AhnafMedia

ایک تحریری مناظرے کی روداد

Rate this item
(2 votes)

ایک تحریری مناظرے کی روداد

محمد اشراف ،لاہور

اہلحدیث بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔میںانہیں کبھی اتنابرانہیںسمجھتاتھا۔ حافط عرفان ، حافظ اشرف ،فاروقی صاحب میرے اچھے دوست ہیں۔ یہاں تک کہ پہلی نعت بھی میںنے ان ہی کی محفل میں پڑھی اورفاروقی صاحب بہت خوش ہوئے ہماری باتیں ضرور ہوتی رہتی ہیں لیکن کبھی معاملہ اتنا سنجیدہ نہیںہوا دونوں طرف سے ایک دوسری کی اصلاح کی سوچ ہوتی ہے۔ اکیڈمی کے فارغ اوقات میں انٹر نیٹ پرکسی نہ کسی عالم کی تقریر یابحث سن کراپنے علم کو ترو تازہ کرتے اوردوستانہ ماحول میں باتیں کرتے کبھی کوئی لڑائی جھگڑا نہیںہوا ۔جب یہ(سرفراز)یہاں آکربیٹھنے لگا تواس کامیرے دوستوںکے ساتھ تلخ کلامی کاسلسلہ شروع ہوالیکن جب سے(سرفراز)کے جھوٹوں کودیکھاتومجھے اس سے نفرت ہوناشروع ہو گئی …ہوتے ہوتے معاملہ یہاں تک خراب ہوگیا۔

مورخہ 27نومبر2010ء بروز ہفتہ کومیرے موبائل پرشام تقریبا6 بجے 0305-4474775 نمبر سے مس کالز کا سلسلہ شروع ہواجس وقت میرے سٹوڈنٹس پڑھ رہے تھے تقریباً 8سے 10 مس کالز بجنے کے بعد میں خود اس نمبرپرکال کی ۔لیکن کسی نے اسے نہ اٹھایاپھرمیں نے اپنے دوسرے نمبر سے اس نمبر پر کال کی توآگے سے لڑکیوں جیسی آوازیں اورہنسنے کی آوازیں آئیں ۔میںنے کال کاٹ دی اور دوبارہ بچوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔ تقریبا 10منٹ گزرنے کے بعد پھراس نمبرپرکال آئی تو۔

سرفراز: ’’اوئے توکون ایںتوں بڑیاں گلاں کرناں ایںتیراعلاج کرناسانوں آونداے باز آ جا ! چنگی گل ای۔نہیں تے تینوں فیر مار دیاں گے۔

جواب: (۱)تم ہو کون میرے سامنے آئو…(بے غیرت،…)وغیرہ وغیرہ

سرفراز: اوئے تینوں اک واری آکھیا اے باز آجا (گالی) تینوںفیر(یعنی گولی)کھاویں ای کھاویں میں بھولابھٹی بول رہیاواں۔اس دا نمبر نوٹ کر ذرا۔میں نے فوراً سرفراز کی آواز پہچان لی۔جب میں ڈی سی کی دکان میں گیااورپوچھاتوانہوںنے کہا:’’سرجی! تسیں ساڈے استاد جے اسیں تہاڈے نال اس طرحاں کرسکدیے ہاں،کوئی ہور ہووے گا’’اللہ دی قسم ساڈے وچوںکوئی نہیں‘‘میری صرف ایک ہی سم ہے اورچل رہی ہے آپ کال کرلیں۔ کس حرام زادے نے ایسی بات کی آپ اسے گالیاں نکالیںاللہ کی قسم یہ سم میری نہیں میرایقین اتناپکاتھا لیکن قسموں کے آگے مجھے یقین کرنا پڑاپھر بھی میںنے کہاکہ تیری آواز پہچان لی ہے لیکن اب توقسمیں کھا رہاہے تومیں تیرے اوپر اعتبار کر لیتا ہوں اورمیں واپس اپنے دفتر آ گیا ۔

ابا جی کی بیماری کی وجہ سے میںکافی اپ سیٹ تھا۔اوپرسے انہوںنے مزید پریشان کر دیا ۔ میرا کوئی بس نہیں چل رہاتھا۔وہ کون ہے؟ جس نے میرے ساتھ ایسی بیہودگی کی کیونکہ میری کسی سے کوئی عداوت نہ تھی اسی کش مکش میں دوبارہ اسی نمبرپرفون آیااورپھرآواز کسی نامعلوم شخص کی تھی وہ بیہودہ زبان استعمال کرتے ہوئے کافی گالی گلوچ کرتارہاجس کاتاحال انہوںنے پتا نہیں بتایامیری پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور پاس بیٹھے سٹوڈنٹس بھی پریشان ہوجاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ سر! آپ یہ نمبرہمیں دیں ہم اس کاسدِ باب کریں گے… مختلف رائے پیش کرتے ہیں پھردوبارہ میں ان کے پاس جاتاہوں اور کہتاہوں کہ پھراسی نمبرپرکال آئی ہے۔

سرفراز:سرجی! اسیں تہانوںکہیانہیں سی کہ اسیں نہیں۔ ہُن یقین ہوگیاجے !سانوں دیو! اس دا نمبراسیں اس دی(گلی)اوہ کون اے ذراسانوں نمبردیو۔وہ نمبرملاتے ہیں اورنمبربندہوتاہے کافی دیر ہم ملاتے رہتے ہیں اوراس دوران بھی وہ اپنی تسلی کے لیے قسمیںکھا کھاکر جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ جس سے یقین کمزوراورپریشانی مزیدبڑھ جاتی ہے۔ ڈی ،سی بھی مکمل اس کی طرف داری اورمجھے یقین دلاتا رہاکہ ہم اس کے ساتھ یہ کردیں گے…وہ کردیں گے۔وغیرہ وغیرہ ’’جیہڑاساڈے سرجی نوں دھمکیاں دیوے، گالیاں کڈے اسیں اوس دی ماں…(گالی)سرجی !ہن آوے تے میری گل کروانا۔ میں دوبارہ اپنی کلاس میں آجاتاہوں اورتقریبا ۲۰منٹ بعد سرفراز آتاہے اور کہتاہے کہ اس کانمبراوپن ہو گیا ہے ۔آئو! ذرا اس نال گل تے کرائو۔اونہوں دسیے دھمکیاںکیویں لائی دیاں نے میں اپنے موبائل سے نمبرڈائل کرتا ہوں ۔ تو آگے سے پھر کوئی نا معلوم بیہودہ گالیاں نکالناشروع ہو جاتا ہے اورمیں اسے کہتا ہوں کہ تم غلط فہمی کی بناء پرباتیں کر رہے ہو۔ہم اس طرح کے نہیں۔ وہ آگے سے کہتاہے:’’ چل اوے! چپ کر (گالی)ڈی۔سی پکڑ لیتا ہے اور میرے فون سے اس کوبہت زیادہ گالیاں نکالتارہا۔تاکہ میںمطمئن ہو جائوں۔وہ مسلسل کہتارہا اچھااب بندکرتینوں کیہہ رہیاواں بندکر،…بعد میں ڈی۔سی کہتاہے کہ۔’’ہن یقین ہوگیاجے‘‘میراجواب یہی تھاکہ مجھے یقین نہیں کہ کیونکہ صادق کوہاٹی کہتا ہے ’’غیر مقلدین یہودیوں،نصرانیوں سے بڑے جھوٹے ہیں۔ اتنی صفائی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ کسی کوسمجھ نہیں آتی‘‘ڈی۔ سی کہتاکہ آج ثابت ہوگیا۔ہا۔۔ہا۔۔۔ہا

سرفراز نے کہا’’دیکھ لو سر جی! اس نے معافی مانگی ہے‘‘اسے معاف کردو پتا نہیں کون تھا؟ میں نے کہاکہ اس نے تومجھ سے کوئی معافی نہیں مانگی۔ رات جب میں دفتر بندکر رہا تھا تو مجھے پھر اسی کا فون آیااورکہنے لگاکہ بھائی جان اسیں غلط فہمی دی بناء تے تہاڈے نال بدتمیزی کیتی اے، سانوں معاف کردیو۔ میں نے کہاکہ اگر میرے سامنے آکے معافی مانگے گا تو میں تجھے معافی دے سکتا ہوں تو کون ہے؟ کہاں سے بول رہاہے؟ اس نے کہا میں کوئی بھی ہوںتمہیں ا س سے کیا، میں بڑی دور ہوں۔ میں سیالکوٹ سے بات کر رہا ہوں۔اب میرایقین ان دونوں پر99فیصد پکا ہوجاتاہے کہ یہی بد بخت ہیں۔ جنہوں نے یہ بیہودہ حرکت کی ساری رات اسی سوچ بچارمیں گزری ایساکیوں ہوا ؟ انہیں کیا ضرورت تھی ایسا کرنے کی وغیرہ وغیرہ۔صبح بے چینی کے عالم میں،حافظ عرفان سے بات کی کہ رات میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیاہے۔ اس نے ڈی ،سی سے بات کی کہ وہ بہت پریشان ہیں اور معاملہ کافی خطرناک ہو سکتا ہے تم سچ بتا دو ۔لڑائی زیادہ بڑھ سکتی ہے اگر تمہیں پتاہے توواضح کردو تھوڑی دیر بعد ڈی،سی مجھے آواز دے کربلاتاہے اورکہتاہے کہ سرجی!میرا ناں نہ لینا’’وہ سرفراز تھا ‘‘رات کو اس نے ہمیں بہت بڑی قسم دی ہے آپ ہمیں معاف کردیں رات سرفراز اورڈی،سی دونوں معافی مانگنے آئے اورمیرے زخموں پرمزید نمک چھڑکتے رہے کہ’’ ہمیں معاف کردیں۔‘‘ آپ ہمارے استاد ہیں بس! سمجھ نہیںآتی کہ یہ کیسے ہوگیا؟؟میںنے کہاکہ میں آپ کوایسے معاف نہیں کرسکتا۔میں تمہیں معاف کروں گالیکن4 آدمی اکھٹے کرکے۔آگے سے تڑی نماالفاظ ’’اسیں تہاڈے کول چل کے آئے ہیں۔ سانوں معاف کرو۔‘‘ زبردستی اور بڑے تلخ لہجے سے ڈی، سی بات کرتارہا اورسرفراز کوساتھ لے کرچلاگیا۔ سرفراز کا چہرا اترا ہوا تھا۔میںنے اسے کہاکہ ’’میں تواساتذہ کی پیروں کی دھول جیسابھی نہیں۔میری بے عزتی کی ہے۔ لیکن علماء حق کی شان میں گستاخی کی سزا تجھے مل رہی ہے۔ اتناتکبر اچھانہیں ہوتا۔’’سو اللہ نے تجھے دکھادیا‘‘کہ میں سچ کہہ رہاتھا۔

ڈرامہ کی اصل وجہ!

سرفراز ؛ڈی،سی کے پاس آکربیٹھتا، مذہبی باتیں چھیڑتااورعلماء حق کی شان میں گستاخیاں کرتا تھا۔ میں اسے اس سے منع کرتارہا تومجھے باربارمناظرہ کرنے کاکہتارہالیکن میں اس سے دور رہا کیونکہ مناظرہ لڑائی ہے مگر جب سرفراز نے میرے آفس میں آکرمیرے دوستوں(الیاس اورمرید)سے ایسی باتیں کیں تونوبت لڑائی جھگڑا پر آگئی۔ میں اسے ختم کرتے ہوئے اس سے کہاکہ تم میری عزت کرتے ہو۔امید ہے بات لڑائی تک نہیں پہنچے گی، کوئی بیہودگی نہیں ہونی چاہیے۔اگرتم سچے ہو توتحریراً اپنی نماز ثابت کرو ۔اس نے اپنی آپ کوسچاکرنے کے لیے مناظرہ کے اصول لکھے۔ اس کے بعد تحریری مناظرہ شروع ہو گیا۔ اس نے پہلاجواب دیاجس سے اپنے موضوع سے ہٹ گیااوراپنی باتوں سے مکرتارہاکہ مثلااپنی نماز بغیر (احکام ومسائل)کے ساری باتیں لکھ چھوڑیںاورساتھ مختلف بحث مباحثے کرتارہا۔ہمیں اس کے جھوٹ عیاں نظر آناشروع ہوگئے۔مثلاً’’نزل الابرارہماری کتاب نہیں جواسے مانے اوراس پرعمل کرے وہ حرام زادہ ہے۔‘‘

یہ تحریراس کے ہاتھ کی بھی ہمارے پاس موجودہے اورجومناظرہ کے اصولوں میں لکھی تھی کہ ’’مع احکام ومسائل نماز ثابت کروں گا۔‘‘جبکہ اس نے معاملے کو اتنا الجھا دیااورسادہ لوح لوگوں کویہ بتاتارہاکہ دیکھومیں نے سرجی کو۴۰صفحوں پرمشتمل مواد دیاانہوںنے مجھے۵صفحات پرمواد دے دیاہے اصولی بات کہ سوال توچھوٹاہوتاہے جواب زیادہ لمباہوتاہے نماز تواس نے ثابت کرنی تھی۔مسلمان تویہ ہمیں کر رہا تھامیری دین دنیاکا مسئلہ یہ توہمیں سمجھارہاتھا۔‘‘کچھ ہی جھوٹوں کاپتہ چلا توہم کیوں اصول طے کرچکے تھے۔بجائے روکنے کے سوالاجواباتحریروں کاسلسلہ شروع کیے رکھا۔مناظرہ کے اصول کے مطابق نماز اس نے ثابت کرنی تھی… ہم نہیں۔جہاں سے اس نے جھوٹ بولااسے پکڑ کرہم نے منہ پر مارا اور بے چارے کے پاس احکام ومسائل کے مطابق نماز توثابت نہ ہوئی۔لگاادھرادھرکی مارنے۲۰تاریخ کی تحریری مناظرہ کی بات ختم ہوناتھی اس کاجواب ابھی مجھے موصول نہیں ہواتھاکہ یہ مندرجہ بالاواقعہ پیش آگیا۔

دوسرے ہی دن جلتی پرتیل چھڑکنے کے لیے مزید(تحریر:آئینہ ان کو دکھایاتو برامان گئے ‘‘) گالیاں لکھ کرکرسی پر رکھ دی۔ میں نے کہاکہ ہم نے جواب میں لکھاہے کہ تم اپنے نائب کے دستخط کرائوگے اب ویسے ہی لے آئے ہوپہلے ہی مجھے تم پربڑاغصہ ہے۔ اسے واپس لے جائیں معاملہ جب حل ہو جائے گاپھر لے آنااسے لے جائونافرمانی کرتے ہوئے میری سیٹ پررکھ کے چلا گیا۔

اب یہی صاحب جومجھے اصل مسلمان کرنے آیاتھابے چارے کاجھوٹ کا پلڑا بھاری نکلا جھوٹی قسمیں کھائیں اور بزرگوں کی شان میں گستاخیاں کیں۔معاملہ کو اُلجھاتا رہا تو مندرجہ بالاگل کھلا دیا اور خود ہی اس گڑھے میں گرگیا۔ جس میں وہ ہمیں گراناچاہتاتھا۔

اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھ عطاکی اورمیں اس کی چالاکیوں اور جھوٹوںکا مردانہ وارجواب دیتا رہا ۔ میرے اساتذہ کی دعائوں سے اس کے ساتھ بحث کرکے مجھے ان کاچہرہ بالکل واضح ہوگیاہے اوراللہ نے مجھے علم سے نوازاجوعلماء حق اہلسنت والجماعت نے میرے معاون بن کربتاتے رہے ان تمام کواللہ جزائے خیر دے جواس اصلاحی مناظرہ میں میرے معاون رہے۔

علم پڑھیاتے ادب نہ سکھاکیہہ لیناای بھلیاپڑھ کے

گزارشات:

۱: کیا اتنا بڑاجھوٹاآدمی’’جوآج میرے سے معافی کاطالب ہے‘‘علم والا(علامہ)ہو سکتا ہے اور اسے مذہبی بحث کرنے کااختیار ہے (اس کے اپنے الفاظ ہیں کہ میں علامہ ہوں)اس پرمکمل پابندی عائد کی جائے۔(علماء اہلحدیث کے لیے دھبہ ہے)

20لکریں نکالے تومیں اسے دل سے معاف کردوں گا۔

۲: اونچی آواز میں بالکل جاہل اوربے عقلوں کی طرح ہنستاہے اس پرسخت پابندی ہو اور مذہبی بحث اس کی دکان پرنہیں ہونی چاہیے T.Vڈیک کی آواز دکان سے باہرنہ آئے۔

20لکریں نکالے تومیں اسے دل سے معاف کردوں گا۔

معافی نامہ: پنچائتی ممبران:محمدجاوید،حاجی ذوالفقار علی،محمد نذیرگجر،نویدالظفر، حافظ محمدعرفان، محمدا لیاس محمد عامر اورسٹوڈنٹس اکیڈمی کے سامنے اپنے جرم کوقبول کرتے ہوئے معافی نامہ پردستخط کئے اس میں لکھا ہے ’’میں سرفراز،عبدالغفورعرف D-Cگجر اپنے آپ میں بہت شرمندہ ہیں جوکام ہم نے کیااورہم اپنے استاد (محمداشرف)سے معافی کے طالب ہیں،ہمیں معاف کیاجائے اورآئندہ کبھی کوئی شکایت کاموقع نہیں دیں گے اوران کی جاری کردہ سزا20لکیریں نکالناکوبخوشی قبول کرتے ہیں اگرکوئی بات ہوئی تو ہمارا ضمانتی مکمل ذمہ دار ہوں گے۔(دستخط شدہ کاپی محفوظ ہے)

Read 2941 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) ایک تحریری مناظرے کی روداد

By: Cogent Devs - A Design & Development Company