AhnafMedia

Articles Urdu

Articles Urdu (280)

Rate this item
(3 votes)
Rate this item
(3 votes)

صدائے ہوش

محمد زبیر ، کمالیہ

قربانی واجب نہیں … بھینس کی قربانی جائز نہیں…گھوڑے کی قربانی جائز ہے…مرغی کی بھی قربانی دی جا سکتی ہے…ایام التشریق قربانی کے دن ہیں…بکری پورے گھر کی طرف سے کافی ہے…گائے میں سات ،اونٹ میں دس آدمی شرکت کر سکتے ہیں…

حافظ محمد سعید صاحب بے تکان بولے جا رہے تھے اور پاس بیٹھے پرنسپل بھائی امیر حمزہ صاحب ان کی تائید میں ایک من کا سر ہلا رہے تھے۔

گفتگو ابھی جاری تھی ۔اتنے میں قاری مراد صاحب بھی تشریف لے آئے۔مجلس میں بیٹھے محمد شفیق صاحب نے قاری صاحب کو صورتحال سے آگاہ کیا اور بولے اب گفتگو فرمائیں۔

آپ لوگوں کا کام ہی اہل سنت والجماعت سے اختلاف کرنا ہے ۔امت مسلمہ کو توڑنے کا جیسے آپ نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔حالانکہ سورۃ الکوثر کی آیت نمبر۲ ’’فصل لربک وانحر‘‘ میں وانحر سے قربانی کا وجوب ثابت ہو رہا ہے اور بھینس کی قربانی کے جواز پر علامہ ابن تیمیہ(۱) اور ابن حزم ظاہری (۲) جیسے حضرات نے بھی فتوی دیا ہے اور ابو داود شریف میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی مرفوعاً روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ پھر گھوڑے اور مرغ کی قربانی کو جائز سمجھتے ہو تو عمل کیوں نہیں کرتے؟

ایام التشریق میں ۹ ذی الحجہ بھی ہے لیکن آج تک کسی نے بھی اس دن قربانی نہیں کی۔

باقی رہی بات کہ بکر ی پورے گھر کی طرف سے کافی ہے اس پر کوئی دلیل……

قاری مراد صاحب نے میٹھے لہجے میں بات ختم کرنا چاہی مگر حافظ سعیدصاحب درمیان میں بول پڑے اس پر دلائل موجود ہیں۔

مولانا علی محمد سعیدی نے فتاوی علماء حدیث کی جلد ۱۳ صفحہ ۱۱۲ پر موطا امام محمد کے حوالے سے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے۔

’’کنا نضحی بالشاۃ الواحدۃ یذبحھا الرجل عنہ وعن اہل بیتہ ثم تباہی الناس بعد ذلک‘‘

آدمی اپنی اور گھر والوں کی طرف سے بکری بکرے کی قربانی دیا کرتا تھا ،بعد میں فخر و مباہات کا سلسلہ جاری ہو گیا تو ایک ایک کی طرف سے دینے لگے۔اور یہی روایت جامع الترمذی میں بھی موجود ہے۔

قاری مراد صاحب اطمینان و سکون سے بیٹھے سنتے رہے۔

مزید سنیے ! ابن ماجہ شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھے قربانی کے ذبح کرتے ، ایک اپنی اور گھر والوں کی طرف سے اور ایک امت مسلمہ کی طرف سے۔

مدیر حافظ زبیر علی صاحب بڑے خوش ہو رہے تھے کہ دلائل کے انبار لگ گئے مگر ان کے چہرے سے ملال بھی ظاہر تھا کہ اس طرح تو چرمہائے قربانی میں کمی آئے گی۔بھائی امیر حمزہ صاحب نے پریشانی بھانپ کر زبیر علی صاحب کے کان میں سرگوشی کی جناب فکر کی ضرورت نہیں۔تین چار مرتبہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھا کر سالانہ اخراجات مکمل کر لیں گے۔

اتنے میں قاری مراد صاحب متوجہ ہوئے اور فرمایا ۔میں تو آپ کو عقل کا ہمسایہ سمجھتا تھا مگر لگتا ہے عقل کا سایہ بھی آپ سے کوسوں دور ہے۔ آپ نے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت دلیل میں پیش کی ، ان کے متعلق تمہارے امام قاضی شوکانی نیل الاوطار ،ج:۵ ، ص:۱۲۵ پر فرماتے ہیں کہ’’والحدیثان یدلان علی انہ یجوز للرجل ان یضحی عنہ وعن اتباعہ و یشرکھم معہ فی الثواب‘‘ یعنی قربانی ایک آدمی کی طرف سے ہوتی اور ثواب میں دوسروں کو شریک کر لیتا ہے اور حاشیہ ابن ماجہ ص۲۲۶ پر لکھا ہے:’’تاویل الحدیث الباب انہ صلی اللہ علیہ وسلم اراد ان اشتراک جمیع امتہ فی الثواب تفضلا منہ علی امتہ ‘‘

حضور ﷺ نے از راہ شفقت اپنی امت کو قربانی کے ثواب میں شریک کرنے کے ارادے سے ایسا فرمایا۔

اگر یہی قاعدہ ہے کہ بکری اہل خانہ کی طرف سے کافی ہے تو پھر گائے خاندان کی طرف سے ، گھوڑا پورے محلے کی طرف سے ،اونٹ دیہات کی طرف سے کافی ہونا چاہئیے۔ محمد شفیق صاحب قاعدہ بیان کر کے خاموش ہو گئے اور پھر تمہارے نزدیک قول صحابی ؓ و فعل صحابی ؓ حجت شرعیہ نہیں۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ والی روایت میں، حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ نے عطا ء بن یسار کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا۔اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل نقل فرما رہے ہیں۔

گویا یہ قول صحابی ہونے کی وجہ سے حجت شرعیہ نہیں ۔اور اس پر چند حوالے بھی سن لیں۔

زیر اکہ قول صحابی حجت نیست (قول صحابی حجت نہیں) (فتاوی نذیریہ ، ج:۱ ،ص: ۳۴۰) وفعل الصحابی لا یصلح للحجۃ (فعل صحابی حجت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا) (التاج المکلل ص: ۲۰۷) صحابہ کی درایت معتبر نہیں۔ (شمع محمدی ص: ۱۹) اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ابن ماجہ ص۲۲۶ پر جو روایت موجود ہے ’’ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من کان لہ سعتہ ولم یضح فلم یقربن مصلنا‘‘ یعنی جو صاحب نصاب ہو کر قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے اور دوسری روایت حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ابن ماجہ میں موجود ہے۔ ’’قال کنا وقوفاعند النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعرفۃ فقال یایھا الناس ! ان علی کل اہل بیت فی عام اضحیۃ و عتیرۃ۔‘‘ کہ ہم صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وقوف عرفات میں تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا گھر والوں میں سے ہر ایک شخص پر ہر سال قربانی اور عتیرہ واجب ہے۔

(نوٹ: عتیرہ اس بکری کو کہتے ہیں جو ماہ رجب کے اول عشرہ میں ذبح کی جاتی ہے ، یہ حکم منسوخ ہو چکا) اس سے ہر صاحب نصاب پر قربانی کے وجوب کا ثبوت ہو رہا ہے۔

حافظ سعید صاحب ! جب بکری پورے گھر کی طرف سے کافی ہے تو پھر گائے میں سات اور اونٹ میں دس کی شراکت کیسے؟اس پر کوئی دلیل۔

دلیل تو کیا جناب اس شراکت پر دلائل موجود ہیں۔ حافظ صاحب گھبراہٹ سے نکلنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولے۔

تو سنئیے جناب ! ترمذی شریف ، باب ما جاء فی الاشتراک فی الاضحیۃ میںسیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے ’’کنا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر فحضر الاضحی فاشترکنا فی البقرۃ سبعۃ وفی البعیر عشرۃ‘‘یعنی ہم کسی سفرمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ،قربانی کا دن آ گیا، ہم گائے میں سات اور اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے۔

اور سید نذیر حسین دہلوی نے فتاوی نذیریہ میں اسی کے مطابق فتوی دیا ہے۔ حافظ سعید صاحب اتنی بات کہہ کر خاموش ہو گئے۔تو قاری مراد صاحب گویا ہوئے کہ جناب عالی! ترمذی شریف کے اسی باب میں حدیث جابر بھی تو ہے ’’قال نحرنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الحدیبیۃ البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ‘‘ کہ ہم نے حدیبیہ والے سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کی ۔ اونٹ میں بھی سات شریک ہوئے اور گائے میں بھی اور پھر امام ترمذی حدیث ابن عباس کے بعد فرماتے ہیں ،ھذاحدیث حسن غریب۔حدیث جابر کے بعد فرماتے ہیں ، ھذا حدیث حسن صحیح والعمل علی ھذا اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہم۔کہ حدیث جابر صحیح ہے اور معمول بہا ہے ۔صحابہ کرام و تابعین عظام کا بھی یہی عمل رہا ہے۔

حاشیہ ترمذی شریف صفحہ ۲۷۶پر لکھا ہے کہ دس شرکا والی حدیث منسوخ ہے اور پھر صحیح مسلم کی ج: ۱،ص: ۴۲۴ پر ،اعلاء السنن کی ج: ۱۷،ص: ۲۰۴ پر بھی اسی مضمون کی احادیث موجود ہیں۔کہ گائے اور اونٹ میں سات آدمی ہی شریک ہو سکتے ہیں اور باقی رہا سید نذیر حسین دہلوی کا فتویٰ تو،سید نذیر حسین دہلوی فتاویٰ نذیریہ ج:۱ ، ص: ۳۴۰ پر فرماتے ہیں ’’حاصل آنکہ فتوی ابن عباس و ابن زبیر ہرگز قابل احتجاج نیست۔‘‘فتوی ابن عباس و ابن زبیر ہرگز دلیل بننے کے قابل نہیں۔

ایک جگہ روایت ابن عباس کو دلیل بنا کر فتوی دے رہے ہیں تو دوسری جگہ فتوی ابن عباس کو قابل دلیل ہی نہیں سمجھتے ۔ یہ فتاویٰ ہیں یا چوں چوں کا مربہ۔

ان دلائل سے واضح اور صریح اونٹ میں سات کی شراکت جائز ہو رہی ہے نہ کہ دس کی۔ قاری مراد صاحب نے بڑے دلنشین انداز میں جوابات عرض کئے اور ساتھ ہی اپنے دلائل بھی پیش کئے۔مگر حافظ سعید صاحب چونکہ کافی ہٹ دھرم واقع ہوئے تھے اتنے دلائل کے باوجود اپنی غیر مقلدانہ ضد پر اڑے رہے۔قاری مرادصاحب جان گئے کہ پہلے کی طرح اب بھی ان کو سمجھانا چیونٹی کے پائوں میں رسہ ڈال کر کھینچنے والی بات ہے۔

Rate this item
(4 votes)
Rate this item
(4 votes)
Rate this item
(3 votes)
Rate this item
(5 votes)
Rate this item
(4 votes)
Rate this item
(17 votes)
Rate this item
(5 votes)

ساس بہو کا جھگڑا …جیت کس کی؟؟ ؟

محمد شفیق ،کوٹ ادو

ہمارے معاشرے میں ساس بہو کی لڑائی، نند بھاوج کی لڑائی، دو سوکنوں کی لڑائی معمول کی بات ہے۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں یہ ازل تا ابد کا مسئلہ در پیش نہ ہو مگر ان تمام لڑائیوں میں جو مشہوری بغیربینڈباجے گاجے ،طوطنی اور ڈگڈگی کے ساس بہو کی لڑائی کو ملی ہے ایسی شہرت تو شاید پانی پت کی لڑائی یا 1857ء کی جنگ آزادی کو بھی نہ ملی ہو گی۔ دونوں پل بھر بھی ایک دوسرے کے (نوے فیصد) قریب پھٹکناتک گوارا نہیں کرتیں۔ وجہ.........؟؟ جنریشن گیپ یعنی ساس کو دقیانوسی اور بہو کو نئے زمانے کی چیز کہا جا تا ہے۔ اگرچہ ابھی بھی کچھ اچھے لوگ باقی ہیںلیکن اس جہاں میں اکثریت ایویں ہی ہے۔

ہاں جناب! تو ہم بات کر رہے تھے ساس بہو کے پھڈے کی ۔ساس بہو کا پھڈا کس بات پر، کس وقت ،کس جگہ شروع ہو جائے… مری کے موسم اور ہمارے ملک کی سیا ست کی طرح اس کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ۔ ایک ساس نے اتفاق سے یا غلطی سے بہو سے پینے کا پانی مانگ لیا ،بہو جو پہلے ہی بہت جھمیلوں میں پھنسی، سٹار پلس کے ڈراموں اور فیشن کے خیالوں میں مگن تھی، ٹکا سا جواب دے دیا کہ خود اٹھ کرپی لو۔ اب آپ تصور کریں کہ بیچاری اوور ویٹ(Over Weight) بوڑھی ساس، گھٹنوں کے درد کی ماری اور مزید چھ بیماریوں میں مبتلا بھلا کیسے خود پانی لے کر پی سکتی ہے ؟ لو جی پھڈا شروع……پھڈا بھی ایسا کہ نہ ختم ہونے والا یعنی ہمارے مفاد پرست سیاست دانوں جیسا نہیں کہ جیب میں مال ختم تو رات کو تحفظات کا پھڈا شروع ہوا اور صبح دے دلا کر تمام تحفظات اور پھڈے ختم اور اب شیروشکر۔ لوجناب!پہلے ساس صاحبہ نے حملہ کیا ’’دیکھو تو آج کل کی بہوؤںکو،ایک گلاس پانی کیا مانگ لیا کھانے کو ایسے دوڑ پڑیں جیسے سمندر لانے کو کہہ دیا ہو یا ان کی آبائی جائیداد میں سے حصہ مانگ لیا ہو، کام کی نہ کاج کی دشمن صرف میرے بیٹے کے مال کی……‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

حسب توقع بہو کی طرف سے بمباری شروع ہوئی: ’’جی ہاں سارے گھر کا کام کاج تو فرشتے آکر کرتے ہیں ناں؟خود تو سارا دن منہ میں پان چبڑچبڑ کے سارا گھر لال پیلا کیے رکھتی ہو اوپر سے کام نہ کرنے کے طعنے……‘‘ ابھی ساس بہو کی یہ جنگ جاری تھی کہ نند صاحبہ جو کہ حسب معمول بازار کے دورے پر تھیں واپس آدھمکیں اور اپنی ماں پہ ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھ کر آستینیںچڑھا ، اس جنگ میں شامل ہو گئیں ۔اب بے چاری اکیلی بہو اور دشمن دو!!!

’’ بھابھی! آپ کرتی ہی کیا ہیں سوائے سٹار پلس کے ڈرامے دیکھنے اور اپنی اماں،ابا، بہن،بھائیوں وغیرہ سے گھنٹوں فون پر باتیں کرنے کے ؟‘‘ بہو نے نند کی سنی ا ن سنی کرتے ہوئے اپنے کارنامے زور شور سے گنوانے شروع کر دیے: ’’تینوں ٹائم میں ہی پکا پکاکر کھلا تی ہوں،سارے گھر کے کام کاج میں ہی کرتی ہوں، تمہاری ساری بہنیں جب درجنوں بچوں سمیت آ وارد ہوتی ہیں تو ان کے اوجھ کے بوجھ میں ہی کھلا کھلا کر بھرتی ہوں، تم تو اٹھتی ہی دوپہر کے بارہ بجے ہو، کچن کی صفائی بھی میں کرتی ہوں، آنے جانے والے تمام مہمان میرے ہاتھوں ہی بھگتائے جاتے ہیں ، اور ہاں یہ تمام کپڑے میرے ہی دھلے ہوئے پہنتی ہو،سمجھیں ؟؟؟تمہیں آتا ہی کیا ہے سوائے باتیں بگھارنے، سونے اور بازار کے چکروں کے……‘‘

نند صاحبہ کچن کے فرش سے چند استعمال شدہ تیلیاں اٹھا لائیں: ’’یہ ہے آپ کی صفائی! سارا دن کچن میں گندے برتن پڑے سڑتے رہتے ہیں ۔ آپ کہتی ہیں کہ صفائی کرتی ہوں، وہ دیکھیںکل سے منے کے گندے ڈائپر اور نیکریں واشنگ مشین میں پڑے ہیں ،آپ نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ ڈرائنگ روم کی ٹیبل پر دیکھیں کتنی مٹی جمی ہوئی ہے، چھی چھی… اور ذرا اپنے کمرے کا حال تو دیکھیں کہ اب تک صبح کے بستر تک سیٹ نہیں ہوئے ایسے لگ رہا ہے جیسے سرائے یا ریلوے اسٹیشن ہو یا پھر آپ سیلاب زدگان میں سے ہوں۔ دوپہر ہو نے کو ہے اورابھی تک پکانے کو بھی نہیں چڑھایا، لگتا ہے دوپہر کا کھانا رات ہی کو ملے گا ۔‘‘

اسی دوران گھر میں شور وغل سن کر اوس پڑوس اور محلے کی عورتوں نے اپنی اپنی چھتوں پر مورچے گاڑ کر اس جنگ کی باقاعدہ مانٹیرنگ بھی شروع کر دی تاکہ استعمال شدہ ڈائیلاگ یاد کرلیں اوربوقت ضرورت اپنی لڑائیوں میں کام میں لائیں۔یہ مورچے لگتے ہی تینوں موصوفاؤں نے کچھ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عارضی جنگ بندی کا اعلان کر دیا ۔

یہ جھگڑے جن کی ایک جھلک ہم نے یہاں پیش کی ہے، اکثر گھروں کا معمول ہیں۔ نہایت خوش قسمت ہیں وہ گھر جہاں اخلاقیات زندہ ہیں، چھوٹے اپنے بڑوں کی قدر کرتے ہیں اور بڑے چھوٹوں سے محبت و شفقت کا سلوک کرتے ہیں۔ اس مزاحیہ خاکے میں کتنے سبق پوشیدہ ہیں، یہ بات اہل نظر پر مخفی نہیں۔ اگر ہم میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرلے اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرتا رہے تو یقین مانئے کہ ہمارے گھر جنت کا نمونہ بن جائیں گے۔ ساس بہو کے جھگڑوں میں جیت ہوتی ہے تو صرف شیطان کی، یا ان فتنہ پرور لوگوں کی جنہیں اس طرح کے فسادات سے لطف ملتا ہے۔

Rate this item
(1 Vote)
Rate this item
(2 votes)

اٹھو کہ کوچ نقارہ بج چکا!

محمد الیاس گھمن

نومبر کا آغاز ہو چکا، ہواؤں میں یخ بستگی بڑھتی جا رہی ہے۔ آج صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد سیر چمن کو نکلا تو ہر شے منجمد سی محسوس ہوئی ما سوائے اپنے خیالات کے۔! یا اللہ! کیا یہ وہی ملک ہے کہ جس کا خواب 9نومبر کو پیدا ہو نے والے ایک فرزانے نے دیکھا تھا؟ ریڈ کلف ایوارڈ کی ظالمانہ تقسیم نے اس پاک وجود کے کتنے حصے اس سے جدا کر دیے۔ مقبوضہ جموں کشمیر، جونا گڑھ،حید آباددکن جیسے کتنے ہی زخم ہیں جو اس پاک سر زمین کے سینے پر لگائے گئے اور وہ آج تک ناسور بن کے رس رہے ہیں۔ رہی سہی کسر 1971ء میں’’ اپنوں‘‘ نے پوری کر دی۔ بھائی کو بھائی سے جدا کرنے کی سازشیں رنگ لائیں اور ہمارا بازو کاٹ کر نفرتوں کی خلیج ہمارے درمیان حائل کر دی گئی۔ بات صرف یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ جس بنیادی نظریہ پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اس بنیاد پر کاری ضربیں لگا ئیں گئیں اور ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کے شرمندۂ خورشید جلوۂ تاباں سے نظریں چرا کر مغرب کے اندھیروں میں بھٹکنے کو انسانیت کی معراج سمجھ لیا گیا ۔

کیا یہ وہی اسلامی فلاحی ریاست ہے جس کا تصور اقبال مرحوم نے خطبہ الہ آباد میں پیش کیا تھا…؟ کیا یہ وہی خطۂ پاک ہے جس کو ہم نے ہزار ہا عصمتوں اور ان گنت جانوں کی قربانی دے کر حاصل کیا تھا …؟ کیا ان قربانیوں کا کوئی بدلہ ملنے والا نہیں …؟ کیا اس پاک سرزمین کا کاروبار سلطنت چلانے کے لیے ابھی تک اسی نظام پر انحصار کیا جا رہا ہے جیسے علامہ اقبال نے ان الفاظ میں ’’خراج عقیدت‘‘ پیش کیا تھا :

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا تو کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

گستاخی معاف… اقبال مرحوم کی شوخی قلم کی ایک اور جھلک ملاحظہ ہو :

الیکشن، ممبری، کونسل، صدارت

بنائے ہیں خوب آزادی نے پھندے

میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ

نہایت تیز ہیں یورپ کے پھندے

میں یہاں عرض کرتا چلوں کہ اقبال کی طنز اور ظرافت سطحیت سے بالکل پاک ہے اقبال کے طنز میں جو گہرائی اور گیرائی ہے اس سے صاحب دل اور صاحب حال لوگ بڑی اچھی طرح آشنا ہیں۔ مغربی معاشرت کا سیلاب جس طرح ہمارے گلی کوچوں سے آگے بڑھ کر ہمارے گھروں کے اندر آ گھسا ہے اور اسلامی اور مشرقی تہذیب وتمدن کو دقیانوسیت کی علامت قرار دے دیا گیاہے اسے دیکھتے ہو ئے اقبال کی چشم قلندارانہ اوردیدہ بینا ہمیں یہ پیغام دیتے ہوئے یہ محسوس ہو رہی ہے: ع

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا

اللہ تعالی من حیث القوم ہم سب کو اپنی ان ذمہ داریوں کے ادراک کی توفیق دے جو اس نظریاتی سر زمین کا باشندہ ہو نے ناطے ہم پر عائد ہو تی ہیں ۔ کاش ہمارے ارباب اختیارو اقتدار دل کی آنکھوں سے اقبال کے خطبہ الہ آباد کو ایک مرتبہ پڑ لیں اور اس میں جھلکتے پیغام کو حرز جان بنا لیں ۔

ہم وطنو! خواب غفلت سے اٹھو اب اور کون سے صور اسرافیل کا انتظار ہے ؟ اٹھو اٹھو کوچ نقارہ بج چکا قافلہ حق کے ساتھ چل نکلو اہل السنت والجماعت کے عقائد ونظریات کو مضبوطی سے تھام لو اور مغربی تہذیب وافکار پہ دو حرف بھیج کر یہ ثابت کر دو کہ:

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

اس نومبر کا یہی پیغام ہے اور اقبال کے دل میں بھی یہی نغمہ درد تھا جسے وہ ساری عمر قوم کو سناتے رہے

Rate this item
(4 votes)

فساد معاشرہ کے 13اسباب

مفتی محمد اسماعیل طورو

پہلا سبب ؛اپنی غلطی:

ہم مردوں نے یہ نفسیا ت بنالی ہے کہ ہم جو کچھ کریں ہماری بیوی، بہن اور بیٹی کو صاف رہنا چاہیے ورنہ خلاف ورزی پر اسے سخت سزا دیں گے، مگر مرد یہ نہیں سوچتاکہ جس طرح یہ حرکت اس کے لیے بُری ہے بالکل اسی طرح میرے لیے بھی بری، حرام اور ناجائز ہے ۔اس لیے کہ سورۃ نور میں خود اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ:

’’ گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے اور صاف مرد صاف عورتوں کے لیے اور صاف عورتیں صاف مردوں کے لیے ہیں۔ ‘‘اور اس شخصیت کا ارشاد ہے جس سے زیادہ کوئی سچا نہیں کہعفوا تعف نسائکم تم خود صاف رہو تو تمہاری عورتیں بھی صاف رہیں گی اگر تم غلط ہو تو اپنی عورتوں کے بارے میں یہ روش کیسی ؟حقیقت یہ ہے کہ مرد کو چھوڑ کر صرف عورت ذات کے ساتھ ہمارا یہ رویہ نہایت ہی ظالمانہ اور بے جادلیرانہ ہے۔

دوسرا سبب؛ نگرانی میں سستی:

شریعت میں سختی نہیں عام لوگ بھی یہی کہتے ہیں اور ٹھیک کہتے ہیں لیکن کیا شریعت میں پابندی بھی نہیں؟پردے کی تاکید نہیں؟ غلط بات سے منع رہنے اور رکنے کی پابندیاں نہیں؟ بلکہ بچوں اور بیویوں کو مارنے تک کا تذکرہ شریعت میں موجود نہیں؟یہ پولیس، فوج، کرفیو، انتظامی ادارے اور مربی کی ڈانٹ ڈپٹ کیاسختیاں ہیں؟یا فائدہ بخش اصول؟ شریعت میں سختی نہیں لیکن صحیح پابندی ہے؛ بہن ،بیٹی اور بیوی جس طرح کے بھی کپڑے پہن لیں باریک ہوں یا چست نیم عریاں ہوں یاساڑھی، یہ بھائی، باپ اور بیٹا دیکھتا رہے گا اور کوئی نصیحت نہیں کرے گا(پابندی اور سختی میں فرق یہ ہے کہ ایک میں فائدہ اور دوسرے میں نقصان ہے جس طرح چوراہے میں لال بتی کا جلنا پابندی اور فائدہ بخش ہے لیکن بے جا کسی کو روکنا اور آگے(باوجود راستے کے صاف ہونے کے )جانے نہ دیناسختی ہے۔

تیسرا سبب ؛دینی مجالس سے دوری:

دنوں پر دن گزر جاتے ہیں لیکن ہمارے گھروں میں تقویٰ، للہیت ،فکرِ آخرت، موت کی یاد،اعمال کا شوق اور قبر میں جانے کے لیے کوئی بات نہیں ہوتی، دن رات گپ شب، ڈرامے فلم ٹی وی، اور کاروباری باتیں کرتے ہیں، کم از کم چوبیس گھنٹے میں ایک آدھا گھنٹہ دینی تعلیم و تعلم کے لیے مقرر کرنا چاہیے جس میں گھر کے افراد آپس میں علم وعمل اور دینی باتوں کا تذکرہ کریں۔

چوتھا سبب؛ آلات نشریات کا غلط استعمال:

ڈش، کیبل، ٹی وی، وی سی آروغیرہ۔اگر یہ آلات آپ از خود گھر لاچکے ہیں تو یہ توقع نہ نہ رکھیں کہ گھر والوں کے لیے شہوات نہ ابھریں؟ ان کے دلوں میں گندے خیالات نہ ابھریں ؟ جب یہ چیزیں دلوں میں پناہ گزیں ہوجائیں تو اولاد سے خیر کی توقع، چھوٹے بڑے کی تمیز کا مطالبہ اور شرم وحیا کے وجود کاسوال ایسا ہے جیسا کہ نڑکے پودے کو گنے کی مشین میں ڈال کر جوس کا مطالبہ، از خود سامان تعیش مہیا کرکے آگ لگاتے ہیں اور شعلوں سے منع بھی کرتے ہیں۔

ہم خدا خواہی وہم دنیا دوں

ایں خیال است ومحال است وجنوں

پانچواں سبب؛ صحیح شرعی پردے کا فقدان:

آج کل جورواجی پردہ ہے اس سے تو پردہ نہ کرنا اچھا ہے ، صرف سکارف پہن کر پورے بدن تنگ کپڑوں میں نظر آتاہے، یا ایسی گرے کلر یا کالی مخصوص قسم کی چادریں پہن لیتی ہیں جو بدن سے چپک جاتی ہیں اور بدن کے سارے اعضاء الگ الگ نظر آتے ہیں۔ پردہ کا مقصد یہی ہے کہ مردوں کی نظر کی حفاظت ہوجائے اور عورت کاحسن چھپ جائے جس پردے میں یہ صفت نہ ہووہ پردہ نہیں بلکہ بے پردگی ہے۔ صحابیات اس طرح پردہ کرتیں کہ چمک دمک کے بغیر گھٹنوں سے نیچے تک موٹی چادریں پہن لیتی اور صرف ایک آنکھ کھول کر دیوار سے لگ لگ کر شرم و حیا کے ساتھ چلتیں۔پردہ میں یہ بھی شامل ہے کہ عورت 78کیلومیٹر پیدل سفر کے تناسب سے دور جائے تو محرم مرد ساتھ ہو۔ اکیلی نہ جائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق دوسروں سے زیادہ اپنوں سے پردہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہم ان سے پردہ نہیں کرتے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ دیور سے اس طرح بھاگو جس طرح موت سے بھاگتے ہو صرف دیور نہیں بلکہ ہر عورت کے لیے اپنے اور خاوند کے ماموں زاد، خالہ زاد، چچازاد جس کو ہم ’’بھائی‘‘ کہتے ہیں سے پردہ ہے۔

چھٹا سبب ؛روک ٹوک کی کمی:

کسی بھی وقت اگر لڑکی کہے کہ میں آج فلاں سہیلی کے گھر رات گزاروں گی میں بازار جا رہی ہو یاموں، چچا اور خالہ کے گھر رات گزاروں گی تواس پرکوئی پابندی نہیں ،کسی وقت سیر کے لیے نکل سکتی ہے کسی بھی وقت شاپنگ کرسکتی ہے میرے خیال کے مطابق یہی سبب ایسا خطرناک ہے جس کاکوئی انداز ہ نہیں، جس سے رونما ہونے والی مفاسد کے درجنوں واقعات میرے ذہن میں گردش کررہے ہیں، جس کا ذکر نہ کرنا بہترہے۔

ساتوں سبب؛ معاشرے کا تشتت:

چونکہ عورت اپنے دائرہ کار میں نگرانی ہی کے ذریعے رہتی ہے اور اگر شومیٔ اعمال سے گھر کا نگران ہی نہ ہوتوعورت کو کھلی چھٹی مل جاتی ہے جو جی میں آیا کرگزرتی ہے، یہاں پرمحلہ علاقہ ، بستی اور قریبی رشتہ داروں کا باہمی جوڑ، اصلاحی کمیٹی اور جرگہ سسٹم کام آتا ہے ہر جگہ پر اس طرح کی ایک کمیٹی ہونی چاہیے جو بزرگوں پر مشتمل ہو اور وہ عوام الناس کے مسائل کا تصفیہ کریں اگر کوئی بے بس ہو تو اس کی مدد کرے اور اگر کوئی مرد یا عورت غلط راستے پر جا رہی ہو تو اس کو نرمی کے بعد قوت سے روکیں اور اگر منع نہ ہوتوعلاقے والے ان سے سوشل بائیکاٹ کرلیں۔

اٹھواں سبب؛ غلط اعتماد:

شریعت میں اعتماد ایک اہم اصل ہے اور یہ کہ کسی پر شک نہیں کرنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ نگرانی اور پابندی چھوڑ دیں، ہر شخص کو دفاتر ہسپتال ، مخلوط تعلیم اور عوامی تعلیم سے منسلک مستورات کی حالت زار کاعلم ہے کہ وہ کسی موڑ سے گزر رہی ہیں اور کیا کچھ ہو رہا ہے ؟ لیکن ہر ایک کی نفسیات یہ بنی ہوئی ہے کہ میری بہن، بیوی اور بیٹی ٹھیک ہے باقی غلط ہوں گے، جو کچھ ہو رہاہے ہمارے ساتھ نہیں ہو رہا اس کو اس وقت پتا چلتاہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے

نواں سبب؛ مخلوط معاشرہ:

مسلمانوں کی عزت ،عظمت اور عصمت کو مخلوط سوسائٹی نے جتنا نقصان پہنچایا، اندازے سے باہر ہے۔عورت میں جہاں اللہ کریم نے صبر، عفت ،شرم وحیا، نرم دلی، قوت برداشت ،غم خواری اور ایثار کا جذبہ رکھا وہاں اگر یہ نفس اور شیطان کے کہنے کے مطابق چلے تو قرآن اس کے بارے میں فرماتاہے:’’ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ۔‘‘عورتو !تمہارا مکر نہایت ہی بڑاہے شیطان کے مکر کو بڑا نہیں کہا ہے لیکن عورت کے فریب کو بڑا کہاہے اللہ نہ کرے اگر عورت بے دین ہو جائے تو یہ اپنی بے دینی کی بناء پر ایسا انداز اختیار کرلیتی ہے کہ خاوند، بھائی اور باپ کو متاثر کر لیتی ہے اور اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے آنسو بہانا اس کے لیے دو منٹ کاکام ہے نا محرم مرد ڈرائیوروں کے ساتھ اپنی جوان بچیوں کو بٹھا دیتے ہیں لیکن انجام کانہیں سوچتے ہیں۔

چشم دیدہ واقعات ہیں کئی مرتبہ وہی ڈرائیور سکول کالج چھوڑنے کے بجائے کسی تفریح گاہ ہوٹل اور محفوظ مقام پر پہنچا دیتے ہیں اسی طرح Co.Educationکالج یونیورسٹیوں میں بچیوں کو بھیجنا اخلاق کے لیے کینسر اور عزت وناموس کے لیے کسی لاعلاج مرض سے کم نہیں ۔اب تو چوری چھپکے کی بات ختم ہوگئی کلاس روموں میں کالج یونیورسٹیوں کے سامنے پارکوں میں اور تفریح گاہوں میں پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کی آپس میں بات چیت مذاق بلکہ ہاتھ کا مذاق کسی سے چھپی ڈھکی بات نہیں ہے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میری بچی اور بچہ پاک صاف ہے لیکن یہ سب کچھ کون کر رہا ہے ؟ اور الحمد للہ اگر آپ کی بچی پاک بھی ہے تو کیسے اس ماحول سے بچ سکتی ہے ؟ لہٰذا قرآن پر عمل کی اشد ضرورت ہے۔

دسواں سبب ؛ہماری انتظامیہ:

جب چوکیدار چور، محافظ ڈاکو، ڈاکٹر بیمار اور ہدایت دینے والے گمراہ بن جائیں تو نظم ونسق کی بحالی کہاں ممکن ہے؟ ہر گلی اور مصروف شارع پر پولیس کے جوان موجود ہوتے ہیں، اگر یہ اصلاح لانا چاہیںتو کیا اصلاح نہیں ہوسکتی اس کے لیے بھی پولیس مختلف بہانے بناتے ہیں، اجی بڑے بیمار ہیں گزارہ مشکل ہے جب فلاں غلط تو ہم بھی غلط اگر صحیح کام چلانا چاہیں تو چین سے بیٹھنے نہیں دیتے وغیرہ وغیرہ اگرچہ اصل بات یہ ہے کہ کل اللہ کے دربار میں ان بہانوں میں سے کوئی بہانہ چل جائیگا؟ہرگز نہیں۔

گیارھواں سبب ؛غربت:

عوت کے گندگی میں جانے کے متعلق بطور خاص یہ بات ذکر کی جاتی ہے کہ غربت کی بنا پر موجود کئی عورتیں گندگی کی طرف جانے پر مجبور ہیں اگرچہ اصل بات وہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد :

’’وَلَا عَالَ مَنْ اِقْتَصَدَ۔‘

(وہ کبھی فقیر نہیں ہوگا جو خرچہ میں میانہ روی سے چلے) پر عمل نہ کرنے اور تقویٰ کے فقدان نے اس چیز کو جنم دیا ہے۔ اس لیے کہ دو ہزار کا ملازم اپنے گھر کا خرچہ چلا سکتاہے اور فعل قبیح کا ارتکاب کرنے والی ایک دن میں ہزاروں کما کر گزارہ نہیں کرسکتی، شریعت نے خرچے کا بوجھ والد بھائی اور شوہر کی موجودگی میں خاوند پر ڈال رکھا ہے اگر یہ نہ ہو یا گزارہ مشکل ہو تو عورت پردے میں رہ کر ذکر کردہ شرائط کو مدنظر رکھ کر ملازمت کر سکتی ہے ۔تو گندگی کے ذریعے کمائی کی کیا ضرورت؟ اللہ کا ڈر آخرت کی فکر موت کی یاد اور قبر کے لیے تیاری کا غم ختم ہوگیا اللہ کریم کا ارشاد ہے :’’اے مسلمانو! زنا کے قریب مت جائو یہ گندہ اور برا راستہ ہے ۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی شب دیکھا کہ جو عورتیں زنا کرتی ہیں ان کے لیے جہنم میں آگ کا ایک تندورتیار کیاگیاہے جس کا منڈیر تنگ اور نچلا حصہ وسیع ہے اس میں ان عورتوں کو ننگا جلایا جائے گا اور آگ کی شدت کی وجہ سے زانی عورتیں اوپر کے حصے تک آئیں گی ۔

(بخاری شریف )

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ سات آدمی قیامت کے ہولنا ک اور گرم دن میں عرش کے سائے کے نیچے ہوں گے جن پر کوئی غم نہیں ہوگا ایک وہ شخص جس کو زنا کا موقعہ مل جائے اور وہ یہ کہہ کر چھوڑ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔

(بخاری ومسلم)

ناجائز باتوں کے لیے ہم مختلف حیلے بہانے بناتے ہیں ایسا بہانہ بنائو جو کل اللہ کے دربارمیں چل سکے۔

بارھواں سبب؛شادی میںتاخیر اور گرانی جہیز کی لعنت:

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ پاک پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزوں میں تاخیر مت کرو ؛نماز جنازہ اور بالغ بچی کے نکاح میں جس کے لیے برابر کا جوڑمل جائے بلوغ کے بعد بچوں سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں والدین اس میں برابر کے شریک ہوتے ہیں قیامت میں ان کو سزا ملے گی آج کل جتنی پریشانیاں ہمارے اوپر سوار ہیں یہ ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں ۔

تیرھواں سبب؛ حدود وقصاص کا عد م نفاذ:

اگر قرآن کے ارشاد کے مطابق ایک ڈاکو کو قتل کی سزا میں چوراہے پر قصا صاً لٹکا دیا جائے ایک چور کا ہاتھ دنیا کے سامنے کاٹ دیا جائے ایک شادی شدہ زانی کو بڑے چوراہے پر رجم کیا جائے یا شرابی کو کوڑے لگادئیے جائیں تو کیا کوئی قاتل ، زانی ، شرابی اور چور،رہے گا؟ اللہ تعالیٰ ہم کو گھر کی صحیح نگرانی ، اپنے عمل کی اصلاح اور معاشرے کو صحیح رخ پر ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

آمین ثم آمین

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu)

By: Cogent Devs - A Design & Development Company