AhnafMedia

عبداللہ بن مبارک

Rate this item
(15 votes)

عبداللہ بن مبارک

 

یہ سوچ کر اس نے مبارک سے کہا بھائی تم میرے ساتھ کوٹھی پر چلو ،آج سے تم وہیں کوٹھی میں میرے ساتھ رہنا ،باغ کی حفاطت کے لیے کسی اور آدمی کو مقرر کر دیا جائے گا ،مبارک خوشی خوشی اپنے مالک کے ساتھ کوٹھی پر پہنچے اور آرام سے رہنے لگے ۔مالک بھی اکثر آکر مبارک کی اچھی سحبت میں بیٹھتا ،دین ایمان کی باتیں سنتا ،خدااور رسول کا ذکرسنتا اور خوش ہوتا ۔ایک دن مبارک نے دیکھا کہ مالک کچھ سوچ رہا ہے ۔جیسے اسے کوئی بہت بڑی فکر ہو ۔پوچھا بھائی کیا بات ہے ؟آج آپ بڑے فکر مند نظر آرہے ہیں ؟مالک جیسے اس سوال کا انتظار کر رہا تھا ۔اس نے اپنی ساری پریشانی کی کہانی سنا ڈالی ۔مالک نے کہاکہ مبارک بھائی ،یہ بتائو میں اب کیا کروں ؟اس فکر میں دن رات گھلتا ہوں اور کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا ۔۔مبارک نے کہا ،،بے شک یہ فکر کی بات ہے ۔جوان لڑکی جب گھر میں بیٹھی ہو تو ماں باپ کو فکر ہوتی ہے ۔اگر مناسب رشتہ مل جائے تو زندگی بھر سکھ اور چین ہے اور اگر کسی برے سے خدانخواستہ پالا پڑ جائے تو زندگی بھر کا رونا ہے ۔پھر تم ہی کوئی حل بتائو ۔،،مالک نے کہا ،حضور ،میرے نزدیک تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کے لیے آپ دن رات گھلیں اور اپنی صحت خراب کریں ۔ہم اور آپ خدا کا شکر ہے مسلمان ہیں ،زندگی کے ہر معاملہ میں پیارے رسولﷺکی پاک زندگی ہمارے لیے اسوہ ہے اس اسوہ پر جب بھی ہم عمل کریں گے ،انشاء اللہ اچھائی ہی ہمارے سامنے آئے گی ۔،،مبارک نے پورے اطمینان سے کہا ،اچھا تو پھر بتائو پیارے رسول ﷺ کے اسوہ کی روشنی میں مجھے کیا کرنا چاہیئے ؟یہ تو حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان اس بہترین اسوہ سے منہ موڑے گا ذلیل ہو گا،،مالک نے کہا دیکھئے جہاں تک اسلام سے پہلےکو لوگوں کا تعلق ہے ،یہ لوگ عزت ،شہرت اور خاندانی بڑائی ڈھونڈتے تھے ۔یہود لوگ مال پر جان چھڑکتے تھے اور عیسائی خوبصوت اور حسن تلاش کرتے تھے ۔لیکن مسلمانوں کو پیارے رسول ﷺ نے تاکید کی ہے کہ تم رشتہ کرتے وقت ہمیشہ نیکی اور دینداری کو دیکھنا ۔مالک یہ سن کر خوشی سے اچھل پڑا اور کہا،،مبارک خدا کی قسم تم نے میرا سارا غم دھو دیا ۔جیسے اب مجھے کوئی فکر ہی نہیں ہے وہ خوشی خوشی گھر پہنچا ۔بیوی کو سارا قصہ سنایا ۔وہ بھی خوش ہو ئی اور مبارک کی نیکی اور سوجھ بوجھ کی تعریف کرنے لگی ۔ترکی تاجر نے موقع مناسب پا کر بیوی سے کہا ،،پھر کیوں نہ ہم اپنی بیٹی کا نکاح مبارک سے کر دیں ،ہائیں کیا کہا ؟گھر کے نوکر سے،غلام سے ،سنیا کیا کہے گی ،بیوی چلائی ۔کیس حرج ہے اگر نوکر ہے ؟پیارے رسول ﷺنے فرمایا ،تم نیکی اور دینداری کو دیکھو ۔خدا کی قسم مجھے تو اس کسوٹی کے لحاظ سے پورے شہر حیران میں مبارک سے زیادہ نیک اور دیندار نظر نہیں آتا ۔بڑا ہی سمجھدار اور دیندار آدمی ہے ۔اگر پیارے رسولﷺ سچے ہیں اور ان کا کہا ماننے میں بھلائی ہے ،تو ہمیں دنیا سے بے فکر ہو کر اپنے جگر گوشے کو مبارک کے حوالے کر دینا چاہیئے اور اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو گویا ہم خود ہی اپنے عمل سے پیارے رسول ﷺ کی بات کو جھٹلائیں گے ،،ترکی نے اطمینان اور یقین سے کہا ۔شوہر کا یہ عزم دیکھ کر اور سیدھی اور سچی بات سن کر بیوی بھی دل سے راضی ہو گئی ۔اور حیران کے رئیس کی اس چاند سی لڑکی کی شادی ایک ایسے غریب سے رچائی گئی ،جس کے پاس نہ روپیہ پیسہ تھا ،نہ کوئی گھر ،اور نہ ہی کسی اونچے گھرانے سے اس کا تعلق تھا ۔اس کے پاس اگر کوئی دولت تھی تو ایمان واسلام کی ،نیکی اور تقوٰی کی۔یہ وہی لڑکی تھی جس کے لیے حیران کے بڑے بڑے رئیسوں نے پیغام بھیجے ۔لیکن مبارک کی نیکی اور تقوٰیکے مقابلے میں ہر ایک نے شکست کھائی ۔

حضرت عبداللہ کی پیدائش ۔

مبارک کی شادی ہو گئی اور دونوں میاں بیوی خوشی خوشی رہنے لگے ۔مبارک جیسے خود نیک تھے ،ویسی ہی ان کی بیوی بھی ہزاروں لاکھوں میں ایک تھی ۔تھوڑے دنوں کے بعد اللہ نے ان کو ایک چاند سا بیٹا عطا کیا ۔ماں باپ کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی ۔بیٹے کا نام عبداللہؒ رکھا اور وہ واقعی عبداللہؒ ہی ثابت ہوئے ۔یہ ہو عبداللہ ہیں جن کے علم اور تقوی کی پوری دنیا میں دھوم ہوئی ۔جو مشرق و مغرب کے عالم کہلائے ۔جو اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ تھے ۔اور امام عبدالرحمن بن مہدی ؒاور امام احمد بن حنبل ؒجیسے بزرگ ان کے شاگرد تھے تھوڑے دنوں بعد اس ترکی تاجر کا انتقال ہو گیا اور اس کے مال ودولت کا ایک بڑا حصہ حضرت عبد اللؒہ کے والد حضرت مبارکؒ کو ملا یہ ساری دولت حضرت عبداللہؒ کے کام آئی ۔نیک باپ نے بیٹے کی تعلیم پر ساری دولت بہا دی ،اور خدا کاکرنا کہ حضرت عبداللہ ؒ حدیث کے امام کہلائے ۔

وطن

حضرت عبداللہ ؒ کا اصلی وطن مرو ہے اس وجہ سے ان کو مروزی کہتے ہیں ۔مروخراسان میں مسلمانوں کا بہت پرانا شہر ہے ۔یہاں کبھی اسلامی تعلیم اور دینداری کا دور دورہ تھا ۔ہر طرف دین و ایمان کے چرچے تھے ۔بڑے بڑے عالم اور بزرگ یہاں پیدا ہوئے ۔

ابتدائی زندگی

نیک ماں باپ نے حضرت عبد اللہ ؒکی تعلیم و تربیت میں کوئی کثر نہ اٹھا رکھی ۔شروع ہی سے انتہائی شفقت و محبت سے ان کی پرورش کی ۔دین و اسلام کی باتیں سکھائیں ۔نیکی اور بھلائی کی تعلیم دی ۔قرآن شریف سمجھا سمجھا کر پڑھایا ،پیارے رسول اللہﷺکی حدیثیں پڑھائیں اور ہر طرح ایک بھلاانسان بنانے کی کوشش کی ۔ماں باپ خود نیک تھے ۔اور ان کی یہ سلی تمنا تھی کہ ان کا بیٹابھی دنیا میں نیک بن کر چمکے لیکن شروع میں ان کی تمام کوششیں بے کارگئیں ۔عبداللہ دن رات کھیل کود میں مست رہتے ہر کام میں لاپرواہی برتتے ہر وقت برائیوں میں پھنسے رہتے گانا بجانا اور عیش اڑانا ہی ان کا دن رات کا مشغلہ تھا ،اور جوانی میں تو یار دوستوں کے ساتھ پینا پیلانا بھی شروع ہو گیا ۔رات بھر دوستوں کی محفلیں جمی رہتیں ،ستار بجتے گانا ہوتا اور شراب کا دور چلتا ۔

اللہ کی رحمت نے عبداللہ کا ہاتھ پکڑا

حضرت عبداللہ کی یہ گھنائونی زندگی دیکھ کر ماں باپ کی بری حالت تھی ۔نہ کھانا اچھا لگتا تھا نہ پینا ۔اندر ہی اندر کڑتے اور روتے ۔بیٹے کی تربیت کے لیے انہوں نے کیا کچھ نہ کیا تھا ۔لیکن انسان کے بس میں کیا ہے ۔دلوں کا پھرنا تو اللہ کے اختیار میں ہے ۔اب بھی جو ان سے بن آتا کرتے رہے ۔نذریں مانتے ،صدقے دیتے ،اللہ سے رو رو کر دعائیں کرتے ۔ایک رات عبد اللہ کے سارے دوست جمع تھے گانے بجانے کی محفل خوب گرم تھی ۔شراب کےدور پر دور چل رہے تھے اور ہر ایک نشے میں مست تھا ۔اتفاق سے حضرت عبداللہ کی آنکھ لگ گئی ۔اور انہوں نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ۔کیا دیکھتے ہیں کہ ایک لمبا چوڑا خوبصورت باغ ہے اور ایک ٹہنی پر ایک پیاری سی چڑیا بیٹھی ہوئی ہے ۔اور اپنی سریلی میٹھی آواز میں قرآن شریف کی یہ آیت پڑھ رہی ہے )الم یا ن للذین امنوان تخشع قلوبھم لذکراللہ (سورہ حدید آیت 16

ترجمہ ۔کیا اب تک وہ گھڑی نہیں آئی کہ اللہ کا ذکر سن کر مومنوں کے دل لرز جائیں اور نرم پڑ جائیں ،،حضرت عبد اللہ گھبرائے ہوئے اٹھے ۔ان کی زبان پر یہ بول جاری تھے ،،اللہ تعالیٰ وہ گھڑی آگئی ،اٹھے شراب کی بوتلیں ٹپک دیں ،چنگ ستار چور کر دیئے ،رنگین کپڑے پھاڑ ڈالے اور غسل کر کے سچے دل سے توبہ کی اللہ سے پکا عہد کیا کہ اب کبھی تیری نافرمانی نہ ہو گی ۔پھر کبھی کسی برائی کے پاس نہ پھٹکے کا اور گناہوں سے ایسے پاک ہو گئے کہ گویا کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ تھا سچ ہے توبہ ہے ہی ایسی چیز۔اگر آدمی سچے دل سے اللہ سے عہد کرے اور برائیوں سے بچنے کا پکا ارادہ کرے تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی مدد فرماتا ہے اور نیکی کی راہ سمجھاتا ہے ۔پھرنیکی کی راہ سمجھاتا ہے ،پھر نیکی کی راہ پر چلنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے ۔اور برائی کی راہ پر جانا اتنا مشکل ہو جاتاہے جتنا دہکتی ہوئی آگ میں کود پڑنا ۔آدمی کو کبھی بھی اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ایک وہ زمانہ تھا کہ حضرت عبداللہ ؒ رات رات بھر گناہوں میں لت پت رہتے ،خدا اور رسول کی نافرمانی کرتے ،اور ہر ایک کو ان کی زندگی سے گھن آتی ۔لیکن جب انہوں نے سچے دل سے توبہ کی ،اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوئے اور اپنے اللہ سے پختہ عہد کیا کہ اب جیتے جی کبھی برائی کے قریب بھی نہ پھٹکیں گے تو اللہ کی رحمت نے ان کا ہاتھ پکڑا،نیکی کی راہ پر لگایا اور وہ ایسے نیکوں کے نیک بنے کہ اپنے زمانے کے تمام علماء نے ان کو اپنا سردار مانا ۔حدیث کے امام کہلائے ۔اور آج تک دنیا ان کی نیکی اور علم سے فائدہ اٹھاتی ہے

 

Read 8297 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) عبداللہ بن مبارک

By: Cogent Devs - A Design & Development Company