AhnafMedia

عقیدہ عذاب قبر کی صحیح اور غلط صورتیں

Rate this item
(3 votes)

عقیدہ عذاب قبر کی صحیح اور غلط صورتیں

٭مولانا نور محمد تونسوی

قارئین کرام! حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے اس فتویٰ کی زد میں دونوں غلط صورتیں آجاتی ہیں کیونکہ بظاہر دونوں صورتیں اگرچہ متضاد ہیں لیکن انکار تعلق بین الروح والجسد ان دونوں میں مشترکہ چیز ہے۔

بہرحال!اگر صرف روح کی جزاء سزا کا عقیدہ ہو یا صرف بدن کی جزاسزا کا، توتعلق کا انکار ان دونوں میں پایاجاتاہے اور تعلق کے انکار کو حضرت مفتی صاحب گمراہی اور حق کے خلاف جنگ کرنا قرار دے چکے ہیں۔

نیز امام شرف الدین نووی لکھتے ہیں قبر میں اعادہ روح ہوتا ہے جس کی وجہ روح اورجسد دونوں معذب ہوتے ہیں اور ابن جریر کرامی وغیرہ اعادہ روح کا انکار کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں :’’عذاب صرف بدن کوہوتاہے ۔‘‘علامہ نووی اس پرنکیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ھذا فاسد ۔‘‘یعنی یہ نظریہ فاسد ہے۔ (۱)

حضرت مولانا عبدالعزیز پرھاروی عذاب قبر کی صحیح صورت کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ان احادیث الصحیحۃ ناطقۃ بان الروح یعاد فی الجسد عندالسوال۔‘‘ یعنی احادیث صحیحہ اس بات پر ناطق ہیں کہ بوقت سوال قبر میں روح کااعادہ ہوتا ہے۔

مزید فرماتے ہیں :

’’فالجواب بانکار الاعادۃ غیر موجہ۔‘‘ یعنی اعادہ روح کا انکار نامواقق ہے یعنی نصوص کے خلاف ہے۔

مزید کرامیہ اورمعتزلہ وغیرہ جو کہتے ہیں کہ قبر میں میت کو جو عذاب ہوتا ہے بغیر حیات کے ہوتا ہے یعنی صرف بدن کو عذاب ہوتا ہے روح کا اس سے تعلق نہیں ہوتا اس کے متعلق پر ھاروی ؒفرماتے ہیں:

’’قال المحققون ھذاسفسطۃ۔‘‘ یعنی محقیقین علماء فرماتے ہیں کہ یہ بات نامعقول ہے کیونکہ معقول بات تویہ ہے کہ روح اورجسد کے مابین تعلق ہو اور اس تعلق کی وجہ سے وہ دونوں عذاب وثواب کا موردہوں۔‘‘(۱)

علامہ ابن تیمیہؒ عذاب قبر کی صحیح صورت کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’الاحادیث الصحیحۃ المتواترۃ تدل علی عود الروح الی البدن وقت السوال ۔‘‘یعنی احادیث صحیحہ متواترہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قبر میںسوال وجواب کے وقت روح لوٹتی ہوتا ہے اورعلامہ ابن تیمیہ عذاب قبرکی دوغلط صورتیں کہ عذاب قبر صرف روح کو ہوتا ہے یاصرف بدن کو ہوتا ہے اور ان کے مابین کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ان دونوں صورتوں کے بارے میں لکھتے ہیں:’’ کلا ھما غلط والاحادیث الصحیحۃ تردہ۔‘‘ اوریہ دونوں صورتیں غلط ہیں اوراحادیث صحیحہ اس کی تردید کرتی ہیں۔پس اکابر علماء اسلام کی تحقیقات اورتصریحات سے یہ بات واضح ہوگی کہ عالم قبروبرزخ کی جزاء سزا میں روح اورجسد عنصری کے مابین تعلق کا انکار کرکے صرف روح یا صرف بدن کی جزاسزا کاقا ئل ہونا غلط، فاسد،سفسطہ، مردود گمراہی، مکابرہ اورنا معقول بات ہے۔ حق اورمعقول بات یہی ہے کہ روح اورجسد عنصری کے مابین تعلق ہوتاہے۔جس کی وجہ سے وہ دونوں ثواب وعذاب کو محسوس کرتے ہیں

ایک غلط فہمی کاازالہ:

اس دور میں بعض لوگوں نے کرامیہ اورمعتزلہ کا مذہب اپنا رکھا ہے اوران کا عقیدہ ہے کہ قبر کی یہ کارروائی صرف روح پروارد ہوتی ہے اور روح کادفن کیے ہوئے بدن سے کوئی تعلق نہیں ہوتااورنہ بدن جزا سزاکو محسوس کرتا ہے لیکن جب ان لوگوں سے دو سوال کیے جاتے ہیں تو یہ مجبور ہوکر جسد مثالی کی آڑ لے کر صوفیاء کرام کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

پہلا سوال جوان پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ روح مجرد کسی کام کے کرنے کیلیے جسم کی محتاج ہے وہ بولتی ہے توجسم کی زبان اسے کہتی ہے توجسم کے کانوں سے پکڑتی ہے توجسم کے ہاتھوں سے چلتی ہے تو جسم کے ہاتھوں سے چلتی ہے تو جسم کے پائوں سے اگر رنج وراحت کو محسوس کرتی ہے توجسم کے ساتھ۔ اب ان سے پوچھاجاتاہے کہ روح مجرد کوبغیر تعلق جسم کے کیسے جزاسزا دی جاتی ہے روح مجرد نکرین کے سوال کو کیسے سنتی اورکیسے جواب دیتی ہے قدرت خداوندی کا کوئی منکر نہیں لیکن عالم اسباب میں نظررکھی جائے تواللہ تعالی نے جب کبھی روح سے کام لیا تواسے جسم مہیا کیا حتی کہ ’’وعدہ الست ‘‘ کے موقع پربھی اللہ نے جب ارواح سے وعدہ لیا توچیونٹیوں کے برابراجسادمہیا کیے پھر وعدہ لیا جیسا کہ بخاری شریف میں تصریح موجود ہے تو ثابت ہواروح کو جسم کی ضرورت ہے اورجسم روح کی مجبوری ہے ۔

اوردوسراسوال جو اُن پروارد ہوتا ہے کہ یہ ہے کہ صرف اورصرف روح کی جزاسزا کا نظریہ معتزلہ وغیرہ گمراہ فرقوں کا عقیدہ ہے اوراسی طرح ایک اورسوال بھی ان پر وارد ہوتاہے کہ عذاب قبر کی اکثر وبیشتر احادیث میں عذاب قبر کی جو تفصیل آئی ہے ان سے جسد کی شمولیت واضح طور پر معلوم ہوتی ہے تو اس قسم کے سوالات سے مجبور ہوکر ان لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے ہم قبر کی کارروائی میں روح کے ساتھ جسم کو بھی شامل سمجھتے ہیں لیکن وہ جسم دنیا والا نہیں ہے بلکہ وہ جسم مثالی ہے روح اس میں حلول کرجاتی ہے اورروح جسم مثالی لے کر سب کچھ کرتی ہے۔

قارئین کرام! یہ سراسر دھوکہ اوروسوسہ ہے، معقول اوروزنی سوالات سے بچنے کی تدبیر ہے ، صوفیا ء کرام کے دامن میں پناہ لینے کی ایک ناکام کوشش ہے ۔

اولا: اس لیے کہ جوصوفیاء کرام جسم مثالی کے قائل ہیں وہ سب حضرات قبر میں مردہ مدفون کے ساتھ روح کا تعلق بھی مانتے ہیں روح اورجسم دونوں کی جزا سزا کے بھی قائل ہیں حتی کہ جسم مثالی کے قائلین علماء عام موتی کے سماع کے بھی قائل ہیں جبکہ یہ لوگ ان سب امورکا انکار کرتے ہیں۔

ثانیا : صوفیاء کرام کے نزدیک جسم مثالی کسی خاص میٹریل سے نہیں بنتا بلکہ وہ جسم اصلی عنصری کا عکس اورظل ہوتا ہے اسی طرح جسم مثالی جسم اصل کا مرہون منت اوراسی کے دم سے قائم ہوتا ہے جبکہ ان لوگوں کے نزدیک جسد مثالی کسی خاص خمیر سے تیار ہوتا ہے اسی وجہ سے جب یہ لوگ روح کو جسد مثالی میں داخل سمجھ لیتے ہیں توان کے لیے جسم اصلی عنصری سے تعلق ماننا مشکل ہوجاتاہے۔ پس ثابت ہواکہ ان لوگوں کا مذہب معتزلہ کرامیہ والا ہے نہ کہ صوفیاء کرام والا کیونکہ صوفیاء کرام تو ہمارے اکابر ہیں۔کیونکہ وہ لوگ جسم اصلی عنصری سے تعلق مانتے ہیں، پس اگر کوئی شخص جسم عنصری سے تعلق مان کر دونوں کی جزاسزا کاقائل ہوجائے تووہ ہمارابزرگ ہے چاہے ایک نہیںکئی مثالی اجسام تجویز کرلے اختلاف توان لوگوں سے ہے جو روح کاجسم اصلی عنصری سے تعلق نہیں مانتے ۔ ۔

Read 3955 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) عقیدہ عذاب قبر کی صحیح اور غلط صورتیں

By: Cogent Devs - A Design & Development Company