Print this page

یہ عبرت ہے عقل والوں کے لیے

Rate this item
(6 votes)

یہ عبرت ہے عقل والوں کے لیے

مولانا مقصود احمد سکھیرا

دنیا کے اندر ایک بہت بڑا طبقہ خود کو دانش ور،عقل مند،اور عقل کل سمجھنے والا ایسا موجود ہے جس کا امتیازی نشان اسلام کے مسلمہ اصول،متوارثہ مسائل اور حدود شرعیہ پر اپنے عقل خام سے اعتراض ہی نہیں بلکہ انکار تک کر دینا ہے۔وجہ یہ ہے کہ اپنی عقل (بدعقل)کو میزان مقرر کرکے ہر عقیدہ،مسئلہ وغیرہ کو اس پر تجرباتی طور پر پرکھتے ہیں۔ جب ناقص عقل میں اس کی حکمت وحقیقت سمجھ نہیں آتی تو نتیجہ انکار نکلتا ہے۔ اسی وجہ سے وہی ''دانشور '' کہلانے والا طبقہ کیمونسٹ جو اپنے حقیقی خالق ومالک اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرتے ہیں ،تو دوسری طرف وہ لوگ بھی موجود ہیں جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے انکاری ہیں ۔

ا لغرض موت کے علاوہ تمام حقیقتوں کو بے حقیقت اور انکار کرنے والے دنیا میں موجود ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو معاشرتی دنیا میں اچھا گروہ،طبقہ اور مہذب انسان بھی سمجھتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے یہ تمام طبقے توحید ورسالت ،وجود ملائکہ وغیرہ کا انکارکرتے ہیں لیکن عقل کا انکار نہیں کرتے بلکہ عقل کے بارے اپنے آپ کو عقل ودانش کے دھنی سمجھتے ہیں۔ اپنی عقل ،فہم وفراست کا انکار تو کیا غلط بھی نہیں سمجھتے۔ اس کے برعکس محیر العقول صرف ایک طبقہ ایسا ہے جو توحید ورسالت ،ملائکہ ،معاد وغیرہ کا اقرار کرکے ''فقہ'' یعنی فہم وسمجھ کا انکار کرتا ہے، گویا کہ اس طبقے کا تمام اہل السنۃ سے اختلاف ونزاع کی وجہ عقل وفقہ سے لڑائی ہے۔

اس لیے کہ اس طبقے میں فقہ(سمجھ وعقل)نامی کوئی چیز نہیں الٹا فقہ سے چڑاور لڑائی ہے۔ اس لیے ان میں بےعقلوں اور بےوقوفوں کی علامات مثلاً ضد،ہٹ دھرمی،کسی بڑے پر عدم اعتماد ،خود اجتہادی،فقہاء سے دشمنی، ننگے سر رہنا،کسی مسئلہ میں دلائل کے باوجود تحقیق کے نام پر راہ فرار اختیار کرنا وغیرہ پائی جاتی ہیں، جب کہ فقہ کو قرآن وحدیث کی تشریح یا وسعت ماننا عقل کے عین مطابق ہے۔وہ اس طرح کہ قرآن ،حدیث اور فقہ یہ تین ذاتوں کا کلام ہے۔''قرآن '' کلام خدا ، اس کی تشریح ''حدیث'' کلام مصطفی اور اس کی استخراجی صورت ''فقہ'' کلام فقہاء ہے اور ان تین کلاموں میں سے پہلے کلام خدا کو پھر کلام مصطفی اور پھر کلام فقہاء کو ماننا یہ ترتیب صحیح اور عقل کا مقتضیٰ ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے بذریعہ وحی قرآن میں خوش اسلوبی سے ایسی دقیق اور معجز عبارات کو سورتوں کے مالوں میں آیتوں کے موتیوں کو پرویا کہ جس کی مِثل لانے کا پوری کائنات کے جن وانس کو عالمگیر چیلنج کردیا، لیکن تمام کے تمام قرآنی فصاحت وبلاغت کے اعجاز کے سامنے بے بس ولاچار ہونے کے ساتھ ساتھ قرآنی اجمال کی تشریح وتفصیل یا علمی کتاب کی عملی صورت ایک ایسی باعلم وباکمال پیکر حسن اخلاق ذات کا انتظار کرنے لگے جس کا علم وتقویٰ وغیرہ تمام کائنات سے زیادہ ہو ،کیونکہ کلام خدا کے اندر غوطہ خوری اور اس کے دقائق و لطائف سے تفصیل کے پردے اٹھانا ہر آدمی کا کام نہیں بلکہ اس کے لیے تو اعلی علم وفضل کے ساتھ ساتھ جودت ذہن مضبوط استعداد کی حامل ایسی معلم ذات کی ضرورت ہےجس کی تعلیم و تربیت بھی براہ راست اللہ کی طرف سے ہو تو ان اوصاف کی حامل ذات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہےجس کے اندر یہ تمام اوصاف و کمالات بدرجہ اتم ودیعت رکھے گئے ہیں،جس کی وجہ سے اللہ رب العزت نے قرآن کی تشریح اور وضاحت کرنے کا حکم حضور علیہ السلام کو دیتے ہوئے فرمایا:

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ

(النحل:44)

ترجمہ: اور ہم نے آپ کی طرف قرآن نازل کیا تاکہ آپ علیہ السلام خوب کھول کھول کر لوگوں کے لیے بیان کریں جو ان کی طرف تیرے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ۔ ایک اور ارشاد باری ہوتا ہے:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ

(المائدہ:67)

ترجمہ: اے رسول! جو قرآن آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اسے پہنچاؤ۔تو یہ وضاحت اور پہنچانے کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے دیا گیا کہ کلام خدا کی فصاحت وبلاغت اجمال واغلاق،اعجاز واختصار کو سمجھنا کسی معمولی آدمی کا کام نہیں بلکہ اس صاحب علم وفضل کا کام ہے جس کی تعلیم وتربیت براہ راست اللہ کی طرف سے ہو جو کلام خدا کی پیچ ودقائق کو سمجھے تو ایسی شخصیت کو ''نبی'' اور جن الفاظ سے قرآن کی تشریح کرتا ہے، اس کو''حدیث ''کہا جاتا ہے۔چونکہ نبی کا کلام بھی عام آدمی کے کلام کی طرح تو نہیں ہوتا وہ بھی دنیائے کلام میں فصاحت وبلاغت یا وقتی حکمت کے پیش نظر بہت ساری تفصیل وتشریح کو اپنے اندر گوہرِ صدف کی طرح مدغم کردیتا ہے تو اس کلام سے اجمال کے پردے ہٹا کر تہہ میں چھپے احکام ومسائل کے موتی نکالنا یہ بھی اسی آدمی کا نصیب ہو سکتا ہے جس کی علمی لیاقت،قرآن وحدیث پر مہارت خداداد فقاہت وغیرہ تمام لوگوں میں امتیازی شان رکھتی ہو۔ایسے آدمی کو''فقیہہ'' کہتے ہیں۔

جس کا کام قرآن وحدیث کے خلاف مسائل بنانا نہیں بلکہ قرآن وحدیث سے اصول شرعیہ کی روشنی میں مسائل نکالنا ہوتا ہے اور قرآن وحدیث سے ثابت شدہ مسائل کا نام ''فقہ ''ہے۔ اس لیے قرآن کے بعد حدیث او حدیث کے بعد فقہ کا ہونا عقل کا تقاضا ہے کہ قرآن کی وضاحت نبی کرے اور نبی کے کلام میں فصاحت وبلاغت میں چھپے مسائل کے موتیوں کا استخراج فقہاء کرام کریں اور یہ تین کلام(قرآن،حدیث اور فقہ)تین ذاتوں کے علمی مراتب کے اختلاف کا حسین گلدستہ ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے متضاد ،لیکن یہ بات صر ف عقل والے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ یہ عبرت ہے عقل والوں کے لیے۔اللہ رب العزت نعمت عقل کی قدر کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

Read 3844 times

Latest from Mureed e Murshad