مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ کیا قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماں کے نام سے پکارا جائے گا؟ ہمارے معاشرے میں یہی مشہور ہے۔ اس کی حقیقت دلیل کے ساتھ واضح کریں۔
قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اور ان کے باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔ یہ کہنا درست نہیں کہ قیامت کے دن ماں کے نام سے پکارا جائے گا۔ صحیح احادیث میں اس کا ثبوت ملتا ہے:
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ
سنن أبي داود 4948
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں قیامت کے دن تمہارے نام سے اور تمہارے باپ کے نام سے پکارا جائے گا اس لیے اچھے نام رکھا کرو۔
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ الْغَادِرَ يُرْفَعُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ.
صحیح البخاری۔ باب ما يُدعى الناس بآبائهم رقم الحدیث 6177
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ دھوکہ دینے والے کا قیامت کے دن ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا یہ فلان بن فلان کی دھوکہ دہی ہے۔
صحیح بخاری کی اس روایت اور اس کے باب کے عنوان یعنی ‘لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارے جانے کا باب’ میں صراحت ہے کہ قیامت کے دن باپ کے نام پکارا جائے گا۔
جن روایات میں ماں کے نام سے پکارے جانے کا ذکر ہے وہ انتہائی ضعیف اور منکر روایات ہیں اور ان سے دلیل پکڑنا درست نہیں۔
قال الهيثمي (3/163) : في إسناده جماعة لم أعرفهم. وقال في كشف الخفاء (2/375) : وضعفه ابن الصلاح ثم النووي وابن القيم والعراقي والحافظ ابن حجر في بعض تصانيفه وآخرون۔
Please login or Register to submit your answer