AhnafMedia

مولانا یوسف خان کی رحلت

Rate this item
(6 votes)

مولانا یوسف خان کی رحلت

٭مولانا زاہد الراشدی

عید الفطر کی رات جن چند دوستوں کو عید مبارک کہنے اورحال احوال معلوم کرنے کے لیے فون کیا ان میں برادرم مولانا سعید یوسف خان بھی تھے۔ انہیں فون کرنے کا ایک مقصد حضرت الشیخ مولانا محمد یوسف خان کی خیریت دریافت کرنا بھی تھا جو پاکستان اورآزاد کشمیر میں شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی ؒ کے باقی ماندہ چند گنے چنے شاگردوں میں سے تھے اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرکے دورہ حدیث کے ساتھی تھے۔ مولانا سعید نے بتایاکہ حضرت کی صحت معمول کے مطابق ہے وہ بخیریت ہیںاورانہوں نے رمضان المبارک کے روزے بھی سارے رکھے ہیں۔ میں نے حضرت شیخ کی خدمت میں سلام عرض کرنے اوردعاکی درخواست پیش کرنے کے لیے کہا اورمطمئن ہوکرفون بند کر دیا۔

مگر اس کے صرف دوروز بعدکی بات ہے جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا محمد فیاض خان سواتی حسب معمول عید کی چھٹیوں میں بچوں سمیت گھرآئے ہوئے تھے،عشاء کی نماز مسجد میں اداکرنے کے بعدگھر آ رہے تھے کہ کسی دوست کے فون آنے پرانہوں نے اناللہ واناالیہ راجعون پڑھناشروع کردیا، میرادل دھڑکا اورفون مکمل ہونے کا انتظارکیے بغیر اشارے سے پوچھا کہ کیاہوا؟ انہوںنے جواب دیا کہ حضرت مولانامحمد یوسف خان کا انتقال ہوگیا ہے، زبان پربے ساختہ اناللہ واناالیہ راجعون جاری ہوااوردل غم واندوہ کی گہرائیوں میںڈبکیاں کھانے لگا۔

ہم ساڑھے گیارہ بجے کے لگ بھگ پلندری پہنچ گئے۔ دارالعلوم تعلیم القرآن میں داخل ہوئے توہرطرف علمائے کرام کاہجوم تھا۔ حضرت شیخ اسی برآمدے میں چارپائی پرسکون کی نیند سوئے ہوئے تھے۔ جہاں ابھی دوماہ قبل ان سے ملاقات ہوئی تھی میں ان کی زیارت وملاقات کے لیے حاضر ہوا تھاایک دن ان کی خدمت میں رہا اسی برآمدے میں وہ اپنی مخصوص مسند پر تشریف فرما تھے مجھے انہوںنے ساتھ بٹھا رکھا تھا اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے باتوں میں مصروف تھے۔

میراان کے ساتھ گزشتہ چار عشروں سے مسلسل تعلق تھا، جو چچا اور بھتیجے کا تعلق بھی تھا، استاذ اورشاگردکابھی تھا، استاد اورشاگردکابھی تھا راہ نما اورکارکن کابھی تھا اورنفاذ شریعت کی جدوجہدمیں علمی وفکری استفادے کابھی تھا۔ان سے رخصت ہونے لگا تو دل کے کونے سے آواز آئی کہ اچھی طرح زیارت کرلو شاید یہ آخری ملاقات ہو!!!

مین گیٹ تک جانے کے بعد میں ایک بار پھر واپس پلٹا، زیارت کی، مصافحہ کیا اور دعائیں سمیٹتا ہوا رخصت ہوگیا۔ آج بھی وہی برآمدہ تھامگر مسند کی بجائے چارپائی تھی اور حضرت شیخ بلبل کی طرح چہچہانے کی بجائے آرام کی نیند سورہے تھے۔ چہرے پر نہایت سکون تھا۔ ہمیں ان کے قدموں مین گھنٹہ بھربیٹھنے کی سعادت مل گئی۔ میرے ذہن کاکیمرہ اس سکون اورنورانیت کی باربارتصویریں لے رہا تھا ۔

علمائے کرام اورسرکردہ حضرات ایک طرف کرسیوں پر بیٹھے چہرہ مبارک کی زیارت کررہے تھے دوسری طرف عوام کا جم غفیر قطار میں تھا اور لوگ اپنے اس محبوب بزرگ کی باری باری زیارت کرکے آگے بڑھ رہے تھے۔ سامنے صحن میں ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے علمائے کرام اور دیگر حضرات تشریف فرما تھے اورعلمائے کرام ان کے سامنے خطاب میں اپنے جذبات کااظہارکر رہے تھے۔ مولانامحمد یوسف خان کے قریب ترین شاگرداوررفیق خاص حضرت مولانامحمد اسحاق مدنی ایک طرف بیٹھے آنسوبہارہے تھے اور حضرت شیخ کے صاحب زادگان صبر و ضبط کا دامن تھامے اردگرد آنے والے لوگوں سے تعزیتیں وصول کررہے تھے اس موقع پر بتایا گیا کہ حضرت شیخ نے رمضان المبارک کے سارے روزے رکھے ہیں،تروایح کی نماز مسجد میں اہتمام کے ساتھ باجماعت اداکرتے رہے ہیں وفات کے دن بھی مغرب کی نماز گھر میں باجماعت پڑھی ہے نماز کے بعد معمول کے مطابق وظائف میں مصروف تھے اورتسبیح ہاتھ میں لیے ذکرکررہے تھے کہ اچانک سینے میں تکلیف محسوس ہوئی اور تسبیح ہاتھ سے گر گئی، فوری طورپرایک قریبی ہسپتال میں لے جانے کااہتمام ہوامگرتب تقدیرکا قلم اپنا فیصلہ صادرکرچکا تھا۔

حضرت مولانامحمد یوسف خان نے نوّے (90)برس کے لگ بھگ عمر پائی۔ ان کی ساری زندگی جہد مسلسل سے عبارت رہی ہے۔ دینی اورقومی زندگی کاکوئی شعبہ ان کی تگ وتازسے خالی نہیں رہا۔ ہرشعبہ زندگی کے لوگ سمجھتے تھے کہ شاید سب سے زیادہ توجہ انہیں حاصل ہے ، مگران کے اوقات کار اور تو جہات کی ایسی متوازن تقسیم تھی کہ انہوں نے مختلف شعبوں کو بھر پور وقت دیا اور زندگی کاکوئی لمحہ مصروفیت سے خالی نہیں رہنے دیا۔ دینی علوم کی تدریس کاشعبہ ہو، سلوک وارشادکے ذریعے علماء کی روحانی اصلاح کا میدان ہو، سیاسی قیادت اورراہ نمائی کامحاذ ہو، سماجی خدمات کادائرہ ہو، نفاذ شریعت کی جدوجہد کی فکری وعلمی پشت پناہی ہو، آزادی کشمیر کی جدوجہد ہو،جمعیت علماء آزادکشمیرکے عنوان سے علمائے کرام میں تحریکی ذوق پیداکرنے کامعاملہ ہو،حضرت مولانامحمد یوسف خان ہرمحاذ پرصف اول میں موجود رہے۔

حضرت شیخ کی علمی، دینی، قومی ، تحریکی اورسماجی خدمات کااحاطہ اس مختصر تاثراتی مضمون میں ممکن نہیں ہے مگر ان کی وفات پر جنازے کے لیے آنے والے ہزاروں افراد سے خطاب کرتے ہوئے مختلف حضرات نے جن تاثرات کا اظہارکیا، ان کے چند پہلوئوں کاتذکرہ مناسب معلوم ہوتاہے۔ ایک مقرر نے جن کا نام میں یاد نہیں رکھ سکا فرمانے لگے:

’’ آزاد کشمیر کی عدالتوں میں آج اگر ججوں کے ساتھ قاضی بیٹھتے ہیں اور بہت سے معاملات میں شریعت کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں تو یہ حضرت مولانامحمد یوسف خان اوران کے رفقاء کا طویل جدوجہد کا ثمرہ ہے، انہوں نے بتایاکہ جب آزاد جموں وکشمیرکی عدالتوں میںشرعی قوانین کے نفاذ کافیصلہ ہو رہا تھا تو انتظامیہ اورعدلیہ کے ایک اعلی سطحی اجلاس میں چیف جسٹس آزاد کشمیر نے اس سلسلے میں اپنے اشکالات اور اعتراضات تفصیل کے ساتھ پیش کیے مگر حضرت مولانا محمد یوسف خان نے ان کے اس قدر مدلل اور تسلی بخش جوابات دیے کہ خود جسٹس موصوف نے اسی محفل میں بر ملااعتراف کیا کہ’’ مولانا یوسف خان کے مفصل خطاب نے نہ صرف ان کے بہت سے اشکالات دورکردیے ہیں بلکہ ان کے ذہن کا رخ بھی بدل ڈالاہے۔‘‘

آزاد کشمیرکے وزیراعظم سردارعتیق احمد خان نے اپنے خطاب میں کہاکہ ’’مولانامحمد یوسف خان صرف آزاد کشمیر کے اور پاکستان کے نہیں، بلکہ عالمِ اسلام کی عظیم شخصیت تھے اور وہ ان کے بارے میں ایک مغربی دانش ورکایہ قول بیان کرنا چاہیں گے کہ کسی چھوٹے آدمی کا بڑی جگہ پر بیٹھ کرکام کرنا بڑی بات نہیں ہے بلکہ بڑے آدمی کاچھوٹی جگہ پربیٹھ کراپنے کمالات کا اظہار کرنا اور انہیں منوانا اصل کمال کی بات ہے اوریہ مقولہ مولانا محمد یوسف خان کی جدوجہد پرصادق آتاہے۔‘‘

سابق صدرآزاد کشمیر سردارمحمدانورخان نے کہا کہ مولانا محمد یوسف خان کی خدمات کوصرف دینی دائرے میں محدودکرنا درست نہیں ہے، وہ تحریک آزادی اورنفاذ اسلام کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی محاذ پر بھی ہمارے راہ نما تھے۔‘‘

راقم الحروف نے اپنی گزارشات میں عرض کیاکہ حضرت شیخ نے ایک کامیاب اوربھر پور زندگی گزاری ہے، آج سے۶۵برس پہلے جب وہ دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوکراس علاقے میں آئے تھے تو ان کا استقبال ڈوگرہ حکمرانوں کے جیل خانے نے کیا تھااورآج جب وہ رخصت ہو رہے ہیں توقوم کے تمام طبقات ان کو’’الوداع‘‘ کہنے کے لیے جمع ہیں اوران کی یہ کامیاب زندگی فزت برب الکعبہ(رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا)کاعملی نمونہ پیش کررہی ہے۔‘‘

بہرحال! اس فضا میں مولانا سعید یوسف خان کے سر پر حضرت شیخ کی پگڑی رکھ کران کے جانشین ہونے کا اعلان کیاگیا اورلاکھوں افراد نے مولانا سعید یوسف کی اقتدامیں نماز جنازہ اداکرکے حضرت شیخ کوالوداع کیا۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلندسے بلند فرمائیں۔

آمین یارب العالمین۔

Read 2944 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) مولانا یوسف خان کی رحلت

By: Cogent Devs - A Design & Development Company