QuestionsCategory: حدیث و سنتکیا عاصم بن کلیب مدلس راوی ہیں؟
Abdul vazeed asked 5 years ago

“Asim bin kulaib (Rh) jo ibn masood (Rz) ki riwayat kay Raavi hai…wo siqah hen magar Mudallis” ye keh kar ghair muqaliden is hadith par Aitraz kartay hen.my ne un se kaha k Asim Bin Kulaaib to sahi Bukhari kay Raavi hen. is par wo kehnay lagay k “Sahih Bukhari men to  Simaa ki sarahat hai”

mera sawal ye hai ki kay kia waqia men Asim Bin Kulaib mudallis hen ? Aur un ki tadlees ki waja se ye riwayaat Zaeef hai?

”عاصم بن کلیب رحمۃ اللہ علیہ جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے راوی ہیں وہ ثقہ ہیں مگر مدلس“  یہ کہہ کر غیر مقلدین اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ عاصم بن کلیب تو صحیح بخاری کے راوی ہیں۔ اس پر وہ  کہنے لگے کہ صحیح بخاری میں تو سماع کی صراحت ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا واقع میں عاصم بن کلیب مدلس ہیں؟ اور ان کی تدلیس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے؟

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 5 years ago

جواب:
آپ کے سوال کے جواب میں چند باتیں پیش ہیں:

پہلی بات:
ہماری معلومات کے مطابق عاصم بن کلیب پر تدلیس کا الزام لگا کر اس روایت کو کسی محدث نے رد نہیں کیا، یہ صرف عصر حاضر کے چند غیر مقلدین کی روش ہے جو یقیناً غلط ہے۔

دوسری بات:
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ  میں عاصم بن کلیب کے عنعنہ کے باوجود درج ذیل ائمہ محدثین نے اسے صحیح یا حسن قرار دیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ عاصم بن کلیب کا عنعنہ مقبول  اور الزام تدلیس غلط ہے۔
1: امام ابو عیسیٰ الترمذی (ت 279ھ): حسن․․․ وفی نسخۃ: حسن صحیح ․
(جامع الترمذی ج1 ص59 ، شرح سنن ابی داؤد ج2 ص346)
حدیث ابن مسعود حسن ہے۔ ایک نسخہ میں ہے کہ: حسن صحیح ہے۔
2: امام ابو علی الطوسی (ت312ھ): حدیث ابن مسعود حسن․
(مختصر الاحکام للطوسی: ج2 ص103)
ابن مسعود کی حدیث حسن ہے۔
2: امام دار قطنی (ت385ھ):اسنادہ صحیح․
(کتاب العلل للدارقطنی ج5ص172سوال804)
اس روایت کی اسناد صحیح ہے۔
3: حافظ ابن حزم (ت456ھ): صَحَّ خَبَرُ ابْنِ مَسْعُودٍ ․
( المحلی بالآثار ج 2ص578)
ابن مسعود کی حدیث صحیح ہے۔
4: امام ابن القطان الفاسی (ت628ھ): والحديث عندي – لعدالة رواته – أقرب إلى الصحة․
(بيان الوهم والإيهام للفاسی ج5 ص367)
یہ حدیث ثقہ راویوں سے مروی ہونے کی وجہ سے میرے نزدیک اقرب الی الصحۃ (یعنی صحیح) ہے۔
5: امام زیلعی (ت 762ھ): و الرجوع الی صحۃ الحدیث لورودہ  عن الثقات․
( نصب الرایۃ للزیلعی ج1 ص396)
ثقہ راویوں سے مروی ہونے کا تقاضا یہی ہے کہ ہ حدیث صحیح ہے۔
6: امام بدر الدین عینی (ت855ھ): قد صح․
( شرح سنن ابی داؤد ج2 ص346)
یہ حدیث صحیح ہے۔
7: علامہ محمد انور شاہ کشمیری (ت 1350ھ): رواہ الثلاثۃ و ہو حدیث صحیح․
( نیل الفرقدین ص56)
اس روایت کو امام ترمذی، امام ابو داؤد اور امام نسائی نے روایت کیا ہے اور یہ صحیح حدیث ہے۔
حتی کہ مشہور غیر مقلد ین نے بھی اس کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے:
1:احمد شاکر المصری صاحب غیر مقلد: وھذا الحدیث صححہ ابن حزم وغیرہ من الحفاظ وھو حدیث صحیح وما قالوہ فی تعلیلہ لیس بعلۃ.
(شرح الترمذی ج2 ص43)
اس حدیث کو ابن حزم  اور دیگر حفاظ نے  صحیح قرار دیاہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔ بعض لوگوں نے جو اس میں علت (ضعف) بتایا ہے وہ ضعف فی الواقع اس میں نہیں ہے۔
2: ناصر الدین البانی صاحب غیر مقلد: والحق أنہ حدیث صحیح و إسنادہ صحیح علی شرط مسلم ․
(تعلیق الالبانی علیٰ مشکوٰۃ المصابیح: ج1ص254)
حق بات یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔

تیسری بات:
خود غیر مقلدین  کے “محققین” عاصم بن کلیب کی مرویات کو علی الاطلاق  اور بغیر کسی شرط کے  صحیح اور حجت  تسلیم کرتے ہیں۔
1: جناب ثناء اللہ صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:
“دیگر ماہرین فن عاصم بن کلیب رحمۃ اللہ علیہ کی مرویات کو بغیر کسی شرط کے حجت تسلیم کرتے ہیں۔”
(نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں؟:  ص2)
2: جناب زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں:
“عاصم بن کلیب اور ان کے والد کلیب دونوں جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق ہیں۔”
(نماز میں ہاتھ باندھنے کا  حکم اور مقام:ص37)
3: ندیم ظہیر صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:
“عاصم بن کلیب جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق اور قابلِ حجت راوی ہیں۔”
(ماہنامہ الحدیث: شمارہ نمبر 119 صفحہ نمبر8)
عاصم بن کلیب کے محض ثقہ و صدوق ہونے کی وجہ سے جناب زبیر علی زئی صاحب اور ندیم ظہیر صاحب غیر مقلد نے   ان کا تذکرہ تو کیا لیکن ان کی صیغہ “عن”  سے مروی روایت پر تدلیس کی جرح نہیں کی۔  (دیکھیے: ماہنامہ الحدیث: شمارہ نمبر 119 صفحہ نمبر11، نماز میں ہاتھ باندھنے کا  حکم اور مقام:ص37)
معلوم ہوا کہ خود ان لوگوں کے ہاں بھی عاصم بن کلیب کا “عنعنہ” مقبول ہے۔ لہذا عاصم بن کلیب کی توثیق کے بعد ان پر تدلیس کا الزام لگانا خود غیر مقلدین کے اصول کی روشنی میں غلط ہے۔

تنبیہہ:
اس ضمن میں ایک بات کی  وضاحت ضروری ہے کہ بعض فورمز پر حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر عاصم بن کلیب کے متفرد ہونے کی وجہ سے اس حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے۔ ایک مشہور فورم پر یہ عبارت ہے:
“عاصم بن كليب الجرمي (م على):
عن أبي بردة ثقة ولي الله قال ابن المديني لا يحتج بما انفرد به
یعنی کے اگر عاصم بن کلیب کسی روایت میں منفرد ہو تو اس کی روایت قابل قبول نہ ہوگی”
اس اعتراض کے جواب میں عرض ہے کہ  ندیم ظہیر صاحب غیر مقلد نے مستقل ایک  مضمون لکھ کر اس اعتراض کا رد کیا ہے۔ مضمون کا  عنوان ہے: عاصم بن کلیب کی توثیق اور ان کا تفرد۔ اس مضمون کا خلاصہ ندیم ظہیر  کے الفاظ میں یہ ہے:
“خلاصۃ التحقیق:  عاصم بن کلیب ثقہ و صدوق اور قابلِ حجت راوی ہیں اور ان پر تفرد کا اعتراض بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ فرض محال اگر یہ ثابت بھی ہوتا تو جمہور محدثین کے نزدک  ثقہ راوی کا تفرد  مقبول ہونے کی وجہ یہ لائق التفات نہیں تھا۔ “
(ماہنامہ الحدیث: شمارہ نمبر 119 صفحہ نمبر11)
گھر کی گواہی کے بعد غیر مقلدین کے اس فورم پر موجود یہ اعتراض بھی ختم ہو جانا چاہیے۔
واللہ اعلم
دار الافتاء ،
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ، سرگودھا، پاکستان
19- ربیع الاول 1440ھ
28- نومبر 2018ء