QuestionsCategory: مالی معاملاتپرائز بانڈ کی شرعی حیثیت

عرض یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکومت عوام سے مختلف رقوم جمع کرتی ہے اور اس رقم کے بدلے میں رقم جمع کروانے والوں کو رسیدیں جاری کرتی ہے ۔مثلا اگر کسی شخص نے سرکاری مرکزی بینک میں چالیس ہزار روپے جمع کروا دے تو بدلے میں اس کو چالیس ہزار روپیوں کی  وصولی کی رسید جاری کر دی جائے گی ۔اسی رسید کو انعامی بانڈ ،پرائز بانڈ کہا جاتا ہے۔جو شخص جس دن چاہے کسی بھی بینک میں جا کر اپنی رسید یعنی پرائز بانڈ واپس کر کے اتنی ہی رقم فوری واپس وصول کر سکتا ہے ۔ایک روپیہ زیادہ یا کم نہیں دیا جاتا ۔ہر مالیت کے بےشمار انعامی بونڈز حکومت سرکاری بینکوں کے ذریعے لاکھوں  لوگوں کو جاری کر کے اربوں روپے اکٹھے کرتی ہے۔پھر ہر کچھ ہفتوں یا مہینوں کے بعد ہر مالیت کے انعامی بانڈز کی قرعہ اندازی منعقد کی جاتی ہے جو حکومت کی کڑی نگرانی میں ہوتی ہے ۔اس میں یہ طریقہ ہوتا ہے کہ جس مالیت کے انعامی بانڈز کی قرعہ اندازی کرنی ہو تو پورے ملک میں جتنے بھی اس مالیت کے بانڈز جاری ہو چکے ہوں ان تمام کے نمبرز کا قرعہ نکالا جاتا ہے ۔پھر اس قرعہ اندازی میں ملک بھر میں اس مالیت والے لاکھوں انعامی بونڈز میں سے چند کا نمبر قرعہ اندازی میں نکل آتا ہے۔ اور ان کو انعامی رقوم ادا کی جاتی ہیں۔انعامی رقم پر حکومت بھی دس فیصد ٹیکس وصول کرتی ہے ۔انعام بھی جد اجدا ہوا کرتے ہیں کسی کو پانچ کروڑ بھی مل سکتا ہے کسی کو پچیس ہزار وغیرہ وغیرہ اور زیادہ تر بانڈز پر ایک روپیہ بھی انعام نہیں نکلتا ۔لیکن نقصان کسی کو بھی نہیں ہوتا کیونکہ اصل رقم تو سب کی محفوظ رہتی ہے ۔ان انعامی بانڈز کی شرعی حیثیت پر انتہائی شدید اختلاف ہے ۔کچھ لوگ ان کو سود اور جوا قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ ان کو جائز قرار دیتے ہیں کہ ان میں نہ سود ثابت ہے نہ جوا ۔ شریعت مطہرہ کی روشنی     میں مدلل فتویٰ درکار ہے ۔

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 4 years ago

 واضح رہے کہ بانڈز کی حیثیت قرض کی طرح ہوتی  ہے حکومتِ وقت اس قرضہ کو استعمال کرتی ہے اور قرضہ کے بدلے میں لوگوں سے ایک اضافی رقم جس کو انعام کہا جاتا ہے  کا وعدہ کرتی ہے اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے اس سودی رقم کو بانڈ لینے والوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کو انعامی رقم کا نام دیا جاتا ہے  یہ ناجائز اور حرام ہے۔
پرائز بانڈ کی حقیقت یہ  ہےایک شخص کچھ رقم جمع کراتا ہے  اس کا مقصد یہ ہوتا ہے قرعہ اندازی میں نام آنے پر اصل رقم کے علاوہ زیادہ رقم ملے گی اورسود کی حقیقت یہ  ہے کہ مال کا مال کے بدلے معاملہ کرتے وقت ایک طرف ایسی مشروط زیادتی ہو جس کے مقابلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو۔
پرائز بانڈ اور سود کی حقیقت سے معلوم ہو ا کہ دونوں ایک ہی چیز ہیں لہذا پرائز بانڈ میں اضافی رقم جو بطور انعام ملتی ہے  وہ سود ہے جوکہ حرام ہے کیونکہ وہ عوض سے خالی ہے ۔
واضح رہے کہ شر یعت مطہرہ  میں جب ایک جنس کی رقم کاتبادلہ آپس میں کیا جائے تو برابری  کرنا ضروری  ہے کمی بیشی  کی صورت میں سودی  لین دین کہلائے گا۔
اسی طرح سود کی ایک اور قسم ہے جس کا قرآن کریم میں تذکرہ موجود ہے اور نزول قرآن سے قبل بھی یہی صورت پائی جاتی تھی وہ یہ ہے کہ قرض دے کر اس پر نفع لیاجائے یعنی ہر وہ قرض جو نفع کمائے وہ سود ہے۔
خلاصہ یہ  کہ جو زیادتی قرض کی وجہ سے حاصل ہوئی ہووہ  سود میں داخل ہے، اور یہی بات پرائز بانڈ پر صادق آتی ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا پاکستان
12۔صفر1442
30۔ستمبر2020