QuestionsCategory: فقہ و اجتہادحجاب کی فرضیت بالخصوص حد کے متعلق
Faizan Habib asked 5 years ago

مجھے ایک سوال در پیش تھا، اس کے متعلق آپ حضرات کی رائے مطلوب تھی۔ سوال تحریر کرنے سے پہلے عاجز اپنا تعارف لکھ دے گا تاکہ اسی حساب سے آسان فہم جواب میرے لئے ممکن ہو سکے۔ تعارف: فیضان حبیب ساہیوال کے علاقے قادر آباد سے۔ محض عصری تعلیم ہے کمپیوٹر سائنس میں گریجویٹ ہوں اور پیشے کے لحاظ سے سوفٹ وئیر انجینئر۔

سوال: بندہ اپنے دوست احباب میں اسلام کے بارے میں کچھ باتیں جو علما سے سیکھیں ہوں، کرتا رہتا ہے۔ چند مہینوں سے دوستوں نے اسلامی حکومتی نظام کی معلومات میں دلچسپی دکھائی تو اسی حساب سے بندہ شریعت کے ریاستی پہلوؤں کے اعتبار سے حکمتیں اور فوائد بیان کرتا رہا ہے۔ لیکن چند دنوں پہلے میں نے ایک سوشل میڈیا پہ پوسٹ لگائی جس میں یہ بیان کیا کہ اگر دنیا میں شرعی قانون نافذ ہو۔جائے تو تین ٹریلین ڈالر انسانیت کا جو فیشن پہ صرف ہوتا ہے اس میں سے کم از کم 2 ٹریلین ڈالر بچ جائے گا کیوں کہ شرعی قانون میں حجاب لازمی ہو گا۔ اس پر دوست نے دعوی کیا کہ اسلام میں حجاب پہ پابندی حکومت کی طرف سے نہیں لگائی جا سکتی۔ اس پر عاجز کے پاس چونکہ دلیل نہ تھی، تو محض اشارہ کے طور پہ سعودی عرب کے قانون اور طالبان کے قانون کا حوالہ دیا۔ البتہ وہ اس سے کچھ اتفاق نہیں کرے۔ لہذا اب آپ سے جو مطلوب ہے وہ یہ کہ آیا شرعی قانون میں حجاب لازمی ہے یا نہیں؟ لازمی سے مراد یہ کہ اگر عورت حجاب نہ کرے تو اس پر کوئی حد ہے یا نہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر حد ہے تو کیا پورے بدن بشمول چہرہ کے پردہ ضروری ہو گا؟ (چونکہ احقر کی معلومات کے مطابق شافعی یا پھر مالکی مذہب میں چہرہ چھپا ہونا ضروری نہیں) تیسرہ یہ کہ کیا یہ حکم غیر مسلم عورتوں کے لئے بھی یکساں ہو گا؟ چوتھا یہ کہ خلفائے راشدین میں کوئی روایت مستند ایسی ملتی ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ اس دور میں کسی بے پردہ عورت کو حد لگی ہو۔ جزاک اللہ۔

1 Answers
Mufti Pirzada Akhound answered 5 years ago

الجواب حامداً و مصلیاً
(1)
قرآن وحدیث کی رو سے مسلمان خواتین کے لیے شرعی پر دے کا اہتمام کرنا ایسے ہی لازمی ہے، جیسے کہ نماز، روزہ، زکوٰة اور حج جیسے یہ عبادات فرض عین ہیں، ایسے ہی شرعی پردہ بھی فرض عین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ایک مقام پر پردے کے حکم کو شریعت کے دوسرے احکامات پر مقدم ذکر فرمایا ہے۔
چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُولَی وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِیْنَ الزَّکَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہ﴾․احزاب:33
ترجمہ:
” اے مومن عورتو! تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوٰة دیا کراور الله تعالیٰ اور اس کے رسول کا کہنا مانو۔“  سورہٴ احزاب، آیت:33
 مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں خواتین کے لیے گھروں کے اندر ٹھہرے رہنے کو واجب قرار دیا گیا ہے مگر مواقع ضرورت اس سے مستثنیٰ ہیں۔ معارف القرآن
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ﴾․
سورہٴ احزاب، آیت:59
”اے نبی! آپ اپنی بیویوں سے او راپنی صاحب زادیوں سے اورمسلمان عورتوں سے فرما دیجیے ( کہ جب مجبوری کی بنا پر گھروں سے باہر جانا پڑے) تو اپنے چہروں کے اوپر ( بھی) چادروں کا حصہ لٹکایا کریں۔“
اور سورہٴ احزاب ہی میں تیسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوہُنَّ مِن وَرَاء حِجَاب﴾․
ترجمہ:”اور جب تم ان سے (امہات المؤمنین سے) کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر ( کھڑے ہو کر وہاں) سے مانگا کرو۔“ سورہٴ احزاب
یعنی بلا ضرورت تو پردے کے پاس جانا اور بات کرنا بھی نہیں چاہیے، لیکن بہ ضرورت کلام کرنے میں مضائقہ نہیں مگر ایک دوسرے کو دیکھنا
 بیان القرآن
(2)
قرآن کریم نے چند جرائم اور ان کی سزاوں کا متعین طور پر ذکر فرمایا ہے اور ان کے بارے میں کوئ نرمی اور ڈہیل نہیں  رکھی ہے۔ انہیں فقہا٫ حدود کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔البتہ ان کے علاوہ چند ایسے جرائم ہے جن پر حدود تو نہیں ہے البتہ حاکم وقت ان کو سزادینے کا حق دار ہے ۔
اور چہرے  کے پردے کے بارے میں بعض فقہا٫ کا موقف یہ ہے کہ اجنبی یا محرم کے سامنے چہرے کا پردہ فتنے کی وجہ سے واجب ہوگا [ یہ فقہا٫ ضرورت کے تحت عورت کو چہرہ کھولنے کی اجازت دیتے ہیں ] اور بعض کے نزدیک فتنے کا اندیشہ ہو یا نہ ہو دونو ں صورتوں میں عورت کے لیے چہرے کا پردہ واجب ہوگا ۔ان دونوں کو اگر ملایا جاے تو ایک نتیجہ یہ بھی نکلاتا ہے کہ تمام  فقہا٫ کے نزدیک سوائے قاضی عیاض کے ‘ فتنے کی موجودگی میں چہرے کا پردہ لازم ہے ۔
البتہ جہاں تک امام مالک رحمہ اللہ کاموقف ہے اس میں متقدمین ومتاخرین علما٫ مالکیہ کے نزدیک چہرے کا پردہ واجب ہے؛ لیکن وجوب کے سبب میں اختلاف ہے ۔ بعض مالکیہ کے نزدیک چہرہ عورت کے ستر میں داخل نہیں ہے لہذا اس پر چہرے کا پردہ شرعاًتو واجب نہیں ہے لیکن فتنے کی موجودگی میں واجب ہوگا  ” جبکہ بعض مالکیہ کے نزدیک چہرہ عورت کے ستر میں داخل ہے لہذا اس کا پردہ شرعاً وا جب ہے۔
(3)
خوب سمجھ لو کافر عورتیں مثل اَجنبی مرد کے ہیں۔ اُن کے سامنے بدن کا کھولنا ایساہی ہے جیسا کہ غیرمردوں کے سامنے کھولنا ۔پس اِن (کافر عورتوں)سے تمام بدن کو اِحتیاط کے ساتھ چھپاؤ، صرف منہ اَور قدم اَور گٹے تک ہاتھ کھولنا اِن کے سامنے جائز ہے، باقی تمام بدن کا چھپانا فرض ہے۔
ایک بات عورتوں کے متعلق یہ کہنے کی ہے کہ عورتیں پردے میں اِحتیاط کم کرتی ہیں جن رشتہ دَاروںسے شرعاً پردہ ہے اُن کے سامنے (بے تکلف) آتی ہیں نیز کافر عورتوں سے جیسے بھنگن اَور چمارن وغیرہ سے بدن چھپانے کا اہتمام نہیں کرتیں حالانکہ شریعت میں اِن سے بھی پردہ ہے گو اَیسا گہرا پردہ نہیں جیسا مردوں سے ہوتا ہے بلکہ کافر عورتوں کے سامنے صرف منہ اَور گٹوں تک ہاتھ اَور پیر کھولنے کی اِجازت ہے، باقی سر اَور سر کے بال اَور بازو کلائی اَور پنڈلی وغیرہ کھولنا جائز نہیں، اِس کا بہت خیال کرنا چاہیے۔
اور خلفائے راشدین میں ہماری نظروں سے ایسی کوئ مستند روائت نہیں گزری  جس میں بے پردہ عورت پر حد لگائ گی ہو ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارلافتا٫ مرکز اہل السنت والجماعت
سرگودھا پاکستان
5فروری 2019