Print this page

مردِ ناداں

Rate this item
(3 votes)

مردِ ناداں

مفتی شبیر احمدحنفی حفظہ اللہ

اسلاف کے منہج پر قرآن و سنت کی صحیح تشریح اور حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ کی تحقیقات کی ترجمانی کرتے ہوئے ''قافلہ حق'' ترقی کی جانب گامزن ہے۔''قافلہ باطل'' سے''قافلہ حق'' کی طرف سفر کرنے وا لے نفوس یقیناً اس بات کی نوید ہیں کہ:

إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (الاسراء:81)

انہی اہل باطل کے دجل کو تشت از بام کرنے اور حق کے پرچار کے لیے ''قافلہ حق'' میں ''احقاقِ حق'' کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے، جو ان شاء اللہ تعالیٰ تمام فتنوں اور فتنیوں کا سد باب کر کے حق کے واضح کرنے کا سبب بنے گا۔۔۔

تاریخ انسانیت میں مذہب اور شرافت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔شرافت کا پتہ جس طرح زبان ،اخلاق اور کردار سے چلتا ہے ایسے ہی قلم بھی شرافت کے پرکھنے کا آلہ اور ذریعہ ہے،مذہبی دائروںمیں خواہ کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو،زبان وقلم کی آبرو ہمیشہ رکھی جاتی ہے مذہب کا تقدس اپنے سالکین کوحتی الامکان اس بات سے روکتاہے کہ ان کی زبان اور قلم انسانی شرافت کی حدود سے باہر نکلے،نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان حدود کو پھاند کر بدزبانی اور الزام تراشی کی راہ چلتے ہیں ،انہی فکری خانہ بدوشوں میں سے ایک خانہ بدوش غیرمقلد زبیر مماتی ہے جس نے مذہبی تعصب اور مسلکی غلو کی رد میں بہہ کر اہل السنۃ والجماعۃ کے صحیح روایات کو باطل اور موضوع کیا ہے اور اس تعصب میں بے چارہ اتنا حواس باختہ ہوا کہ اتنا بھی شعور نہیں رہا کہ میں ایک راوی پر کی جانی والی جرح دوسرے راوی پر فٹ کرکے اپنے بڑوں کی طرح یحرفون الکلم عن مواضعہ کا مصداق بن رہا ہوں۔

قارئین کرام: شریعت مطہرہ میں کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنے یا اس کے بارے میں غیرمناسب کلام کرنے کی قطعا اجازت نہیں،لیکن جواب اور دفاع کے طور پر مدمقابل کو اسی زبان میں جوا ب دینے کی اجازت ہے ارشاد باری تعالی ہے:

وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ

(النحل:126) 1.

2. زبیر علی زئی غیرمقلد مماتی نے "قافلہ حق"میں پیش کی جانے والی ایک روایت کو مورد تنقید بنایا تھا۔ہم نے ایک مدلل اور تحقیقی مضمون میں اس کا جواب لکھا تھاجو زبیر علی زئی سے ہضم نہ ہوا۔اور اس نے اپنےماہنامہ "الحدیث"کے شمارہ92میں بزعم خویش اس کا جواب دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔جس میں اس نے اپنی سابقہ روایت کو قائم رکھتے ہوئے بھرپور طریقے سے تلبیس اور دجل سے کام لیا ہے۔ 3.

سب سے پہلے زبیر افغانی غیرمقلد مماتی نے اپنے مدعا کے اثبات کے لیے امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے قول کو بطور ِاستدلال پیش کیا ہے لیکن یہ قول اس کے کسی کام کا نہیں۔کیونکہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مقلد ہیں اور غیرمقلدین کے نزدیک مقلد جاہل ہوتا ہے بلکہ مقلدین کو گمراہ ،فرقہ ناجیہ سے خارج اور جہنم کے مستحق کہتے ہیں۔لہذا کسی گمراہ کے قول سے استدلال کرنا عمل بالحدیث کے دعویداروں کو زیب نہیں دیتا آخر وہ کون سی مجبوری تھی کہ جس نے زبیر بزعم خود ''علامہ فہامہ'' کو ایک جاہل کی چوکھٹ پہ سجدہ ریزی پر مجبور کردیا۔

اگر بالفرض آپ کا استدلال کرنا درست بھی ہو تو پھر بھی امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول ہمارے خلاف نہیں۔اس لیے کہ اس میں ہے کہ اگر ضعیف روایت کی تائید میں کوئی صحیح یا حسن روایت آجائے تو وہ روایت قابل استدلال بن جاتی ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری پیش کردہ روایت ضعیف ہی نہیں اور اگر بالفرض غیرمقلدین کے خود ساختہ اصول کی روشنی میں ضعیف بھی مان لی جائے تو اس کی تائید میں صحیح اور حسن درجے کی روایت موجود ہیں۔

اس کے بعد علی زئی نے لکھا ہے کہ محدثین درایت وفقاہت میں بہت بڑے ماہر تھے۔تو عرض ہے کہ محدثین کی عظمت ومہارت فی الحدیث مسلم ہے ۔لیکن محدث اعظم امام ترمذی شافعی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ معانی حدیث کے سب سے زیادہ جاننے والے فقہاء ہیں اب ہم موجودہ دور کے "محکک"علی زئی کی بات مانیں یا محدث امام ترمذی رحمہ اللہ کی۔فقہاء کی دشمنی نے طوطا چشم بنا دیا یا تجاہل ِعارفانہ ہے؟؟؟؟؟

آنجناب نے قرائن کی وضاحت مانگی۔۔۔۔یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے طبقے کا عقل ودانش سے کوئی تعلق نہیں،لیکن ذوی العقول ہونے کے ناطےکچھ نہ کچھ مظاہرہ عقل ہونا چاہیے تھا۔تعصب اور مسلکی غلو سے قطع نظر اگر ہمارے تحقیقی مضمون کو بنظر انصاف دیکھ لیتے تو وضاحت کی ضرورت ہی نہ تھی۔اس لیے کہ ہم نے مدلل انداز میں قرائن کی وضاحت کی تھی کہ سند کے علاوہ تلقی بالقبول،مضمون حدیث پر اجماع اور اس روایت سے مجتہد کا استدلال وہ امور ہیں جن کی وجہ سے حدیث پر صحت کا حکم لگایا جاسکتا ہے۔

کہتا ہے کہ حاطب اللیل سیوطی صاحب نے یہاں یہ صراحت نہیں کی۔۔۔

اس کا جواب دینے کے لیے وضاحت کی غرض سے ایک روایت پیش خدمت ہے،حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جب مشرف باسلام ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قوم یہود کو بلایا اور فرمایا کہ عبداللہ بن سلام تم میں کیسے آدمی ہوئے ابھی ان کو عبداللہ کے مسلمان ہونے کا علم نہیں تھا۔انہوں نے جواب دیا کہ وہ ہم بہت بڑے عالم اور صاحب حیثیت آدمی ہیں۔لیکن پھر جب ان کو ان کے اسلام کا پتہ چلا تو کہنے لگے وہ ہم میں سے بڑے ہی گھٹیااور جاہل آدمی ہے۔کچھ ایسی ہی حالت زبیر علی زئی کی بھی ہے کہ جب کسی امام کا قول اس کے اپنے مسلک کی مؤید ہو تو اس امام کا نام بڑے ہی ادب واحترام سے اور القاب سے ملقب کرکے پیش کرتا ہے لیکن اگر اس امام کا قول اس کے مذہب کے مخالف ہو تو اس کی مسلم حیثیت سے بھی انکار کرلیتا ہے۔مثال کے طور پر امام سیوطی رحمہ اللہ کو لیجیے کہ جب ان کا قول زبیر کے مخالف آرہا ہے تو کہا حاطب اللیل سیوطی۔۔۔اور جب اس کے مذہب کے مؤید ہو تو پھر کہتا ہے علامہ سیوطی فرماتے ہیں۔

{دین میں تقلید کا مسئلہ ص40}

اس کے زلفوں میں پہنچی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی

دوسری بات یہ ہے کہ زبیر علی زئی نے حضرت امام عبداللہ بن المبارک اور امام سیوطی رحمہ اللہ کے قول میں تعارض پیش کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ یہ دونوں اقوال باہم متعارض نہیں،حضرت عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سند ضروری ہے اور امام سیوطی رحمہ اللہ کا منشاء یہ ہے کہ اگر سند ضعیف ہو تو تلقی بالقبول سے ضعف ختم ہوجاتا ہے۔سند کا انکار انہوں نے بھی نہیں کیا لیکن آپ کے مہرزدہ دل اور شپرہ چشمی ان کے اس واضح عبارت کو نہ سمجھ سکی اس کو ہم تعصب اور مسلکی غلونہ کہیں تو پھر کیا کہیں؟؟؟؟؟

زبیر علی زئی نے لکھا ہے کہ خیر القرون کے مشہور وثقہ امام عبداللہ بن المبارک کے مقابلے میں سیوطی صاحب کے نامعلوم بعض محدثین کی بات کون سنتا ہے۔۔۔؟

{الحدیث ش92ص40}

یعنی بعد والے لوگوں کے مقابلہ میں خیر القرون کی بات معتبر ہوگی۔تو بھئی ہم پوچھتے ہیں کہ اگر یہی خیرالقرون کا امام فرمائے کہ لوگوں میں سب سے بڑے امام ،فقیہ امام ابوحنیفہ ہے۔

{تہذیب التہذیب ج6ص558}

تو پھر ان کی اس بات کو کیوں تسلیم نہیں کرتے اس دوغلی پالیسی پر آپ کا ضمیر مطمئن کیسے ہے یا ضمیر ہے ہی نہیں۔۔۔۔؟؟؟؟

آگے زبیر علی زئی نے اس عبارت کے ذیل میں امام سیوطی رحمہ اللہ کے تین قول نقل کیے ہیں بالترتیب ہر ایک جواب پیش خدمت ہے۔

پہلا قول: کہ" جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے امام سے منسوب ہوجائے تو یہ شخص بدعتی اور اہل السنۃ والجماعۃ سے خارج ہے "تو عرض ہے کہ اگر عبارت اسی معنی پر حمل ہو جس پر آپ نے کی ہے تو پھر ائمہ صحاح ستہ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔کیونکہ وہ سب مقلد تھے نیز امام ترمذی رحمہ اللہ تو اپنے امام کی تقلید کی وجہ سے مدمقابل کے خلاف کافی شدت اختیار کرتے ہیں ۔کیا وہ بھی ائمہ سے منسوب ہونے کی وجہ سے اہل السنۃ والجماعۃ سے خارج یا یہ نظر کرم صرف ہم پر ہے۔۔۔۔؟دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ائمہ مجتہدین میں کسی ایک کی طرف منسوب ہوجائے اس کو اہل السنۃ والجماعۃ سے خارج سمجھتے ہیں اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ائمہ محدثین میں سے کسی ایک کی طرف منسوب ہو تو اس کا حکم کیا ہے؟؟؟

دوسرا قول: زبیر علی زئی نے امام سیوطی رحمہ اللہ کے قول میں اہل حدیث کا لفظ دیکھا تو پھولے نہ سمائے کہ چلو ویسے بھی ہر طرف سے دھتکارے ہوئے ہیں ایک قول تو تائید میں مل گیا۔حالانکہ اصول کی رو سے اہل حدیث محدثین کو کہا جاتا ہے نہ کہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو۔ دوسرا اگر بالفرض یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ اصحاب الحدیث سے مراد تم ہی ہو تو ان عبارات کے بارے میں آنجناب کی کیا رائے ہے۔

قال الاعمش ما فی الدنیا قوم شر من اصحاب الحدیث،

ترجمہ: دنیا میں جماعت اہل حدیث سے بدتر کوئی قوم نہیں۔

قال ایضاً:لو کانت لی اکلب کنت ارسلتہا علی اصحاب الحدیث۔

ترجمہ: اگرمیرے پاس کتے ہوتے تو میں اہل حدیثوں پر چھوڑ دیتا۔

قال ابوبکربن عیاش:اصحاب الحدیث ہم شر الخلق ہم المجان

ترجمہ: اہل حدیث بدترین خلائق اور مجنون ہیں۔

اب یا تو اصحاب الحدیث کے نام سے انکار کرو یا پھر ان عبارات میں ذکر کیے کئے "فضائل"کو اپنے لیے تسلیم کرو۔دوسری بات یہ ہے کہ ہل السنۃ والجماعۃ بھی تو اپنا متبوع وپیشوا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد تشاورون الفقہاء کو مانتے ہوئے اجتہادی مسائل میں فقہاء کی تقلید کرتے ہیں۔

تیسرا قول: امام غزالی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ مقلد کے لیے چپ رہنا شرط ہے۔

جناب علی زئی صاحب ،،،،،ایک صفحہ پہلے تو آپ کا یہ نظریہ تھا کہ ہر قول کی سند ضروری ہے یہ حکم سب کے لیے عام ہے یا آپ جیسی بے تحقیق نسل اس سے مستثنیٰ ہے۔ امام سیوطی رحمہ اللہ کی ولادت 911ھ میں ہے اور امام غزالی رحمہ اللہ کی وفات 505ھ میں ہے۔امام سیوطی رحمہ اللہ کے اس قول کی سند کہاں ہے؟

دوسری بات یہ ہے کہ امام غزالی نے اپنے قول کی علت بیان کی ہے کہ وہ مقلد چپ رہے جو طرز استدلال سے ناآشنا ہو۔حالانکہ علماء اہل السنۃ والجماعۃ تو آپ جیسے علمی یتیموں کی ٹیڑھے کل کو سیدھا کررہے ہیں

زبیر علی زئی نے المغنی کے حوالے سے جرابوں پر مسح کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کیا ہے۔حالانکہ وہاں یہ صراحت ہے کہ جراب ثخینین ہو، بغیربندھے پاؤں پہ ٹھہرتی ہوں،اور اس میں چلنا ممکن ہو،اور اگر کسی جراب میں یہ صفات نہ ہو اس پر مسح جائز نہیں اب یہاں ان خاص جرابوں کو عام پر حمل کرنا بالکل ایسا ہے کہ لاتقربوا الصلوۃ،کو لے لیا جائے اور وانتم سکاریٰ کو چھوڑ دیا جائے۔دوسری بات کہ آپ نے لکھا ہے کہ جراب پھٹے ہوئے ہوں تب بھی مسح جائز ہے۔حالانکہ المغنی میں یہ وضاحت ہے کہ پھٹی ہوئی جراب پر مسح کرنا جائز نہیں۔

یہود کی طرح اپنی مطلب کی بات لینا اور اپنے خلاف بات کو زیر انگشت رکھنا کہاں کی ایمانداری ہے۔؟؟؟؟

آگے علی زئی نے اپنےنامہ اعمال سے سیاہی مستعار لے کر صفحات سیاہ کرکے یہ بات لکھی ہے "علمی میدان میں ابن ہمام اور تھانوی کے اقوال کی کوئی حیثیت نہیں "

اگر تجھ جیسے سپرہ چشم کو حضرت ابن ہمام اور حضرت تھانوی رحمہما اللہ کی علو شان راس نہیں آتی تو تعجب کی کوئی بات نہیں اس لیے کہ اعتراف عظمت کےلیے معترف کا خود باعظمت ہونا ضروری ہے ان حضرات کی علمی شان تو مسلم ہے ان کے علمی آثار کو اگر بنظر انصاف دیکھ لیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے امام اور مجدد تھے۔مشہور مقولہ ہے کہ چمگادڑ کی ملامت کرنے سے سورج کی روشنی میں فرق نہیں آتا۔لہذا زبیر صاحب! موتوا بغیظکم۔۔ 4.

5. زبیر علی زئی نے ابراہیم بن محمد الشیخ کے حوالے سے مولانا آصف احمد لاہوری کے اقوال میں ظاہراً تعارض پیش کیا ہے۔ہم اس کو آپ کی جہالت پر محمول کریں یا تجہل پر۔۔۔۔۔ہم نے یہ تو نہیں کہا کہ شوکانی نے ابراہیم بن محمد کو ضعیف کہا تو روایت ضعیف ہوگئی۔ہم نے تو قاضی شوکانی کا اصول پیش کیا کہ سند حدیث ضعیف ہونے کے باوجود مضمون پر اجماع واقع ہوچکا ہے جو کہ حدیث کی صحت کی دلیل ہے۔اتنی صاف اور واضح بات آپ کو سمجھ نہ آئی اور اپنی فطرت سے مجبور ہوکر اعتراض کیا۔ 6.

آگے علی زئی غیرمقلد نے گل فشانی کی ہے کہ شبیر احمد صاحب نے اپنے پیشوا شوکانی۔۔۔اس پر بے ساختہ ایک شعر یاد آیا:

پھل پھینکتے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے نامہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

جناب علی زئی صاحب! اتنی بد حواسی بھی اچھی نہیں کہ اپنے گھر کے افراد اٹھا کر باہر پھینک رہے ہو۔ شوکانی صاحب ہمارا نہیں بلکہ آنجناب کا پیشوا اور مذہب ِغیر مقلدیت کا سرخیل ہے۔

(کاروانِ حدیث ص41)

زبیر صاحب نے لکھا ہے کہ ابومحمد الحارثی کی تعدیل کسی امام نے نہیں کی ہے۔حالانکہ ہم نے اس کی تعدیل وتوثیق امام ذہبی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کی تھی آپ کی غباوت کے پیش نظر دوبارہ ذکر کردیتے ہیں :

(ابومحمد)الشیخ الفقیہ العلامہ،کان محدثا جوالا راسا فی الفقہ۔

اصول جرح تعدیل کی روشنی میں تو یہ الفاظ تعدیل ہیں،البتہ آپ کے خود ساختہ اصول میں یہ الفاظ تعدیل ہیں یا نہیں۔وہ آپ ہی بتا دیں؟؟؟؟؟

قارئین کرام: آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ زبیر علی زئی مردِ ناداں نے دجل وتلبیس سے کام لے کر اہل السنۃ والجماعۃ کی صحیح روایات میں قطع برید کرکے متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب حفظہ اللہ کے تحقیقی مضمون کا حقیقی جواب نہ ہونے کی وجہ سے ساری اخلاق حدود کو پار کرکے بازاری زبان استعمال کرنے پر اتر آئے ہیں۔اور یہی باطل کا طریقہ کار ہے کہ دلائل کی دنیا میں لاجواب ہونے پر اپنی خباثت باطنی غیرمہذب کلام اور دشنام طرازی کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ان فتینوں کے دجل وفریب سے محفوظ رکھے۔آمین ہم نے تو بہر طور کوشش کی کہ زبیر صاحب اپنے خود ساختہ اصولوں سے باز آجائیں مگر اقبال مرحوم نے کیا خوب کہا ہے:

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مرد ِناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر

Read 3812 times

Latest from Mureed e Murshad