AhnafMedia

خواجہ خواجگان خواجہ خان محمد نوراللہ مرقدہ

Rate this item
(5 votes)

خواجہ خواجگان خواجہ خان محمد نوراللہ مرقدہ

٭ مولانا محمد عبدالقادرڈیروی

موت العالِم موت العالَم فرمان نبوی کے سچے مصداق سیدی ومرشدی حضرت الشیخ مولانا الحاج خواجہ خان محمد صاحب جہاں فانی سے رحلت فرماگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون

قضا کار زیر زمین چل بسے ہیں

اجاڑے خزاں نے چمن کیسے کیسے

اخلاص وتقویٰ کا پیکر، ہر بلند وپست کو فیض یاب کرکے آج خلق کی نگاہ سے نہاں ہوگیا ۔کون ہے جو اس حادثہ ٔ فاجعہ سے پریشان ومضطرب نہ ہواہو؟لیکن! بقول خواجہ خواجگان،قیوم زماں،حضرت مولانا ابوسعد احمد:’’ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ بقائے دوام اسی ذات برتر واعلی کو زیبا ہے۔ اس کی رضا کا اختیار کرنا عین عبادت ہے اور ا س کی عظمت کے سامنے کسی کو دم مارنے کی جرأت نہیں۔‘‘

حق یہ ہے کہ جس کی ابتدا ء ہوتی ہے اس کی انتہاء ہوتی ہے ۔ایک ذات ہے جس کی نہ ابتداء ہے نہ انتہاء وہ اللہ رب العزت ہی کی ذات ہے ۔باقی مخلوق کے عظیم سے عظیم فرد کی بھی ایک ابتداء ہے اس لیے اس کی انتہاء اور فنا بھی ہے ۔

حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ذات اعلی صفات کے ساتھ فقیر کا ستائیس سالہ ارادت مندی اور نیا ز مندی ومریدی کا تعلق ہے ۔اس عرصہ میں متعدد بار خانقاہ شریف میں حاضری ہوئی ہے ہر بار حضرت والا کو خانقاہ میں جلوہ افروز پایا آنے والے جوق در جوق آتے، خانقاہ میںلمحہ بہ لمحہ نئے اضافہ کے ساتھ لوگ موجود ہوتے تھے لیکن معمولات پوری ا ستقامت ومستعدی سے جاری رہتے۔ خاص کر اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ اور حضرث ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے وقت خانقاہی معمولات کا پوراپوراتحفظ ہوتا بالخصوص رمضان شریف میں معمولات تادم آخر جاری رہے۔

خانقاہ شریف کے یہ معمولات اپنے اندر ایک امتیازی شان رکھتے ہیں۔ حضرت والا کے اپنے ہاں کے معمولات بھی ختمِ خواجگان ،صبح کا طویل مراقبہ، طریق نقشبندیہ مجددیہ کی معرفت کے متعلق لٹریچر کا پڑھایا جانا، بعض حضرات کو ان کی طلب اور استعداد کے مطابق کتابوںکافراہم کیا جانا،اہل علم اور اہل ذوق کے لیے خانقاہ شریف کی عظیم لائبریری سے استفادے کی عام اجازت، اسی طرح خط وکتاب کے وسیع سلسلہ کو بڑی عمدگی سے نبھایا جاتاہے ہر خط میں جواب طلب ہر نوع کے امر کا محققانہ جواب بلاتا خیر عنایت فرمایا جاتاہے ، اس معمول میںکبھی ایک لمحے کے لیے بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حضرت والا کی ذات ستودہ بلا امتیاز اپنا، پرایا مخلوق خدا کی فیض رسانی کے لیے گویا وقف ہے ۔

باوجود بے پناہ مصروفیتوں کے اتنا وسیع وقت شاید ہی کسی خانقاہ میں طالبانِ اصلاح ظاہر وباطن کو دیا جاتاہو معمول کی باقاعدگی ،نرم خوئی ونرم گفتاری ،چہرے کا متبسمانہ انداز، کم گوئی وخاموشی!طالبانِ حق کو توقعات سے کہیں بڑھ کر نوازتی تھی۔ ہر آدمی اپنی ہر بات کہنے کی کوشش کرتا۔حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ پوری توجہ سے سنتے ۔جواباً بھر پور شفقت ورافت کا معاملہ فرماتے ۔

خدمت عالیہ میں حاضر ہونے والا مقصد برآنہ آنے پربھی کبھی محرومی کا احساس لے کر نہیں لوٹا ویسے عام تھا دعائیں، تعویذات جو مانگا ممکن حد تک ضرور پایا کبھی کسی کو جھڑکا نہیں گیا۔بات کرنے والے کی بات معقول تھی یا نامعقول ،گوارا تھی یا ناگوار، پوری توجہ سے سنی جاتی تھی ۔اگر ضرورت ہوتی تو پوری حکمت وعمدگی کے ساتھ اس کی اصلاح بھی ضرور کر دی جاتی لیکن کبھی کسی کو توہین آمیز انداز میں ڈانٹا نہیں گیا۔ حلم وبردباری اور صحیح اسلامی حکمت کا یہ مظاہرہ آج ہماری خانقاہو ں میں نایاب ہوتا جارہا ہے ۔

حضرت رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں حاضری کا شرف ہر سطح کے آدمی کو حاصل تھا۔اس بازیابی میں نہ کوئی چھوٹا، بڑا مرید حائل تھا ،نہ شیخ محترم کی طرف سے کوئی پابندی تھی ۔وہاں سجادگی کی ہو،ہوا کانام ونشان نہیں تھا اس لیے پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ حضرت کے ہم عصر بزرگان سلسلہ خلق خدا میں شاید اتنی فیاضی کے ساتھ فیض رسانی نہ کرسکے ہوں جتنے فیوض وبرکات حضرت خواجہ صاحب کی خانقاہ سے حضرت والا کے وقت میں مخلوق خدا کو پہنچے ہیں ۔

حضرت کی ذات جامعیت کی مالک تھی جہاں آپ کے اتباع سنت کے پیکر، نور باطن سے آراستہ ،اخلاص سے پیرا ستہ ہونے کا تعلق ہے یہ بلا اختلاف مسلم ہے لیکن آپ کی ذات مرد ِحُر ہونے کے حوالے سے بھی اہل حق کا ایک مضبوط سہارا تھا۔ مولانا فضل الرحمن صاحب اس لحاظ سے بہت خوش نصیب تھے سیاست کے روز اول سے آج تک حضرت والا کی انہیں مکمل سرپرستی حاصل تھی مولانا نے بھی اس تعلق کا خوب احترام کیا اور اسے خوب نبھایا۔ اس کے علاوہ جہاں کہیں اور جب کبھی حق پرستی کی پاداش میں پابند سلاسل ہونا پڑا۔وہاں بھی حضرت رحمہ اللہ کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ چنانچہ 53ئ؁ میںتحریک ختم نبوت نے جب زور پکڑا تو امت کے ہر فرد وبشر نے جذب ومستی سے سرشار ہوکر اس میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان اسیرانِ ناموس رسالت میں حضرت والا کی ذات گرامی شامل ہونے سے لے کر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت تک اور تادم آخر شامل رہی ۔ لقاء ربی سے جب نوازے گئے تو خالق کائنات سے ملاقات؛ پاسبان ختم نبوت کی حیثیت سے ہوئی۔

مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے ارباب حل وعقد نے جب مجلس کی امارت قبول کرنے کی درخواست کی تو جواب میں حضرت والا نے انتہائی رقت آمیز والانامہ تحریر فرمایا۔ جس میں کمال تواضع وانکساری سے اظہار فرمایا:’’میں خادم کی حیثیت سے کام کرتا رہوں گا یہ عظیم ذمہ داری کسی اہل آدمی کے سپرد کریں میں بالکل اس کا اہل نہیں۔‘‘ حضرت والا نے پہلے اس گرامی نامہ کاایک رف خاکہ تیار کیا پھر فقیر کوحکم دیا کہ اس کو صاف کردو!بندہ نے تعمیل حکم کی والا عالی کی سطر سطر میں تواضع وانکساری کے ساتھ محبت خیر الانام e اور عقیدہ ختم نبوت کے ساتھ والہانہ عقیدت ومودت دیدنی تھی۔ مرکز کو وہ والا عالی بھجوادیا گیا ۔لیکن مجلس کے با بصیرت حضرات نے حضرت رحمہ اللہ کو مجبور کیا کہ آپ برائے احسان یہ منصب قبو ل فرمائیں۔چنانچہ حضرت رحمہ اللہ نے اس منصبِ جلیلہ کو قبول فرما کر ا س تحریک کو شب روز کی اپنی دعائوں، توجہات باطنیہ اور دن رات کی محنت سے جس عروج تک پہنچایا وہ آپ ہی کا حصہ تھا ۔آج ایوان کفر وارتداد پر لرزہ طاری ہے منکرین ختم نبوت کی نبضیں ڈوبتی نظر آتی ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ان شاء اللہ اعداء دین وایمان اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

اس ذرہ بے مقدار کا وجدان یہ کہتا ہے کہ حضرت والا کی عقیدت ختم نبوت کے تحفظ کے بارے میں ہر مجاہدہ وریاضت اور سعی وکوشش کی حضورe کے ہاں بڑی پذیرائی ہوئی ہوگی۔ حضرت الشیخ بے حد وحساب رحمتوں سے نوازے گئے ہوں گے ۔شیخ محترم کو عالم برزخ اور عالم حشر کے بلند وبالا درجات عنایت ہوئے ہوں گے ۔

اللہ رب العزت نے نجانے ہمارے شیخ رحمہ اللہ کو کیا کیا انعامات واحسانات عطا کیے ہوں گے ؟؟؟ہمارے شیخ کی دنیا سے ان کی آخرت یقینا بلند وبالا ہوگی اصل میں جس کی زندگی جتنی بہترین ہوتی ہے اس کی موت بھی اتنی بہترین ہوتی ہے۔ دنیا بھی لاجواب آخرت بھی قابل رشک۔ ان کا آنا بھی مبارک ان کا جانا بھی بے پناہ سعادت مندیوں کا عروج۔

ناچیزاپنے علم عمل کی بے مائیگی کا معترف ہے نہ قلم کی دھنی نہ تقریر کے شاہ سوار۔ ہماری یہ حیثیت کہاں کہ ہم حضرت قبلہ کی باکمال ہستی کے صحیح مقام تک رسائی حاصل کرسکیں۔

آخر میں دعا ہے اللہ پاک کروٹ کروٹ بے حدوحساب رحمتیں فرمائے۔لمحہ بہ لمحہ عروج ہی عروج نصیب کرے ان کی اولاد میںمحترم صاحبزادہ مولاناعزیز الرحمن،مولاناخلیل احمد،حضرت رشید احمد صاحبزادہ سعید احمد اورجناب نجیب احمد ان تمام کو دارین کی عافیت ،سرفرازی اورسر خروئی سے نوازے ۔ہر طرح کے ابتلاء وآزمائش سے بچائے ۔۔

Read 2910 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) خواجہ خواجگان خواجہ خان محمد نوراللہ مرقدہ

By: Cogent Devs - A Design & Development Company