدعون بدعائھم یرجون برکۃ ذلک الیوم وطھرتہ
بخاری ج 1 ص 132 باب فضل العمل فی ایام التشریق
2۔عن ام عطیتہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یخرج الابکار والعوانق وذوات الخدور والحیض فی العیدین فاما الحیض فیعتزلن المصلی ویشھدن دعوت المسلمین الخ۔
قال الترمذی حدیث ام عطیتہ حدیث حسن صحیح
ترمذی ج1 قدیمی ص120 باب خروج النساء فی العیدین
اس حدیث میں دعاء سے دعاء خطبہ مراد نہیں ہو سکتی کیونکہ خطبہ میں صرف امام دعاء کرتا ہے سامعین دعاء نہیں کر سکتے اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حائضہ عورتیں عیدین میں مردوں کے پیچھے کھڑی رہتیں اور مردوں کے ساتھ تکبیر کہتیں اور ان کی دعا کے ساتھ دعاکرتیں۔ اوراس سےمردو ں اور عورتوں سب کا دعا کرنا ثابت ہے ترمذی کی روایت میں تو صراحت ہے کہ ویشھدن دعوۃ المسلمین کہ عورتیں مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوتی تھیں اس سے اجتماعیت بھی ثابت ہو گئی
لھذا ہمارا عمل بالکل سنت کے مطابق ہے ۔فللہ الحمد
2۔ عید کے موقع پر مسجد میں چندہ کرنا بالکل درست ہے مگر خطبہ کے دوران چندہ نہ کیا جائے ۔کیونکہ خطبہ کا سننا واجب ہے ۔نیز شور و شغب سے پرہیز بھی لازمی ہے ۔
فتاوی محمودیہ ج 8 ص 467

موجودہ زمانے میں عورتوں کا مسجد یا عید گاہ میں جانے کا حکم

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابتداًعورتوں کو مسجد اور عید گاہ جانے کی اجازت تھی ۔بلکہ عید گاہ میں حالت حیض میں بھی عورتوں کو نماز عید کی دعا میں شریک ہونے کی اجازت تھی پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا حکم ارشاد فرمایا ام حمید ساعدی رضی اللہ عنھا سے کہ :
قد علمت انک تحبین سعی صلاتک فی بیتک خیر من صلاتک فی حجرتک ،وصلاتک فی حجرتک خیر من صلاتک فی مسجد قومک وصلاتک فی مسجد قومک خیر من صلاتک فی مسجدی الخ
صحیح ابن خزیمہ ج 2 ص851 ،صحیح ابن حبان ص670 دارالکوفہ بیروت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام حمید الساعدی رضی اللہ عنھا کو خطاب کر کے فرماتے ہیں میں جانتا ہوں کہ تو میرے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کرتی ہے (لیکن)تیرا اپنے گھر میں نماز پڑھنا تیرے حجرے میں پڑھنے سے بہتر ہے ،اور تیرا حجرے میں نماز پڑھنا چار دیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہےاور چار دیواری میں نماز پڑھنا تیری قوم کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہےاورقوم کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔حضرت ام حمید رضی اللہ عنہ نے(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا سمجھ کر) اپنے گھروالوں کو حکم دیا تو ان کیلئےگھر کےدوراور تاریک ترین گوشہ میں نماز کی جگہ بنادی گئی ،وہ اپنی حیات تک اسی میں نماز پڑھتی رہیں۔
اس حدیث پر حافظ ابن خزیمہ رحمتہ اللہ علیہ نے جو باب قائم کیا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے فرماتے ہیں :
باب اختیار صلوۃ المرآۃ فی حجرتھاعلی صلا تھا فی دارھا ۔ وصلا تھا فی مسجد قومھا علی صلا تھا فی مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم وان کانت صلوۃ فی مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم تعدل الف صلوۃ فی غیرھا من المساجد والدلیل علی ان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلوۃ فی مسجدی ھذا افضل من الف صلوۃ فیما سواہ من المساجد ،اراد بہ صلوۃ الرجال دون صلوۃ النساء۔
حدیث ام حمید ساعدیہ رضی اللہ عنھا سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام حمید کی طرح دوسری عورتیں بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء کے مطابق مسجد نبوی جانے سے رک گئی ہونگی ۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑی تدبیر کے ساتھ اپنی زوجہ محترمہ سیدہ عاتکہ بنت زید رضی اللہ عنھا کو مسجد نبوی میں نماز پڑھنے سے روک دیا بعد میں لوگوں نے سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنھا سے مسجد میں نہ جانے کا سبب پوچھا تو فرمانے لگیں ان للہ فسد الناس یعنی اب مسجد جانے کا زمانا نہیں رہا اب لوگوں کی حالت ٹھیک نہیں ہے اس کے بعد حضرت عاتکہ رضی اللہ عنھا پھر کبھی مسجد نبوی میں نہیں گئیں ۔
الا صابہ فہ تمییز الصحابہ ج4 ص2571 دار المعرفہ بیروت)
اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر ملال کے بعد حضرت سیدہ اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے حالات زمانہ کے بگاڑ کو دیکھا تو فرمانے لگیں :
لو ادرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل الخ
بخاری شریف ج1 ص125 کتاب لذوات باب خروج النساء الی المساجد)
یعنی اگر آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرمائے ہوتے اور عورتوں کی حالت دیکھتے تو عوتوں کو مسجد جانے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں مسجد میں جانے سے روک دی گئیں تھیں۔
اسی طرح حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں کو عید گاہ نہیں جانے دیتے تھے ۔
1۔عن ابن عمر رضی اللہ عنہ انہ کان لا یخرج نساءۃ فی العیدین۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج4 ص234 باب من خروج النساء
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بیویاں نماز عید کیلے نہیں جاتی تھیں ۔
2۔ عن ھشام بن عروہ عن ابیہ ان کان لا یدع امرٵۃ من اھلہ تخرج الی فطر ولا اضحی ۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج4 ص234 باب من خروج النساء
ترجمہ: حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گھر کی کسی عورت کو نماز عیدین کیلے نہیں جانے دیتے تھے ۔
3۔ عن عبد الرحمن بن قاسم رحمتہ اللہ علیہ قال کان القاسم اشد شئ علی العوانق لا یدعھن یخرجن فی الفطر والا ضحی ۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج4 ص 234 باب من خروج النساء
ترجمہ: حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نو جوان عورتوں کے بارے میں بہت سخت تھے انہیں عید الفطر اورعید الا ضحی کیلے نہیں جانے دیتے تھے ۔
انتہائی تعجب والی بات ہے کہ خیرالقرون کا اہل علم طبقہ با لخصوص محدثین اور فقہا ء تو عورتوں کو مسجد اور عید گاہ میں جانے سے روکتے ہیں اورعذریہ بیان کرتے ہیں کہ حالات بگڑگئے ہیں ،عورت کیلئے مسجدوعیدگاہ جانے کا زمانہ نہیں رہا اورآج کے آل حدیث جنکودو چار احادیث بھی مکمل تفصیل کے ساتھ نہیں آتیں وہ عورتوں کے مسجد جانے پر مصر ہیں کیا یہ سلف صالحین پر اعتماد ہے؟یا ان سے بغاوت؟
کیا یہ سب کچھ کر نے کے باو جود بھی آدمی سلفی اور اثری ہی رہتا ہے؟اللہ تعا لی سمجھ عطا فرما ئے۔
مولانا محمد اسحاق