AhnafMedia

اقرار باللسان وتکذیب بالقلم

Rate this item
(3 votes)

اقرار باللسان وتکذیب بالقلم

پیر جی مشتاق شاہ،گوجرانوالہ

غیرمقلدین اوراہل السنت والجماعت کے درمیان جن مسائل میں اختلاف ہے ان میں ایک مسئلہ عام جرابوں پرمسح کرنے کابھی ہے۔غیرمقلدین کہتے ہیں:’’ ہرقسم کی جرابوں پرمسح کرناثابت ہے ۔‘‘جب کہ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ :’’ عام جرابوں پرمسح کرناکسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔‘‘ غیرمقلدین اس مسئلہ میں جتنی بھی روایات پیش کرتے ہیں خود غیرمقلدین کے علماء نے ان تمام روایات کو ضعیف کہاہے۔ جب کہ اہل السنت والجماعت کے نزدیک موزوں پر مسح کرناصحیح احادیث سے ثابت ہے اورموزوں پرقیاس کرتے ہوئے ایسی جرابوں پرمسح کرنے کی اجازت دیتے ہیں جوموزوں کے حکم میں کسی طرح آتی ہوں اہل السنت اس مسئلہ میں قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں

’’یا ایھا الذین اٰمنوا اذا قمتم الیٰ الصلٰوۃ فاغسلوا وجوھکم وایدیکم الیٰ المرافق وامسحوابرؤسکم وارجلکم الی الکعبین۔‘‘

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! جب تم ارادہ کرو نماز کا تودھوئو اپنے چہروں کو اور ہاتھوں کو کہنیوں تک اور سروں کامسح کرواورپائوں کوٹخنوں تک دھوئو۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضوکرتے وقت پائوں دھونے کاحکم دیاہے اس کے علاوہ حضور اکرمe نے وضو میں کہ اگرپائو ںخشک رہ جائیں تووعید سنائی ہے ۔قرآن حکیم کی اس آیت مبارکہ اور وضو کے بارے میں وارد احادیث سے یہی معلوم ہوتاہے کہ جب موزے نہ پہنے ہوئے ہوں تو پائوں کو دھویا جائے گا۔لیکن جب موزے پہنے ہوئے ہوں تواحادیث مبارکہ کی روشنی میں موزوں پر مسح جائز ہو گا ا س لیے اہل السنت کے نزدیک موزوں پرمسح جائز ہے اورایسی جرابوں پرجن کے دونوں طرف چمڑا چڑھا ہوا ہو جن کو’’ مُجَلَّد‘‘کہتے ہیں یاصرف نچلے حصہ میں چمڑا لگا ہوا ہو جن کو ’’ مُنَعَّل‘‘کہتے ہیں تو موزوں پر قیاس کرتے ہوئے مسح جائز ہے۔ لیکن ایسی جرابیں جونہ’’ مجلد‘‘ہوں اورنہ ہی ’’منعل‘‘ تو ان پر مسح جائز نہیں ہے۔غیرمقلدین جوہرقسم کی جرابوں پر مسح کرنے کوجائز سمجھتے ہیں لیکن اس بارے میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ وہ نہ تو کوئی قرآن کی آیت پیش کرسکتے ہیں اورنہ ہی کوئی صحیح حدیث۔ جتنی روایات وہ پیش کرتے ہیں وہ تمام ضعیف ہیں۔ بلکہ خود ان کے علماء نے ان روایات کوضعیف کہاہے ہم نے اس مضمون میں مولانا سید نذیرحسین محدث دہلوی ،مولاناعبدالرحمن مبارک پوری، مولانامحمد یونس دہلوی ، مولانا شرف الدین دہلوی، مولانا عبدالجبار غزنوی ،علامہ وحید الزمان کے حوالہ جات پیش کیے ہیں۔

محترم قارئین !کرام ہم یہاں پرغیرمقلدین کے دلائل نقل کرکے ان کے جوابات جو مولانا عبدالرحمان مبارکپوری غیرمقلد نے ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ میں دیے ہیں وہ نقل کرتے ہیں ہم نے مولانا کی عربی عبارات نقل کرکے اس کاترجمہ کیاہے اپنی طرف سے کوئی بات ذکر نہیں کی۔ اب آپ نمبر وار جوابات ملاحظہ فرمائیں۔

دلیل نمبر۱:

حدثناعثمان ابن ابی شیبۃ عن وکیع عن سفیان عن ابی قیس الاودی ھو عبدالرحمٰن بن سروان عن ھزیل بن شرجیل عن المغیرۃ بن شعبۃ ان رسول اللہe توضأومسح علی الجوربین والنعلین۔

قال ابودائود: کان عبدالرحمن بن مہدی لایحدث بھذا الحدیث لان المعروف عن المغیرۃ ان النبیe مسح علی الخفین وروی ھذا ایضا عن ابی موسی الاشعری عن النبی eانہ مسح علی الجوربین ولیس بالمتصل ولا بالقوی ۔(

ترجمہ: مغیرہ بن شعبہt سے روایت ہے ’’کہ رسول اللہe نے وضوکیااورجرابوں اور جوتوں پرمسح کیا ۔‘‘امام ابودائودفرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن مہدی اس حدیث کوبیان نہیںکرتے تھے اس لیے کہ یہ منکَر ہے۔ حضرت مغیرہ t سے مشہور یہ ہے کہ رسول اللہe نے موزوں پر مسح کیااورحضرت ابوموسی اشعری t سے بھی روایت ہے کہ رسول اللہe جرابوں پرنے مسح کیا۔مگر اسناداس کی متصل نہیں ہے نہ قوی ہے۔‘‘(۲)

جواب: مولاناعبدالرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:

اعلم ان الترمذی حسَّن حدیث الباب وصحّحہ ولکن کثیرا من ائمۃ الحدیث ضعّفوہ ۔ قال النسائی فی سننہ الکبری : لا نعلم احد ا تابع ابا قیس علی ھذہ الروایۃ والصحیح عن المغیرہ انہ علیہ السلام مسح علی الخفین وقال ابودائود فی سننہ : کان عبدالرحمن بن مہدی لایحدث بھذا الحدیث انتہی۔ لان المعروف عن المغیرۃ ان النبیe مسح علی الخفین۔ قال وروی ابوموسی الاشعری ایضاً عن النبی e انہ مسح علی الجوربین ولیس بالمتصل ولابالقوی۔

ترجمہ: جان لو!ترمذی نے حدیث باب کوحسن اورصحیح کہاہے لیکن بہت سارے ائمہ حدیث نے ضعیف کہاہے۔ امامِ نسائی نے سنن الکبری میں فرمایاکہ ’’ہم اس روایت پرابوقیس کاکوئی متابع نہیں جانتے اورصحیح حضرت مغیرہ سے یہ روایت ہے کہ نبیe نے موزوں پرمسح کیا۔‘‘امام ابودائود نے اپنی سنن میں فرمایا:’’عبدالرحمن بن مہدی اس حدیث کوبیان نہیں کرتے تھے کیونکہ مشہورحضرت مغیرہ tسے یہ ہے کہ نبی eنے موزوں پر مسح کیااورفرمایاکہ حضرت ابوموسی اشعری بھی حضورسے روایت کرتے ہیں حضورe نے جرابوں پر مسح کیالیکن وہ نہ متصل ہے اورنہ قوی ہے۔‘‘

مولانامبارک پوری غیرمقلد مزید لکھتے ہیں:

وذکرالبیھقی حدیث المغیرۃ ہذا وقال انہ حدیث منکرضعّفہ سفیان الثوری وعبدالرحمن بن مہدی واحمدبن حنبل ویحیٰ بن معین وعلی بن المدینی و مسلم بن الحجاج والمعروف عن المغیرۃ حدیث المسح علی الخفین۔

ترجمہ: امام بیہقی نے یہ حدیث مغیرہ نقل کرکے فرمایایہ حدیث منکر ہے ۔سفیان ثوری عبدالرحمن بن مہدی ،احمد بن حنبل ،یحیی بن معین، علی بن المدینی اورمسلم بن الحجاج نے اس کوضعیف کہاہے اورمشہور مغیرہ سے مروی موزوں پر مسح کی حدیث ہے۔

غیرمقلدمولاناعبدالرحمن مبارکپوری؛ امام نووی کاحوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

قال النووی کل واحد من ھولٓاء لوانفرد قدم علی الترمذی مع ان الجرح مقدم علی التعدیل قال واتفق الحفاظ علی تضعیفہ ولایقبل قولہ الترمذی انہ حسن صحیح۔ انتہی۔

ترجمہ: امام نووی نے فرمایا:’’ان میں سے ہرایک علیحدہ علیحدہ امام ترمذی پرمقدم ہے باوجود اس کے کہ جرح تعدیل پرمقدم ہوتی ہے ،فرمایاتمام حفاظ اس حدیث کے ضعیف ہونے پرمتفق ہیں اورترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ کاقول ’’یہ حسن اورصحیح ہے‘‘ قبول نہیں کیاجائے گا۔انتہیٰ

دلیل نمبر۲:

حدثنا محمد بن یحیٰ ثنا معلیٰ بن منصور و بشر بن اٰدم قالا ثنا عیسی بن یونس عن عیسی بن سنان عن الضحاک بن عبدالرحمن بن عازب عن ابی موسی الاشعری ان رسول اللہe توضا ومسح علی الجوربین والنعلین ۔

ترجمہ: حضرت ابوموسی اشعری نے کہاکہ رسول اللہe نے وضو کیااورمسح کیاجرابوں اورچپلوں پر (۲)ہم نے حدیث کاترجمہ وحید الزمان غیرمقلد کادرج کیاہے۔

جواب نمبر۱: علامہ وحید الزمان غیرمقلدلکھتے ہیں:’’اورکہاہے ابودائود نے اورمروی ہوئی ہے حدیث جوربین کے مسح کی ابوموسی اشعری سے اوراس کی سند متصل نہیں ہے اورنہ وہ روایت قوی ہے اورابودائود نے کہاکہ جومتصل نہیں ہے اس وجہ سے کہ روایت کی اس کی ضحاک بن عبدالرحمن نے ابی موسی سے اوربیہقی نے کہاہے کہ ضحاک کوابی موسی سے سماع نہیں ہے۔(یعنی بیچ میں سے کوئی راوی چھوٹ گیاہے اور ابو دائود نے جو کہاکہ وہ قوی نہیں اس وجہ سے اس کی سند میں عیسی بن سنان ہے اوروہ ضعیف ہے کہ اس سے دلیل نہیں پکڑی جاتی اوریحی بن معین نے اس کوضعیف کہاہے۔‘‘

جواب نمبر۲: مولاناعبدالرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:

ان ابادائود حکم علی ہذاالحدیث بانہ لیس بالمتصل ولابالقوی وقال البیھقی بعد روایۃ الحدیث لہ علتان ؛ احدھما ان الضحاک بن عبدالرحمٰن لم یثبت سماعہ عن ابی موسی ولثانیۃ ان عیسٰی بن سنان ضعیف۔

ترجمہ: ’’امام ابودائود نے اس پریہ حکم لگایاہے کہ یہ متصل نہیں ہے اورنہ یہ قوی ہے۔امام بیہقی نے حدیث روایت کرنے کے بعدفرمایا اس میں دوخرابیاں ہیں ایک یہ کہ ضحاک بن عبدالرحمن کاسماع ابو موسی سے ثابت نہیں ہے۔ دوسری یہ ہے کہ عیسی بن سنان ضعیف ہے۔‘‘نیز غیرمقلدمولانامبارک پوری؛ عیسی بن سنان کے بارے میں تحریرفرماتے ہیں:

قال الحافظ فی تہذیب التھذیب فی ترجمتہ ،قال الاثرم قلت لابی عبداللہ ابوسنان عیسی بن سنان فضعیفہ قال یعقوب بن شیبۃ عن ابی معین لین الحدیث وقال جماعۃ عن ابی معین ضعیف الحدیث وقال ابوزرعہ مخلط ، ضعیف الحدیث وقال ابوحاتم لیس بقوی فی الحدیث وقال العجلی لاباس بہ وقال النسائی ضعیف وقال ابن خراش صدوق وقال مرۃ فی حدیثہ نکرہ وذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال الکنانی عن ابی حازم یکتب حدیثہ ولایحتج بہ۔

ترجمہ: حافظ نے تہذیب التہذیب میں اس کے ترجمہ میں کہاکہ’’ اثرم نے کہامیں نے ابوعبداللہ سے کہاابوسنان عیسی بن سنان تو انہوںنے’’ ضعیف ‘‘کہا۔یعقوب بن شیبہ نے ابن معین سے روایت کی کہ ’’لین الحدیث ‘‘ہے ایک جماعت ابن معین سے نقل کرتی ہے کہ’’ ضعیف الحدیث‘‘ ہے ابوزرعہ کہتے ہیں ’’مخلوط‘‘ اور’’ضعیف الحدیث‘‘ ہے ابوحاتم نے کہاحدیث میں’’ قوی نہیں‘‘ نسائی نے کہا ’’ضعیف ‘‘ ہے ابن خراش نے کہاصدوق اورکبھی کہتاہے کہ اس کی حدیث میں ’’نکارت‘‘ ہے ابن حبان نے اس کو ثقات میں ذکرکیاہے کنانی ابی حازم سے نقل کرتے ہیںاس کی حدیث لکھی جائے گی لیکن احتجاج نہیں کیا جائے گا۔

دلیل نمبر۳:

عن کعب بن عجرۃ عن بلال قال ؛ کان رسول اللہe یمسح علی الخفین والجوربین ۔

ترجمہ: حضرت بلال فرماتے ہیں کہ حضوراکرمeموزوں اورجرابوں پرمسح کرتے تھے۔

جواب: مولاناعبدالرحمن مبارک پوری غیرمقلد اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :

واما حدیث بلال فہوایضاًضعیف۔

ترجمہ: الغرض حدیث بلال پس وہ بھی ضعیف ہے۔

دلیل نمبر۴: حدثنا احمد بن محمد بن حنبل قال حدثنا یحی بن سعید عن ثورعن راشد بن سعد عن ثوبان قال بعث رسول اللہ سریۃ فاصابھم البرد فلما قدموا علی رسول اللہ وامرھم ان یمسحوعلی العصائب والتساخین۔

ترجمہ: ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے ایک چھوٹا سالشکر بھیجاان کوسردی ہوگئی جب وہ رسول اللہe کے پاس آئے تو آپ نے ان کوحکم کیامسح کرنے کاعماموں اورموزوں پر۔

جواب: علامہ وحید الزمان نے ’’تساخین ‘‘کامعنی موزے کرکے یہ ثابت کردیاہے کہ حدیث ثوبان کا جرابوں کے مسح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مولاناعبدالرحمن مبارک پوری غیرمقلد نے اس حدیث کے بارے میں لکھاہے۔

قلت ہذا الحدیث لایصلح الاستدلال فانہ منقطع فان راشد بن سعد لم یسمع من ثوبان قال الحافظ بن ابی حاتم فی کتاب المراسیل ص ۲۲ انبا عبداللہ بن احمد بن حنبل فیما کتب الی قال قال احمد یعنی ابن حنبل راشد بن سعد لم یسمع من ثوبان۔ انتہی۔وقال الحافظ ابن حجر فی تہذیب التہذیب قال ابو حاتم والحربی لم یسمع من ثوبان وقال الخلال عن احمد لا ینبغی ان یکون سمع منہ۔انتہی۔

ترجمہ: میں کہتاہوں یہ روایت استدلال کی صلاحیت نہیں رکھتی یہ’’ منقطع ‘‘ہے ۔کیونکہ راشد بن سعد نے ثوبان سے سماع نہیں کیا۔ حافظ ابن ابی حاتم نے کتاب المراسل ص۲۲میں کہاعبداللہ بن احمد بن حنبل نے خبردی اس خط میں جومیری طرف لکھاکہ احمد بن حنبل نے کہاکہ راشد بن سعد نے ثوبان سے سماع نہیں کیا حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں فرمایاکہ ابوحاتم اورحربی نے کہاکہ اس نے ثوبان سے سماع نہیں کیا۔ خلال نے احمد سے روایت کیاکہ نہیں ہے مناسب کہ اس نے سما ع کیا(ثوبان t سے )

ناظرین کرام: یہاں تک ہم نے صرف مولاناعبدالرحمن مبارک پوری غیرمقلد کی تحریرات پیش کی ہیں مولاناکے جوابات سے یہ بات واضح ہے کہ جرابوںپرمسح کرنے کی کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔اب ہم غیرمقلدین کے شیخ الحدیث مولانامحمد یونس دہلوی کاحوالہ نقل کرتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیںجرابوںپرمسح کرنا درست ہے جب کہ غف بنی ہوئی ہوں معموتی اورپتلی جرابوں پرمسح کرنا نا جائز ہے مسح جراب کی اکثر حدیثیں ضعیف ہے۔ امام ابودائود نے اپنی کتاب میں ضعیف کہاہے۔

مولاناابوسعید شرف الدین غیرمقلد کافتویٰ:

مولاناثناء اللہ امرتسری غیرمقلد سے کسی نے درج ذیل سو ال کیا۔

سوال: اگر کسی شخص نے پائتابوں کے پہننے کے آگے وضو کر لیا اور بعد وضو پائتا بہ پہنا اس کے بعد اس کو پھر وضو کی ضرورت ہوتو پائتابوں پروضو کرلینا ضروری ہے؟ اگر پائتابوں پرسوراخ ہوں تو ایسے پائتابوں پر مسح کافی ہوگا؟

جواب: پائتابہ(جراب)پرمسح کرنا آنحضرت e سے ثابت ہے(ترمذی)شیخ ابن تیمیہ نے فتاوی میں مفصل لکھاہے۲۴اکتوبر ۱۹۳۰(مولاناثناء اللہ امرتسری کے اس فتوی پر مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی کااعتراض اورانہوںنے اسے غلط قراردیاہے) چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

مولاناثناء اللہ امرتسری کے فتوی پرمولاناابوسعید شرف الدین کی گرفت

جرابوں پرمسح کرنے کامسئلہ معرکۃ الآراء ہے۔ مولانانے جولکھاہے یہ بعض ائمہ امام شافعی وغیرہ کامسلک ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کابھی یہی مسلک ہے مگر یہ مسلک صحیح نہیں۔ اس لیے کہ دلیل صحیح نہیںہے۔ استدلال حدیث جامع الترمذی سے کیاجاتاہے ،جویہ ہے:

عن المغیرۃ بن شعبۃ قال توضأ النبیe ومسح علی الجوربین والنعلین قال ابوعیسی ہذا حدیث حسن صحیح انتہی واخرجہ ایضا ابودائود وابن ماجۃ واحمد وغیرہ وابن حسن وصححہ الترمذی لکنہ ضعف المحدث الکبیر عبدالرحمن بن مہدی وابودائود وشیخ البخاری علی بن المدینی وغیرھم وقال الروایۃ عن المغیرۃ المسح علی الخفین لاالجوربین وفی الباب عن ابی موسی وغیرہ ولا یثبت شیء منھا کما فی المطولات۔

ترجمہ: حضرت مغیرہ بن شعبہ tنے فرمایا:’’کہ حضوراقدسe نے وضو فرمایااورجرابوں اور جوتوں پرمسح کیا۔ امام ترمذی نے کہایہ حدیث حسن صحیح ہے انتہی۔‘‘یہ حدیث امام ابو دائود ،ابن ماجہ اوراحمد وغیرہ نے بھی تخریج کی ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کوصحیح کہالیکن محدث کبیرعبدالرحمن مہدی ، ابو دائود امام بخاری کے شیخ امام علی بن المدینی وغیرہ نے ’’ضعیف‘‘ کہاہے اورانہوںنے کہاکہ حضرت مغیرہ بن شعبہt سے موزوں پرمسح کی روایت مروی ہے نہ کہ جرابوں پراوراس بات پرحضرت ابوموسی سے بھی روایت ہے اوراس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ جیساکہ مطولات(لمبی کتابوں)میں موجود ہے

نوٹ: ناظرین کی سہولت کے لیے ہم نے مولوی شرف الدین دہلوی غیرمقلد کی عربی عبارت کا ترجمہ بھی کردیاہے۔ آگے لکھتے ہیں۔نیز یہ کہ حدیث مذکورہ بلفظ مسح علی الجوربین والنعلین ہے اور ’’وائو‘‘بمعنی’’ مع ‘‘ ہے۔ یعنی ’’جوربین‘‘ کے ساتھ’’ نعلین ‘‘پردونوں پرمسح کیا۔نہ کہ صرف ’’جوربین‘‘ پر لہذا صرف ’’جوربین‘‘ پر مسح کااستدلال اس حدیث سے ثابت نہ ہوا اورنہ صرف’’ نعلین ‘‘پربھی مسح کرنا لازم ہوگا واللازم باطل فالملزوم مثلہ(لازم باطل ہواتوملزوم بھی ایسے ہی ہے ۔ مرتب ) نیز ’’نیل الاوطار‘‘میں بحوالہ ’’قاموس ‘‘وغیرہ ’’جورب‘‘ کامعنی ’’خف ‘‘کبیر لکھاہے اور’’خف‘‘ چرمی ہوتا ہے اوراگر’’ جورب‘‘ سوتی، اونی بھی تسلیم کیاجائے کہ ہوتی تھی یاہوتی ہے توپھراس چیز کاثبوت ہوناچاہیے کہ آنحضرتe نے جس جورب پرمسح کیاتھا وہ کس قسم کی تھی ولم یثبت تعیینہ واذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال۔

ترجمہ: (اور اس کی تعیین ثابت نہیں اورجب احتمال آگیاتواستدلال باطل ہوگا۔مرتب) ہاں چند صحابہ سے مسح علی الجوربین ثابت ہے تواس کاجواب یہ ہے کہ یہ ایسا نہیں کہ اس میں اجتہاد کودخل نہ ہوتا۔ حکماً حدیث مرفوع ثابت ہو اس میں اجتہاد کوبھی دخل ہے اورعلت منصوصہ نہیں جس سے استدلال صحیح ثابت ہو۔ پھرصحابہ سے علت بھی منقول نہیں کہ کیاہے نہ ہی روایت صاحب ِوحی سے نیز پھر یہ بھی ثابت نہیں کہ صحابہ نے صرف جوربین پرمسح کیایا مع النعلین پر بلکہ بعض صحابہ سے جوربین کے ساتھ ہی نعلین پر ثابت ہے جیسے علی tاوربراء بن عازب tاورابومسعود انصاریt کے جورب کے تعیین بھی ثابت نہیں کہ کس قسم کی تھیں چرمی یاغیرچرمی۔ پھر یہ مسئلہ نہ قرآن سے ثابت ہوانہ حدیث مرفوع صحیح سے نہ اجماع نہ قیاس صحیح سے ،نہ چند صحابہ کے فعل اوراس کے دلائل سے اورغَسلِ رِجلَیْن نص قرآنی سے ثابت ہے لہذا خف چرمی(جس پر مسح رسول اللہe سے ثابت ہے)کے سوا’’جورب‘‘ پر مسح ثابت نہیں ہوا ۔

ہذا واللہ اعلم (ابوسعید شرف الدین دہلوی)

Read 3483 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) اقرار باللسان وتکذیب بالقلم

By: Cogent Devs - A Design & Development Company