AhnafMedia

مسئلہ توسل کاثبوت

Rate this item
(7 votes)

مسئلہ توسل کاثبوت

حفظ الرحمان اعوان ،خانو خیل

موجودہ حالات میں فرقہ مماتیہ توسل بذوات الانبیاء والاولیاء کوشرک سمجھتے ہیں حالانکہ ان کا یہ موقف اوریہ نظریہ صرف اکابر علمائے دیوبند اورسلف وصالحین کے خلاف نہیں بلکہ قرآن وحدیث سے بھی متصادم ہے۔ مسلمان کے نزدیک عقیدے کامعیاراورکسوٹی قرآن وسنت ہے اپنا عقل ودماغ نہیں لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ یہ حضرات قرآن وحدیث کواپنے ناقص عقل ودماغ کے تابع بنانے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ شریعت کے نقطہ نظرسے ناجائز ہے۔ ان لوگوں نے باقی مسائل کی طرح مسئلہ توسل کو بھی متنازعہ بنایاہواہے اورکفر وشرک کے فتوے صادرکرکے اپنی آخرت کا ملیا میٹ کررہے ہیں تو آئیے معلوم کرتے ہیں کہ مسئلہ توسل کے متعلق اکابر دیوبند اور سلف وصالحین کانظریہ کیاہے تاکہ فرقہ مماتیہ کے غلط اورباطل عقیدے کاپول کھل سکے۔

حکیم الامت مولانامحمد اشرف علی تھانویa فرماتے ہیں:

’’ کسی شخص کااللہ کے نزدیک جو مرتبہ اورمقام ہوتاہے اس مرتبہ کی قدراس پراللہ کی رحمت متوجہ ہوتی ہے۔ توسل کامطلب یہ ہوتاہے کہ اے اللہ! جتنی رحمت اس پرمتوجہ ہے اورجتناقرب اس کاآپ کے نزدیک ہے اس کی برکت سے فلاں چیز مجھ کوعطافرما،کیونکہ اس شخص سے تعلق ہے ۔اسی طرح اعمال صالحہ کاجوحدیث میںتوسل آیاہے اس کا بھی یہی معنی ہے کہ اس عمل کی جو قدراللہ تعالیٰ کے نزدیک ہے اورہم نے وہ عمل کیاہے اے اللہ !ببرکت اس عمل کے ہم پروہ رحمت ہو(انفاس عیسی)اورحاصل توسل فی الدعا کایہ ہے کہ اے اللہ! فلاں بندہ آپ کا مورد رحمت ہے اورہم اس سے محبت اور اعقاد رکھتے ہیں پس ہم پر بھی رحمت فرما ۔(۱) حضرت انبیاء اوراولیاء کرام کے وسیلے سے اللہ سے دعامانگناشرعا جائز بلکہ قبولیت دعاہونے کی وجہ سے مستحسن وافضل ہے قرآن وحدیث کے ارشادات اورتصریحات سے اس قسم کاتوسل بلاشبہ ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:’’ ولما جاء ھم کتاب من عند اللہ مصدق لما معھم و کانوامن قبل یستفتحون علی الذین کفروا۔

اورجب پہنچی اس کے پاس کتاب اللہ کی طرف سے جوسچ بتلاتی ہے جوان کے پاس ہے اور پہلے سے فتح مانگتے تھے کافروں پر یستفتحون کامصدراستفتاح ہے اس کاایک معنی ہے مدد طلب کرنا۔

۱: قاضی شوکانی(تفسیر فتح القدیرج۱ص۹۵ )میں لکھتے ہیں والاستفتاح الاستنصار۔

۲: علامہ آلوسی(تفسیر روح المعانی ج ۱ص ۳۲۰)میں فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباسt اورحضرت قتادہa اس آیت کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ آنحضرت e کی بعثت سے پہلے اہل کتاب میں سے بنی قریظہ اوربنی نضیراپنے فریق مقابل اوس خزرج پرفتح طلب کرنے میں آنحضرتe کے وسیلہ سے اللہ سے دعاکیاکرتے تھے اوریوں کہتے تھے:’’ اے اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں اس آخر الزمان نبی کے طفیل جس کی بعثت کاتونے ہم سے وعدہ فرمایاہے یہ کہ ہمارے دشمن پرآج ہماری مدد فرما ۔وہ مدددیے جاتے۔‘‘

۳: علامہ سیوطی aفرماتے ہیں :’’یہود مدینہ اوریہود خیبرکی جب عرب کے بت پرستوں سے لڑائی ہوتی تو یہ دعامانگتے:’’ اے اللہ! ہم تجھ سے احمد مصطفی نبی امیe کے وسیلہ سے سوال کرتے ہیں جس کے ظاہرکرنے کاتونے ہم سے وعدہ فرمایاہے اوراس کتاب کے واسطہ وبرکت سے سوال کرتے ہیںجس کو تو سب سے آخر میں نازل کرے گا اور یہ کہ ہم کوہمارے دشمنوں پرفتح ونصرت عطا فرما ۔‘‘ (۱)

۴: شیخ الہند حضرت مولانامحمود حسن دیوبندی قدس سرہ اس آیت کے فوائد میں تحریرفرماتے ہیں کہ قرآن اترنے سے پہلے جب یہودی کافروں سے مغلوب ہوتے تو خدا سے دعامانگتے کہ ہم کونبی آخر الزماں اورجوکتاب ان پرنازل ہوگی ان کے طفیل سے کافروں پرغلبہ عطافرما،توذراسوچئے کہ جب نبی کریم e اس دنیامیں تشریف نہ لائے تھے اس وقت بھی اہل کتاب آپe کے وسیلہ سے دعاکرکے فتح یاب ہوئے تھے اللہ نے اس واقعہ کوبیان کرکے قرآن مجید میں اس قسم کے توسل کی کہیں تردید نہیں فرمائی پھراس کے جواز میں شبہ کی کیاگنجائش ہوسکتی ہے؟؟‘‘

حدیث شریف سے توسل کاثبوت سنن ابن ماجہ باب صلوۃ میں عثمان بن حنیفa سے روایت ہے کہ ایک نابیناشخص آنحضرتeکی خدمت میں حاضرہوااورعرض کیاکہ دعاکیجئے کہ اللہ مجھ کو عافیت دے۔آپe نے فرمایااگرتوچاہے تواس کوملتوی رکھوں اوریہ زیادہ بہترہے اوراگر توچاہے تو دعا کردوں اس نے عرض کیاکہ دعاہی کردیجئے آپe نے اس کوحکم دیاکہ وضوکرے اوراچھی طرح وضو کرے اوردورکعت پڑھے اوریہ دعاکرے اے اللہ میں آپ سے یہ درخواست کرتاہوں اورآپ کی طرف متوجہ ہوتاہوں بوسیلہ محمدe نبی رحمت کے اے محمدe آپ کے وسیلہ سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہواہوں تاکہ وہ پوری ہو۔اس سے توسل صراحتاً ثابت ہوتاہے اورچونکہ آپ کااس کے لیے دعافرماناکہیں منقول نہیں اس سے ثابت ہواکہ جس طرح توسل کی دعاجائز ہے اسی طرح توسل دعامیں کسی کی ذات کابھی جائز ہے ۔

امام طبرانی aنے اپنی معجم کبیر میں عثمان بن حنیف aسے روایت کیاہے کہ ایک شخص حضرت عثمان بن عفانt کے پاس کسی کام کوجایاکرتااوروہ اس کی طرف التفات نہ فرماتے اس نے عثمان بن حنیفa سے کہاانہوں نے فرمایاتووضوکرکے مسجد میں جااوروہی دعاجواوپروالی حدیث میں ذکر ہوچکی ہے سکھلاکرکہاکہ یہ پڑھ! چنانچہ انہوں نے یہی پڑھااورحضرت عثمان t کے پاس گیا تو انہوں نے بڑی تعظیم وتکریم کی اورکام پوراکردیا۔ اس سے توسل ذات سے بعد الوفات ثابت ہوا۔

حضرت امیہr سے روایت ہے کہ آپ e فتح کی دعاکیاکرتے تھے بتوسل فقراء مہاجرین کے۔

حضرت ابوالدرداtسے روایت ہے کہ آپeنے فرمایا:’’مجھ کو(قیامت کے روز ) غرباء میں ڈھونڈنا!کہ تم کورزق اوردشمنوں پرغلبہ غرباء ہی کے طفیل سے میسر ہوتاہے۔

ان احادیث بالا سے معلوم ہوا کہ مقبولانِ الہی کے ذوات سے توسل جائز ہے اورواضح رہے کہ توسل بذوات الاولیاء بھی جائز ہے ابوبکر بن خطیب علی بن میمون سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعیa کویہ کہتے ہوئے سناہے کہ میں امام اعظم ابوحنیفہa کے وسیلہ سے برکت حاصل کرتا ہوں ہرروز ان کی قبر پرزیارت کے لیے حاضرہوتاہوں اوراس کے قریب اللہ تعالیٰ سے حاجت روائی کی دعا کرتاہوں اس کے بعد جلدمیری مراد پوری ہوجاتی ہے۔

محترم قارئین: اس مختصر سی تحریر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ توسل بذوات الانبیاء والاولیاء صرف جائز نہیں بلکہ مستحسن وافضل ہے ۔

Read 3175 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) مسئلہ توسل کاثبوت

By: Cogent Devs - A Design & Development Company