AhnafMedia

ایک ریٹائرڈ فوجی کے سات سوالات کے جوابات

Rate this item
(4 votes)

ایک ریٹائرڈ فوجی کے سات سوالات کے جوابات

٭مولانا نور محمد تونسوی

سوال نمبر۱:

آپ فرماتے ہیں کہ کم علم لوگوں کوبس علماء کی پیروی کرنی چاہیے۔لیکن میری اُلجھن یہ ہے کہ کون سے فرقہ کے علماء کی؟کیونکہ ہرفرقہ اپنے آپ کوہی وہ واحد فرقہ سمجھتاہے جوجنتی ہے باقی سب گمراہ اور جہنمی ہیں؟

جواب:

اصل جواب تحریر کرنے سے پہلے بطورتمہیدکے یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ حضوراکرمe کے مبارک دورسے چلی آنے والی جماعت اہل السنۃ والجماعۃ کے نام سے موسوم ہے۔ چنانچہ

’’مااناعلیہ اصحابی اوراصحابی کالنجوم بایھم اقتدتم اھتدیتھم اورعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین عضوا علیھا بالنواجذوغیرہ احادیث اس پر شاہد عدل ہیں۔ اسی طرح قرآن پاک کی مندرجہ ذیل آیات اس کی مؤید ہیں(۱) اٰمنواکما اٰمن الناس

(۲) فان اٰمنوابمثل مااٰمنتم بہ فقد اھتدوا (۳) والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنہم ورضو ا عنہ ۔

مندرجہ بالاآیات اوراحادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سچی جماعت وہ ہے جوحضوراکرم e کے اسوۂ حسنہ کی پیروکار اورصحابہ کرام کی تابعدارہو ۔حضوراکرمe اورصحابہ کرام ؓ کی پیروی کرنے والے صرف اور صرف اہل السنۃ والجماعۃ ہیں۔حتیٰ کہ اہل السنۃ والجماعۃ کانام خود حضور اکرمe کا تجویز فرمایا ہوا ہے ۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب حضوراکرمe سے پوچھاگیاکہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے قیامت کے دن کچھ چہرے سفید اورکچھ سیاہ ہوں گے تو یہ لوگ کون ہوں گے؟

توآپ نے فرمایا:’’ سفید چہرے والے اہل السنۃ والجماعۃ ہوں گے اور سیاہ چہرے والے’’ اہل بدعۃ ‘‘ہوںگے۔‘‘ باقی رہا’’والجماعۃ‘‘کاالحاق اس کی دلیل حضوراکرمe کا یہ ارشاد ہے جس میں آپ نے یہ ارشادفرمایا: علیکم بالجماعۃ من شذ شذ فی النار۔تم پر جماعت لازم ہے جو شخص جماعت سے علیحدہ ہوا وہ جہنم میں جائے گا ۔

صحابہ کرام حق کامعیارہیں:

اس وقت روئے زمین پر اسلام کے نام لیواجتنے فرقے ہیں ان میں سوائے اہل السنۃ والجماعۃ کے کوئی ایسا فرقہ نہیں جو اتباع صحابہؓ کادعویٰ کرتا ہو اورعملاًصحابہ کرامؓ کی پیروی کرتاہو۔بعض فرقے صرف قرآن کادعوی کرتے ہیں حدیث کوسرے سے مانتے ہی نہیں اوربعض فرقے قرآن اور حدیث کی اتباع کادعویٰ کرتے ہیں وہ اتباع صحابہؓ کا انکارکرتے ہیں اوربعض فرقے وہ ہیں جو اتباع صحابہؓ کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن عملاًصحابہ کرامؓ کی پیروی نہیں کرتے ۔ ظاہر ہے جوصحابہ کرامؓ کی پیروی کا انکارکرتے ہیں یا عملا صحابہ کرام کی پیروی نہیں کرتے وہ اہل حق نہیں بن سکتے کیونکہ کتاب وسنت سے یہی ثابت ہے کہ حضوراکرمe کی پیروی کے ساتھ ساتھ صحابہ کرامؓ کو بھی عملاً رہبر و رہنما سمجھاجائے اوریہ چیزسوائے اہل السنۃ والجماعۃ کے کسی فرقے میں نہیں پائی جاتی۔ لہذا کتاب وسنت کی روشنی میں اہل السنۃ والجماعۃ ہی اہل حق ہیں کیونکہ یہ لوگ کتاب وسنت کے ساتھ ساتھ صحابہ کرامؓ کی عملاًپیروی کرتے ہیں۔

مذاہب اربعہ کوئی مذموم فرقے نہیں ہیں:

عہداول سے جوچارمسلک تسلسل کے ساتھ چلے آرہے ہیں: حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی یہ چاروں مسلک اہل السنۃ والجماعۃہیں ان کوچارفرقے سمجھنا غلط فہمی اور حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے کیونکہ یہ چاروں مسلک قرآن وحدیث پرعمل کرنے والے اوراتباع صحابہ کرام سے سرشار ہیں۔ باقی رہاان کا ’’فروعی اورجزوی اختلاف‘‘ تو یہ کوئی نقصان دِہ بات نہیں ہے کیونکہ یہ جزوی اورفروعی اختلاف خود احادیث میں موجود ہے۔ مثلاً :حضور اکرم e کے دوصحابہ کرام سفر پر تھے نماز کا وقت آ گیا اور جنگل میں وضوکا پانی نہ مل سکا ان دونوں حضرات نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی اورسفرجاری رکھا ابھی اسی نماز کا وقت باقی تھا کہ انہیں آگے جا کر پانی مل گیا۔

اب ان دونوں کی رائے میں اختلاف ہوگیا ایک نے کہا:’’ اب پانی مل گیاہے لہذا میں وضو کرکے نماز کودہراتاہوں۔‘‘ دوسرے نے کہا:’’میں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی ہے پانی نہیں تھا میں نے تیمم کرکے نمازپڑھ لی ہے لہذا مجھے نمازدہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اب ایک نے دہرائی اور دوسرے نے نماز کا اعادہ نہیں کیا جب یہ مسئلہ حضوراکرمe کے سامنے پیش کیا گیاتوآپe نے دوہرانے والے کوفرمایا:’’ اللہ تعالیٰ آپ کودہرااجرعطافرمائیں گے۔‘‘ اور جس نے نہیں دہرایااسے فرمایا: ’’ تیری نماز اللہ کے ہاں قبول ہے۔‘‘ تو اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ حضوراکرم e کے نزدیک اس جزوی اختلاف کے باوجود ان دونوں صحابہ کا عمل صحیح تھااس قسم کی کئی مثالیںموجود ہیں ۔یقین جانیے !اسی قسم کے اختلاف ائمہ اربعہ کاہے اورایسے اختلاف کوحدیث میں ’’رحمت‘‘کہاگیا اس فقہی اختلاف کے ہوتے ہوئے ائمہ اربعہ اہل السنۃ والجماعۃ ہیں۔

ازالہ وہم:

علماء فرماتے ہیں آدمی آئمہ اربعہ میں سے جس کی چاہے تعین کے ساتھ پیروی کرے ۔ کبھی کسی امام کامسئلہ لے لیناکبھی کسی دوسرے کااوریہ کہناکہ سار ے امام برحق ہیں لہذا کبھی کسی کامسئلہ لے لیا کبھی کسی امام کامسئلہ لے لیا یہ طریقہ غلط ہے ۔جیسے ملتان کے نشتر ہسپتال یا لاہور کے جناح ہسپتال کے ڈاکٹرز اپنے فن میں ماہر ہیں اور سند یافتہ ہیں لیکن ان کی مہارت کے باوجود کے لیے خیراسی میں ہے کہ وہ کسی ایک کا علاج کرے۔ اگر کوئی مریض یوں کہتاہے کہ جب سارے ڈاکٹر اپنے فن کے ماہرہیں اورسند یافتہ ہیں تو میں تو سب سے علاج کروائوں گا۔ ٹیبلٹ (گولیاں) ایک ڈاکٹرکی، انجکشن دوسرے کا،کیپسول تیسرے ڈاکٹر کے سیرپ چوتھے کی تو یہ طریقۂ علاج غلط ہے۔ کوئی ڈاکٹر بھی اس کوپسند نہیں کرے گا اورمریض کے لیے بھی طریقۂ علاج نقصان دہ ثابت ہوگا جس طرح مریض کے لیے فائدہ مند یہی ہے کہ تمام علاج کسی ایک ڈاکٹر کاکرے اسی طرح غیرمجتہد کے لیے یہی ہے کہ کسی ایک امام کی تقلید کریں۔ اس سے معلوم ہواکہ ائمہ اربعہ کے اختلافات ایسے نہیں ہیں کہ ان کو علیحدہ علیحدہ ’’فرقہ‘‘ قراردے دیا جائے بلکہ وہ سارے کے سارے اہل السنۃ والجماعۃ ہیں ان کوفرقہ نہیں کہناچاہیے۔

سلاسل اربعہ بھی فرقہ نہیں ہیں:

تربیت و سلوک کے چارسلسلے :چشتیہ،قادریہ،نقشبندیہ، سہروردیہ؛ سب کے سب اہل السنۃ والجماعۃ ہیں ان کا اختلاف مریدین کی تربیت کے طریقوں کا اختلاف ہے جیسے قرآن پڑھانے والے اساتذہ کرام تعلیم قرآن کوآسان بنانے کے لیے اولاً بچے کو قاعدہ پڑھاتے ہیں۔ کوئی استاد صاحب ’’نورانی قاعدہ‘‘ پڑھاتا ہے کوئی ’’بغدادی قاعدہ ‘‘ پڑھاتا ہے کوئی ’’یسرناالقرآن‘‘ پڑھاتا ہے کوئی اور قاعدہ پڑھا دیتاہے۔ مقصد سب کاقرآن پڑھاناہوتاہے اسی طرح مشائخ سلوک کامقصد ایک ہے البتہ طریقے مختلف ہیں ان اختلاف طرق کی وجہ سے مشائخ سلوک کوفرقے کہناکم فہمی کا نتیجہ ہے۔

فرقے کون ہیں؟

فرقے وہ ہیں جو اہل السنۃ والجماعۃ سے کٹ کرعلیحدہ جماعتیں اورگروہ بنا رہے ہیں اور پہچان ان کی یہ ہے کہ وہ صحابہ کرامؓ کو معیارحق نہیں سمجھتے پس جوشخص صحابہ کرام کی پیروی میں قرآن و حدیث پرعمل کرتا ہے وہ فرقہ ساز نہیں بلکہ وہ اہل السنۃ والجماعۃ ہے جوصحابہ کرامؓ کو در حقیقت اپنارہبر ورہنماسمجھتاہے وہ اہل حق ہے اور صحابہ کرام ؓ کی راہ کوچھوڑنے والا اہل باطل ہے۔ پس صحابہ کرام ؓ حق کی پہچان اور حق کی کسوٹی ہیں کیونکہ کچھ فرقے سب صحابہ کرامؓ کومانتے ہیں لیکن ان کی بات کوحجت اورمعیارحق نہیں سمجھتے اور کچھ سرے سے صحابہ کرامؓ کومانتے ہی نہیں۔

سوال نمبر۲:

احادیث کے بارے میں بھی ہرفرقہ کہتاہے کہ اسی کی صحیح ہیںباقی سب مشکوک ہیں۔ تو اس مشکل کاکیا حل ہوسکتاہے؟

جواب:

احادیث کی جانچ پڑتال کے جواصول سلف صالحین نے قرآن وحدیث کوسامنے رکھ کر ترتیب دیے ہیں وہ سب کے مسلمہ ہیں جوفرقے اہل السنۃ والجماعۃ کے نظریات سے ہٹ چکے ہیں وہ زیادہ تر اصولی طورپرحدیثوں کوضعیف نہیں بتاتے بلکہ وہ تاویلات سے اپنا کام چلاتے ہیں مثلا کوئی صحیح حدیث ان کی خواہش نفس کے خلاف ہے تو وہ اس کی تاویل کر ڈالتے ہیںیاپھر فرقہ منکرین حدیث کا ہے جو خود حدیثوںکا انکارکرتاہے اورظاہر ہے کہ انکارحدیث سے آدمی صرف اور صرف قرآن پرچل کر نماز ، روزہ، حج اور دیگر عبادات وغیرہ ادانہیںکرسکتاکیونکہ ان کی ادائیگی کا طریقہ احادیث میں ہے لہذا یہ اُلجھن بھی کوئی اُلجھن نہیں ہے کہ ہرفرقہ اپنی حدیثوںکوصحیح کہتا ہے کیونکہ احادیث صحیحہ بااتفاق صحیح ہیں البتہ بعض انکارکردیتے ہیں اور بعض تاویل کردیتے ہیں یا پھراصولِ حدیث سے لا علمی کی بنیاد پرخواہ مخواہ بغض وعناد کی وجہ سے صحیح حدیث کا انکارکردیتے ہیںیامشکوک کلمے کہہ دیتا ہے۔ معلوم ہوااحادیث صحیحہ کو رد کرنے والا یا تواصول حدیث سے بے خبرہے یامحض بغض وعناد کی وجہ سے حدیثوں کو ’’ضعیف‘‘ کہتا ہے یا پھر وہ ’’منکرِحدیث‘‘ہے اور خواہ مخواہ کے بہانے ڈھونڈ کراحادیث مبارکہ کو رد کرنا چاہتاہے۔

سوال نمبر۳:

حنفی حضرات کا مثال کے طور پر ایک مسئلہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے یہ مسئلہ حضرت امام صاحب کے زمانے میں تو ٹھیک ہوگا کیونکہ اس وقت غالبا اتنے فرقے نہیں ہوتے ہوں گے اب میری مشکل یہ ہے کہ میں کسی کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں تو اگر وہ گمراہ اورجہنمی فرقہ سے ہوگا تو خود انہی کے فتوئوں کے مطابق میری نماز توہوگی ہی نہیں اور اپنی نماز یعنی سورۃ فاتحہ میں نے پڑھی ہی نہیں ہو گی توآپ اس مشکل کاکیا حل تجویز فرماتے ہیں؟

جواب:

سائل کا یہ سوال اس مفروضہ پرمبنی ہے کہ ائمہ اربعہ اور ان کے پیروکارچار مختلف فرقے ہیں ۔ حالانکہ یہ بنیاد ہی غلط ہے ہم نے سوال اول کے جواب میں واضح کر دیا ہے کہ ائمہ اربعہ اور ان کے پیروکار ہم عقیدہ ہونے کی وجہ سے سب کے سب اہل السنۃ والجماعۃ ہیں ان کافقہی اختلاف مذموم نہیں بلکہ رحمت ہے اورسائل کومعلوم ہونا چاہیے کہ کسی امام اور اس کے کسی پیروکار نے یہ فتوی نہیں دیا کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کی وجہ سے نماز باطل ہوجاتی ہے بلکہ بالاتفاق سب کا یہ فیصلہ ہے کہ حنفیہ،شافعیہ،مالکیہ اورحنبلیہ کا طریقہائے نماز درست ہیں۔ یہی وجہ ہے پاک وہندکے حجاج کرام حرمین شریفین میں حنبلیوں کے پیچھے نمازیں اداکرتے ہیں اورجب حرمین شریفین میں حنفیوں کی حکومت تھی تو شافعی،مالکی، حنفی اورحنبلی سب حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔

اگراس قسم کاکوئی مسئلہ ہوتا تو یہ حضرات ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں نہ پڑھتے۔ہاں !ایسا فتویٰ دینے والے تو غیر مقلد ہیں۔ جوصحابہ کرام کومعیارحق نہ ماننے کی وجہ سے ایک گمراہ فرقہ ہیں اوران کے یہ کہنے سے کہ امام کے پیچھے فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اہل حق کی صحت پرکسی قسم کا کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ وہ توخود ایک غلط راستے پرچلنے والے ہیں اورہم یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جو صاحب حنفی بننا چاہتاہے بے شک حنفی بنے اوراگرکسی دوسرے امام کی پیروی کرتاہے توبے شک حنبلی، شافعی مالکی بن جائے لیکن جس کی بھی پیروی کرنا چاہتاہے ایک کاہوکررہے۔ یہ اتباع امام ہے اور جو شخص ایک مسئلہ کسی کا،دوسراکسی کااورتیسراکسی اورامام کالیتاہے تو یہ اتباع امام کے نام پراتباعِ خواہش ہے جس کافاسد اور باطل ہوناہم نے ثابت کردیا ہے لہذا سائل کوچاہیے جس امام کے پیچھے بھی نماز پڑھے اسے کوئی غلط کہے گا اگرسائل کی نماز اہل السنۃ والجماعۃ کے طریقہ پر ہے تو اس کی نماز صحیح ہے اوراگر سائل اہل السنۃ والجماعۃ کے طریقہ پر نہیں ہے نہ حنفی ہے نہ حنبلی ہے نہ مالکی ہے اور نہ ہی شافعی تو وہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھے یا نہ پڑھے اس کی نماز صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ اہل السنۃ والجماعۃ سے کٹنے کی وجہ سے ایک ’’فرقہ‘‘ بن چکا ہے۔

سوال نمبر۴:

چاروں امام صاحبان سے پہلے جومسلمان گذرے ہیںکیاوہ غلطی پر تھے اور راہ گم کربیٹھے تھے؟

جواب:

ائمہ اربعہ سے جو پہلے دورکے مسلمان گزرے ہیں وہ دوقسم کے لوگ تھے ایک طبقہ مجتہدین کا دوسراعوام الناس کا۔اس دور کے عوام الناس اپنے دورکے ماہرین شریعت سے پوچھ پوچھ کران کی تقلید کرکے شریعت پرعمل کرتے تھے اورعموماً وہ اپنے ہی شہر کے کسی فقیہ مجتہد کی بات کایقین کرتے تھے جیسا کہ ’’اہل یمن‘‘ حضرت معاذ بن جبل ؓ کی تقلید شخصی کرتے تھے کیونکہ یمن میں مجتہد اورفقیہ یہی ایک معاذ بن جبلؓ تھے۔ اس طرح جس علاقے میں جس صحابہ کوبھیجاگیاوہاں کی عوام انہی صحابہ کرامؓ کی تقلید کرتی تھی۔ جب ائمہ اربعہ کادورآیا تو ان فقہاء حضرات نے قرآن وسنت کوسامنے رکھا اوران صحابہ کرامؓ کے تمام احکام،مسائل اورفتویٰ جات کو جمع کیا۔توائمہ اربعہ کے پاس جوشریعت کا علم ہے وہ صحابہ کرامؓ کا روایت کردہ ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ ائمہ کی تقلید سے صحابہ کی تقلید چھوٹ گئی بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ ائمہ کی تقلید میں صحابہ ؓ کی تقلید ہے۔ اللہ کے نبیe کی پیروی میں اللہ کی اطاعت آگئی ۔معلوم ہواائمہ اربعہ کی پیروی کرنے والا درحقیقت صحابہ کرامؓ رسول اللہe اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والاہے ائمہ کرام اور صحابہ کرامؓ کی راہوں کو مختلف راہیں سمجھناسراسرغلط ہے۔

سائل سے ایک سوال:

قرآن مجیدکی سات مختلف قرأتیں ہیں۔یہ قرآن کے سات قاری یقینا صحابہ ؓ کے دورکے بعدآئے اور اگر آج کوئی شخص یہ سوال اٹھائے کہ تم بعد میں آنے والے قاریوں کے طرز پر قرآن پڑھتے ہو ہمیں بتائوں ان قاریوں سے پہلے کے لوگ کسی طرز پرقرآن پڑھتے تھے۔ تو یہ سوال اس لیے غلط ہے کہ ان سات قاریوں نے از خودقرأت نہیں بنائی بلکہ ان کی قرائتیں صحابہ کرام سے نقل کی ہوئی ہیں۔ تو اللہ کی یہ حکمت ہے کہ امت کے لیے سہولت ہوگئی کہ چاراماموں نے شریعت کومدون کردیا اورسات قاریوں نے قرأت کومدون کر دیا۔ لہذا چارامام بھی ہمارے محسن ہیں اورسات قاری بھی۔ چارامام بھی قابل ملامت نہیں اورسات قاری بھی قابل ملامت نہیں بلکہ یہ سب ہمارے محسن ہیں۔

سوال نمبر۵:

اگر وہ راہ گم کربیٹھے تھے تو بھی ڈیڑھ سو سال بعد تشریف لانے والے چاروں امام اپنے اختلافات کے باوجودصحیح کیسے ہوسکتے ہیں؟ یاکیاان میں سے کسی نے کہا تھا کہ میری پیروی کرنی ہے؟

جواب:

سائل کوعلم نہیں ہے اس لیے کہتاہے کہ چاروں امام ڈیڑھ سوسال کے بعدآئے حقیقت یہ ہے کہ سیدنا امام ابو حنیفہؒ کی تاریخ پیدائش سن۸۰ ھجری ہے۔حضور اکرمe کی وفات سن ۱۰ہجری میں ہوئی اس حساب سے امام صاحبؒ کی پیدائش حضوراکرمe کی وفات کے ستر70سال بعد ہوئی اور امام مالک بھی امام ابوحنیفہؒ کے ہم زمان ہیں ستر70سال کے فاصلے کوڈیڑھ سوسال بتاناکم از کم کسی عقلمند کہلانے والے کے لیے قطعا مناسب نہیں سائل کایہ کہناکہ: ’’اگروہ راہ گم کربیٹھے تھے‘‘ ایک غلط مفروضہ ہے ۔کیونکہ حضور اکرم e نے ارشاد فرمایا:’’ میری امت کبھی گمراہی پرمتفق نہ ہوگی۔‘‘

جب کہ ائمہ اربعہ کی حقانیت پر پوری امت متفق ہے اورجوشخص پوری امت کوگمراہ کہتا ہے وہ خود گمراہ اوریتبع غیرسبیل المومنینکامصداق ہے۔ ائمہ اربعہ کی حقانیت پر سلف صالحین کا اجماع ہے اور اجماع کامنکرخودگمراہ ہے

باقی رہاسائل کا یہ کہنا کہ ’’کیاانہوں نے کہاتھاہماری پیروی کرنا۔‘‘توجواباًعرض ہے کہ اگر یہ بات ثابت نہ بھی ہو کہ انہوں نے اپنی پیروی کاحکم دیا تھا توگذارش ہے کہ ایسے لوگوں کی پیروی کا حکم تو خود اللہ اور اس کے رسولe نے دیاہے۔اللہ تعالی ارشادفرماتے ہیں۔

۱: فاسئلو اہل الذکران کنتم لاتعلمون ۲: واتبع سبیل من اناب الیّ

۳: اطیعوااللہ واطیعواالرسول واولی الامرمنکم

تواس قسم کی درجنوں آیات ہیں اور بے شمار روایات ہیں جن میں عوام الناس کو علماء وفقہاء کی پیروی کاحکم دیا گیاہے اوریہی طریقہ عہد اول سے رائج ہے جس پرآج تک کسی نے نکیرنہیں کی لہذا سلف صالحین کے اس طریقہ کے خلاف جوراستہ اختیارکرتاہے وہ یتبع غیرسبیل المومنین کا مصداق ہے جب اللہ تعالیٰ نے اوراللہ کے نبی e نے اہل علم کی پیروی کاحکم دیا ہے توکسی امام کے کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی تاہم امام ابوحنیفہؒ کاایک مقولہ عام لوگوں میں مشہورہے جوآپ نے اپنے درجہ اجتہاد پر پہنچنے والے شاگردوں کو فرمایا تھاکہ اگرمیری بات کتاب وسنت کے خلاف ہو تو اسے دیوار پرمارو۔ ظاہر ہے کہ وہ فرما رہے ہیں جوبات کتاب وسنت کے مطابق ہو اسے مانو۔البتہ اس بات کامطلب یہ ہے کہ امام صاحب اپنے مجتہدین شاگردوں کو فرما رہے ہیںجن میں البتہ اتنی صلاحیت ضرورہوجو امام صاحب کی بات کو پرکھ سکیں،جانچ سکیں ۔ یہ عام آدمی کی صلاحیت سے دور ہے عام آدمی کے بس کاروگ نہیںاورنہ ہی عام آدمی اس کے مخاطب ہیں کیاہم سائل سے سوال کرسکتے ہیں کہ جس امام کی قرأت پر تُم قرآن کی تلاوت کرتے ہواس امام نے کہا تھا کہ میری قرأت پر تلاوت کرنا۔

سوال نمبر۶:

کیاخداتعالیٰ نے کسی امام یاکسی حدیث شریف کی کتاب کی پیروی کاحکم دیا ہے؟ سوائے قرآن پاک کے؟(یہاں تک توٹھیک ہے کہ غیرمتنازعہ امورمیں دوسرے مومنین کی پیروی کرنی چاہئے اور محض خود غرضی نمایاں پن طاقت اورمال دولت کی خاطردین میںتنازعے کھڑے نہیں کرنے چاہیں؟

جواب:

جی ہاں!اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے مقالات پرعامۃالمسلمین کواہل علم کی پیروی کاحکم دیاہے۔

آیت : فاسئلوااہل الذکر ان کنتم لاتعلمونo

ترجمہ: سواگر تم کومعلوم نہ ہوتو اہل علم سے دریافت کر لو۔

اس آیت میںیہ اصولی ہدایت دے دی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم وفن کے ماہر نہ ہوں انہیں چاہیے کہ وہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کرعمل کیاکریںاوریہی کسی امام اوراہل علم کی ’’پیروی‘‘ کرنا کہلاتا ہے ۔

آیت : یاایھاالذین اٰمنوااطیعواللہ وااطیعوالرسول واولی الامر منکم۔

ترجمہ: اے ایمان والو!تم ا للہ کاکہنا مانو اورتم میں جو لوگ ’’اولوالامر‘‘ ہیں ان کی اطاعت کرو ۔ اولو الامر کی تفسیر میں بعض حضرات نے تو یہ فرمایا کہ اس سے مرادمسلمان حکام ہیں اوربعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے فقہاء مراد ہیں یہ دوسری تفسیر حضرت جابر بن عبداللہؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت مجاہدؒ حضرت عطاء بن ابی رباخ حضرت عطا ء بن السائبؒ ،حضرت حسن بصری،ؒ حضرت ابوالعالیہؒ اوردوسرے بہت سے مفسرین سے منقول ہے خود علامہ رازی ؒ نے اسی تفسیر کو متعدد دلائل کے ذریعے ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے:’’ اس آیت میں لفظ اولوالامر سے علماء مراد لینااولی(بہتر) ہے اورامام ابوبکرجصاصؒ فرماتے ہیں کہ دونوں تفسیروں میں کوئی تعارض اور تضادنہیں بلکہ دونوں مراد ہیں اورمطلب یہ ہے کہ حکام کی اطاعت سیاسی معاملات میں کی جائے اور علماء وفقہاء کی مسائل شریعت میں اور علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ امراء کی اطاعت کا نتیجہ بھی بالآخر علماء ہی کی اطاعت ہے کیونکہ امراء بھی شرعی معاملات میں علماء کی اطاعت کے پابند ہیں۔

آیت : فلولانفرمن کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوافی الدین ولینذرواقومھم اذارجعواالیھم لعلھم یحذرونo

ترجمہ: پس کیوں نہ نکل پڑا ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ۔ تاکہ یہ لوگ دین میں تفقہ حاصل کریں اور تاکہ واپس لوٹنے کے بعد اپنی قوم کوہوشیار کریں۔ شاید کہ وہ لوگ اللہ کی نافرمانی سے بچیں۔

اس آیت میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ ان میں ایک جماعت ایک ایسی ہونی چاہیے جو شب وروز تفقہ دین سیکھیں اوردین کی سمجھ حاصل کرنے کے لیے خود کو وقف کردے اور اپنا اوڑھنا بچھونا علم کوبنالے۔تاکہ یہ جماعت ان لوگوں کواحکام شریعت بتلائے جواپنے آپ کو تحصیل علم کے لیے فارغ نہیں کرسکے۔ لہذااس آیت نے علم کے لیے مخصوص ہوجانے والی جماعت پریہ لازم کیا ہے کہ وہ دوسروں کواحکام شریعت سے باخبرکرے اور دوسروں کے لیے اس بات کوضروری قراردیاہے کہ وہ ان کے بتلائے ہوئے احکام پرعمل کریں اس طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے محفوظ رہیں نیز قرآن مجید میں جابجا اطیعوا الرسولکاحکم دیاگیاہے جس میں صاف لفظوں میں حضور اکرمe کی پیروی اوراطاعت کاحکم دیاگیا ہے اورظاہر ہے کہ آپ کی اطاعت آپ کی باتوں پرعمل کرنے سے ہوگی اورآپe کے قول وفعل ہی کو حدیث کہتے ہیں تو معلوم ہوااطیعوالرسولکاحکم دے کرحدیث رسول اللہe کی پیروی کاحکم دیاگیا ہے البتہ سائل کا یہ سوال کرنا کہ’’ حدیث کی کسی کتاب کی پیروی کاحکم مضحکہ خیز ہے۔‘‘

باقی سائل کایہ کہنا کہ غیرمتنازعہ امور میں دوسرے مومنین کی پیروی کرنی چاہیے بھی مضحکہ خیز ہے کیونکہ جو امورغیرمتنازعہ فیہ ہیں وہاں تو براہ راست کتاب وسنت کی پیروی ہوگی وہاں دوسرے مومنین کی پیروی کا کیامطلب پیروی تودوسرے مومنین کی ہوتی ہی ان امور میں جوائمہ مجتہدین کے درمیان مختلف فیہ ہوتے ہیں چنانچہ ایسے امور میں مقلدین حضرات اپنے امام اور پیشواکی رائے کوترجیح دیتے ہیں ہاں ! سائل کا یہ کہنا کہ’’محض خود غرضی نمایاں پن طاقت اورمال و دولت کی خاطر دین میں تنازعے کھڑے نہیں کرنے چاہیں۔‘‘الحمد للہ! ہمارے فقہائے عظام اس قسم کی گھٹیاں باتوں سے مبراہیں کیونکہ یہ تو گمراہ فرقوں کاوطیرہ ہے اہل السنۃ والجماعۃ کے لوگوں میں بغض عناد نہیں ہیں۔

سوال نمبر۷:

اگر کسی بھی فرقے کے عالم کی پیروی کرلیں سب ٹھیک ہے تو پھر سب فرقے ایک دوسرے کو گمراہ اورجہنمی کیوں سمجھتے ہیں؟بلکہ پھرفرقے بنانے اور قائم رکھنے کی ضرورت ہی کیوں باقی رہ جاتی ہے؟

جواب:

اہل السنۃ والجماعۃ کے جتنے مکتب فکر ہیں چونکہ وہ عقائد کے لحاظ سے ایک ہیں اور معمولی اور ضروری اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کو گمراہ اورغلط نہیں سمجھتے بلکہ ان کے مابین احترام کی فضاقائم ہے اگر سائل یہ سمجھتاہے کہ شافعی، مالکی، حنفی اور حنبلی ایک دوسرے پرفتوے لگاتے ہیں تو یہ ان کی کم علمی کا نتیجہ ہے البتہ اہل السنۃ والجماعۃ سے کٹنے والے مذموم فرقے اپنی گمراہی کی وجہ سے اہل السنۃ والجماعۃ پر فتویٰ زنی کرتے ہیں اورایسے گمراہ فرقوں کی بات کاکوئی اعتبارنہیں۔

ہاں!بعض فرقے اہل السنۃ والجماعۃ حنفی،شافعی،مالکی اور حنبلی ہونے کے باوجود اپنے بہت سے عقائد ونظریات میں اہل السنۃ والجماعۃ سے کٹ چکے ہیں اوران کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے مخصوص نظریات کوجب ثابت کرنے بیٹھتے ہیں نہ تو صحابہ کرامؓ کی تائید پیش کرتے ہیں نہ ہی ائمہ مجتہدین کا استدلال پیش کرتے ہیں بلکہ سلف صالحین کے فہم کے برعکس براہِ راست آیات قرآنی سے استدلال کر کے اپنے نظریات منصوصہ کوبزعم خویش ثابت کرنے کی سعی ناتمام کرتے ہیں تو ایسے لوگ اہل السنۃ والجماعۃ کے دعوی کے باوجود درحقیقت اہل السنۃ والجماعۃ نہیں ہیں ایسے لوگوں کانام ’’اہل بدعت‘‘ ہی موزوں ہے باقی یہ سوال کہ ’’پھر فرقے بنانے اورقائم رکھنے کی ضرورت ہی کیوں باقی رہ جاتی ہے ۔‘‘

Read 3176 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) ایک ریٹائرڈ فوجی کے سات سوالات کے جوابات

By: Cogent Devs - A Design & Development Company