AhnafMedia

فقہ حنفی کے چند اہم مسائل اور احادیث مبارکہ

Rate this item
(22 votes)

فقہ حنفی کے چند اہم مسائل اور احادیث مبارکہ

مولانامحمد کلیم اللہ

وحدانیات : امام اعظم کی وہ روایات جن میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک صرف ایک واسطہ ہو ان روایات کو بھی ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس سلسلہ میں بعض تفصیلات حسب ذیل ہیں : ٭جزء مارواہ ابوحنیفۃ عن الصحابۃ٭جامع ابومعشر عبدالکریم بن عبدالصمد شافعی ۔ امام سیوطی نے اس رسالہ کو تبییض الصحیفہ فی مناقب الامام ابی حنیفہ میں شامل کردیا ہے ، چنداحادیث قارئین ملاحظہ فرما چکے ۔٭ الاختصار والترجیح للمذہب الصحیح۔ امام ابن جوزی کے پوتے یوسف نے اس کتاب میں بعض روایات نقل فرمائی ہیں۔ دوسرے ائمہ نے بھی اس سلسلہ میں روایات جمع کی ہیں۔مثلا:٭ ابو حامد محمد بن ہارون حضرمی ٭ ابوبکر عبدالرحمن بن محمد سرخسی ٭ ابوالحسین علی بن احمد بن عیسی ۔ان تینوں حضرات کے اجزاء وحدانیات کو ابو عبداللہ محمد دمشقی حنفی المعروف بابن طولون نے اپنی سند سے کتاب الفہرست الاوسط میں روایت کیا۔

یہ جو عام طور پر کہا جارہا ہے کہ فقہ ؛قرآن وسنت کے مخالف اور متصادم الگ دین ہے اہل اسلام کی اکثریت میں فرقہ اہل حدیث شکوک وشبہات اور وساوس پیدا کر رہا ہے اور اہل السنت والجماعت سے وابستہ افراد کو صراط مستقیم سے بہکانے کے لیے صبح وشام یہ محنت جاری رکھے ہوئے ہے کہ ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ابو حنیفہ کی فقہ سے بالکل مختلف ہے اور ابو حنیفہ کی مزعومہ فقہ میں درج شدہ مسائل خصوصا ًنماز (جس طریقہ پر احناف ادا کرتے ہیں )جیسی اہم عبادت ثابت نہیں ہے ۔‘‘

مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ کیسے اتنے بڑے بڑے اکاذیب کو ہضم کر جاتے ہیں۔ ذیل میں ہم ان شاء اللہ چند ایک اہم مسائل پر اہل السنۃ والجماعۃ (احناف ) کے دلائل احادیث مبارکہ پیش کرتے ہیں جن کے بارے میں فریق مخالف اس بھول میں ہے کہ ان مسائل مہمہ میں احناف کا احادیث سے دامن خالی ہے امید ہے کہ آئندہ منفی پروپیگنڈہ کرنے سے پہلے فریق مخالف سوچنے پر مجبور ہو گا۔ طوالت کا خوف دامن گیر ہے ورنہ اپنی کچھ گزارشات اس فرقہ کے مسائل پر بھی عرض کر دیتا …چلیں پھر کبھی سہی …!!! پہلے مسئلے کا اصطلاحی نام ہے :

مسئلہ تحت السرہ

یعنی ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا :

اہل السنت والجماعت احناف نماز ادا کرتے وقت اپنے ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے ہیں جبکہ فرقہ اہل حدیث سینے پر باندھتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ حنفی طریقہ نماز حدیث کے مطابق نہیں قارئین اہل السنت والجماعت کے اس بارے میں احادیث کی روشنی میں دلائل کیا ہیں ؟؟ملاحظہ فرمائیں!!

عن وائل بن حجررضی اللہ عنہ قال : رایت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضع یمینہ علی الشمال فی الصلٰوۃ تحت السرۃ۔

ترجمہ : حضرت وائل بن حجررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے ہوئے تھے ۔

عن علی رضی اللہ عنہ قال : ان من السنۃ فی الصلٰوۃ وضع الاکف علی الاکف تحت السرۃ۔

ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت یہ ہے کہ اپنے (دائیں)ہاتھ کو (بائیں) ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے ۔

عن انس رضی اللہ عنہ قال ؛ ثلاث من اخلاق النبوۃ، تعجیل الافطار و تاخیر السحور ووضع الید الیمنی علی الیسری فی الصلٰوۃ تحت السرۃ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ تین چیزیں نبوت کے اخلاق میں سے ہیں 1:روزہ جلدی افطار کرنا۔2: سحری دیر سے کرنا ۔3:نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر ناف کے نیچے رکھنا۔

مسئلہ ترک قراۃ خلف الامام

اس کے بعد دوسرا اہم مسئلہ اما م کے پیچھے قرات نہ کرنے کا ہے۔اہل السنت والجماعت احناف کا موقف قرآن وسنت کی روشنی میں یہ ہے کہ امام کی قرات کے وقت مقتدی خاموشی سے سنتا رہے جبکہ فرقہ اہل حدیث کا نظریہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے قرات کرنی چاہیے اور جو شخص امام کے پیچھے قرات نہیں کرتا اس کی نماز نہیں ہوتی ۔قارئین !آئیے اس مسئلہ کی حقیقت جانتے ہیں کہ جیسا فرقہ اہل حدیث کے لوگ کہتے ہیں ویسے ہی ہے یا قرآن وسنت میں امام کے پیچھے خاموشی اختیار کرنے کا حکم ہے ؟؟؟ملاحظہ فرمائیں !!

واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون o

ترجمہ : جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔

عن محمد بن کعب القرظی قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اذا قرأ فی الصلٰوۃ اجابہ من ورآئہ ان قال بسم اللہ الرحمن الرحیم قالوا مثل ما یقول حتی تنقضی الفاتحۃ والسورۃ فلبث ما شاء اللہ ان یلبث ثم نزلت واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون فقرا ء وانصتوا۔

ترجمہ : حضرت محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز میں قرأت کرتے تھے تو مقتدی بھی آپ کے پیچھے پیچھے قرات کرتے تھے ۔ چنانچہ جب آپ بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے تو مقتدی بھی اسی طرح کہتے یہاں تک کہ سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت ختم ہو جاتی ۔ یہ معاملہ جب تک اللہ تعالی نے چاہا ،چلتا رہا ۔ پھر آیت واذا قری القرآن… نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرأت کرتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خاموش رہتے تھے ۔

قال العلامۃ ابن تیمیہ: وقول الجمھور ھو الصحیح فان اللہ سبحانہ و تعالی قال و اذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون قال احمد اجمع الناس علی انھا نزلت فی الصلوۃ۔

ترجمہ : علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’جمہور حضرات کا قول صحیح ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے امام احمدرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحموننماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ ‘‘

عن ابی ہریرۃ قال ؛ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انما جعل الامام لیؤتم بہ فاذا کبر فکبروا واذا قرأ فانصتوا واذا قال غیر المغضوب علیہم ولا الضآلین فقولوا آمین۔

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اتباع کی جائے ۔ جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو اورجب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو۔ ‘‘

امام کی قرأت ہی مقتدی کی قرأت ہے :

عن جابر رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من کان لہ امام فقرائۃ الامام لہ قراء ۃ۔

ترجمہ: حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جو امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قراء ۃ ہی اس کی قرات ہے ۔ ‘‘

مسئلہ آمین بالسر

نماز میں آمین آہستہ آوازسے کہنا :

اس کے بعد ایک اور اہم مسئلہ ہے امام ، مقتدی اور منفرد کا آمین آہستہ کہنا:اہل السنت والجماعت احناف کے ہاں نماز میں آمین آہستہ کہنی چاہیے جبکہ فرقہ اہل حدیث بضد ہے کہ آمین زرو سے کہی جائے اور ہم اہل السنت والجماعت کو مخالفت حدیث کا طعنہ دیتے ہیں ۔کیا اہل السنت والجماعت کا یہ مسئلہ حدیث کے مخالف ہے ؟؟؟نہیں! بلکہ ہمارے دلائل ملاحظہ فرمائیں !!!

عن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ قال انہ صلی مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلما قراء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال آمین خفض بھا صوتہ۔

ترجمہ: حضرت وائل بن حجررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہا تو آمین آہستہ آواز سے کہا۔

عن ابی وائل قال : کان عمر و علی رضی اللہ عنھما لا یجھران ببسم اللہ الرحمن الرحیم ولا بالتعوذ ولا بالتامین۔

ترجمہ : حضرت ابو وائل فرماتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ، تعوذ اور آمین اونچی آواز میں نہیں کہتے تھے ۔

عن ابراہیم قال خمس یخفین، سبحانک اللھم و بحمدک والتعوذ و بسم اللہ الرحمن الرحیم و آمین و اللھم ربنا لک الحمد۔

حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پانچ چیزیں آہستہ آواز میں کہی جائیں۔ سبحانک اللھم و بحمدک، تعوذ ، بسم اللہ الرحمن الرحیم ، آمین اور اللھم ربنا لک الحمد۔

مسئلہ ترک رفع الیدین

اس کے بعد ایک معرکۃ الاراء مسئلہ ہے جو آج کل بہت اچھالا جارہا ہے اور ایک ہی رٹ ہے کہ رفع یدین کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ قارئین آپ مندرجہ ذیل دلائل سے اندازہ لگائیں کہ کیا ان احادیث کے بعد بھی کہا جا سکتا ہے کہ ترک رفع یدین پر دلائل نہیں ہیں ؟؟؟نہیں بلکہ ایسے براہین ہیں کہ جو فرقہ اہل حدیث کے اس باطل زعم کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں !!!

رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرنا:

اللہ تعالی کا فرمان ہے :قد افلح المومنون الذین ھم فی صلٰوتھم خاشعون۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : مخبتون متواضعون لا یلتفتون یمیناً ولا شمالاً ولا یرفعون ایدیھم فی الصلوۃ ۔

ترجمہ: ’’خاشعون ‘‘سے مراد وہ لوگ ہیں جو عاجزی و انکساری سے کھڑے ہوتے ہیں ، دائیں بائیں نہیں دیکھتے اور نہ ہی نماز میں رفع یدین کرتے ہیں۔ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :خاشعون الذین لا یرفعون ایدیھم فی الصلٰوۃ الا فی التکبیرۃ الاولیٰ۔

ترجمہ: ’’خاشعون ‘‘سے مراد وہ لوگ ہیں جو تکبیر تحریمہ کے علاوہ پوری نماز میں رفع یدین نہیں کرتے ۔

عن عبد اللہ قال؛ الا اخبرکم بصلٰوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : فقام فرفع یدیہ اول مرۃ ثم لم یعد۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے میں بتائوں؟ (راوی کہتے ہیں کہ) آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ)کے وقت رفع یدین کیا پھر دوبارہ (پوری نماز میں )رفع یدین نہیں کیا۔

3: عن عبد اللہ قال صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و ابی بکر و عمر فلم یرفعوا ایدیھم الا عند افتتاح الصلٰوۃ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں، وہ سب شروع نماز کے علاوہ (باقی نماز میں )رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔

عن علی رضی اللہ عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا قام الی الصلٰوۃ المکتوبۃ کبر و رفع یدیہ حذو منکبیہ …وفی روایۃ انہ کان یرفع یدیہ فی اول الصلوۃ ثم لا یعود۔

ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فرض نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف شروع نماز میں رفع یدین کرتے تھے پھر دوبارہ نہیں کرتے تھے۔

عن البراء بن عازب رضی اللہ عنہ قال:کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا افتتح الصلٰوۃ رفع یدیہ حتی یحاذی منکبیہ لا یعود برفعھما حتی یسلم من صلٰوتہ۔

ترجمہ : حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے یہاں تک کہ اپنے ہاتھ کندھے کے قریب کر لیتے ، نماز کا سلام پھیرنے تک دوبارہ رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ بھی مزید دلائل موجود ہیں

مسئلہ بیس رکعات تراویح

اس کے بعد قارئین کرام مسئلہ بیس رکعات تراویح کے بھی چند دلائل ذکر کرنا مناسب خیال کرتا ہوں کہ رمضان المبارک کا مہینہ بالکل قریب ہے اور فتنہ پرور گروہ ان مبارک ایام میں بھی اہل السنۃ والجماعۃ کی مساجد میں وساوس پیدا کرنے کی غرض سے آتے ہیں اور آٹھ رکعات ادا کرکے صفوں کو چیرتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔اللہ تعالی ہدایت عطا فرمائے ۔اہل السنت والجماعت کے دلائل ملاحظہ فرمائیں !!

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک عمل:

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:خرج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذات لیلۃ فی رمضان فصلی الناس اربعۃ وعشرین رکعۃ واوتر بثلا ثۃ۔

ترجمہ : نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں ایک رات تشریف لائے اور لوگوں کو چار رکعت(فرض) بیس رکعت (تراویح) اور تین رکعت وتر پڑھائے ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر۔

حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا عمل :

حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عمررضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں تراویح بیس رکعت ہی پڑھی جاتی رہی ہیں ۔

تصریحات پیش خدمت ہیں:

عہد عمر فاروق رضی اللہ عنہ :

عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ امر ابی بن کعب ان یصلی باللیل فی رمضان فقال: ان الناس یصومون النھار ولا یحسنون ان یقرء وا فلو قرأت القرآن علیہم باللیل۔۔۔۔۔۔ فصلی بھم عشرین رکعۃ۔

ترجمہ : حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ رمضان کی راتوں میں نماز پڑھائیں ۔ چنانچہ فرمایا کہ لوگ سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور قرأت اچھی طرح نہیں کر سکتے اگر آپ رات کو انہیں (نماز میں) قرآن سنائیں تو بہت اچھا ہوگا۔ پس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں بیس رکعتیں پڑھائیں۔

عن السائب بن یزید قال کانوا یقومون علی عھد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فی شھر رمضان بعشرین رکعۃ قال وکانوا یقرون بالمئتین وکانوا یتوکؤن علی عصیھم فی عھد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ من شدھ القیام۔

ترجمہ : حضرت سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام کرام بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اور (قاری صاحبان) سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور لوگ لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں لاٹھیوں کا سہارا لیتے۔

قال محمد بن کعب القرظی کان الناس یصلون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان عشرین رکعۃ۔

ترجمہ : حضرت محمد بن کعب قرظی رحمۃاللہ علیہ(جو جلیل القدر تابعی ہیں) فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔

عن الحسن ان عمر بن الخطاب جمع الناس علی ابی بن کعب فی قیام رمضان فکان یصلی بھم عشرین رکعۃ۔

ترجمہ: حضرت حسن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت پر جمع فرمایا وہ لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھاتے تھے ۔

عہدعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ :

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی تراویح بیس رکعت ہی پڑھی جاتی تھی جیسا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور میں تھیں۔ چنانچہ حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں۔

کانوا یقومون علی عہد عمر بن الخطاب ؓ فی شہر رمضان بعشرین رکعۃ قال وکانوا یقرئون وکانو یتوکون علی عصیہم فی عہد عثمان بن عفان ؓ من شدۃ القیام۔

حضرت عمر بن خطاب ضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے اور قاری سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ لمبے قیام کی وجہ سے لاٹھیوں کا سہارا لیتے تھے ۔

عہد علی المرتضی رضی اللہ عنہ:آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی تراویح بیس رکعت ہی پڑھی جاتی ہیں۔

حدثنی زید بن علی عن ابیہ عن جدہ عن علی انہ امر الذی یصلی بالناس صلاۃ القیام فی شہر رمضان ان یصلی بہم عشرین رکعۃ۔ یسلم فی کل رکعتین و یراوح ما بین کل اربع رکعات فیر جع ذو الحاجۃ و یتوضاء الرجل وان یوتربہم من آخر اللیل حین الانصراف۔

ترجمہ : حضرت زید اپنے والد امام زین العابدین سے وہ اپنے والد حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ حضر ت علی نے جس امام کو رمضان میں تراویح پڑھانے کا حکم دیا اورفرمایا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات پڑھائے ہر دو رکعت پر سلام پھیرے ہر چار رکعت کے بعد اتنا آرام کا وقفہ دے کہ حاجت والا فارغ ہوکر وضو کرلے اور سب سے آخر میں وتر پڑھاتے ۔

مسئلہ تین رکعات وتر

اب آتے ہیں محترم قارئین تعداد رکعت وتر کی طرف ۔اہل السنۃ والجماعۃ (احناف ) کا موقف ہے کہ وتر کی رکعات تین ہیں لیکن نام نہاد اہل حدیث وتر ایک رکعت ادا کرتے ہیں اور ہم احنا ف کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑتے ہیں کہ تم وترکی تین رکعات ادا کیوں کرتے ہو حدیث میں ایک رکعت کا ذکر ہے ۔ ہمارے دلائل ملاحظہ فرمائیں !!!

عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن انہ اخبرہ انہ سال عائشۃ کیف کانت صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی رمضان فقالت ما کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ یصلی اربعاً فلا تسأل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی اربعاً فلا تسأل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی ثلثا۔

ترجمہ : حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز رمضان مبارک میں کیسی ہوتی تھی؟ فرمایا:’’ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ پہلے چار رکعتیں پڑھتے، پس کچھ نہ پوچھو کہ کتنی اچھی و لمبی ہوتی تھیں۔ اس کے بعد پھر چار رکعت پڑھتے ، کچھ نہ پوچھو کہ کتنی ا چھی اور لمبی ہوتی تھیں پھر تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے ۔ ‘‘

عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یوتر بثلاث یقرء فی اول رکعۃ بسبح اسم ربک الاعلی وفی الثانیۃ قل یا ایھا الکفرون وفی الثالثۃ قل ھو اللہ احد والمعوذتین۔

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر تین رکعت پڑھتے تھے پہلی رکعت میں’’سبح اسم ربک الاعلیٰ‘‘ پڑھتے ، دوسری رکعت میں ’’قل یا ایھا الکٰفرون‘‘ اور تیسری رکعت میں ’’قل ھو اللہ احد‘‘ اور معوذتین پڑھتے تھے ۔

عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یوتر بثلاث رکعات، کان یقرء فی الاولیٰ بسبح اسم ربک الاعلی وفی الثانیۃ بقل یا ایھا الکفرون وفی الثالثۃ بقل ھو اللہ احد ویقنت قبل الرکوع۔

ترجمہ : حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر تین رکعت پڑھتے تھے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی پڑھتے ، دوسری رکعت میں قل یا ایھا الکفرون اور تیسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھتے تھے ۔

اسی مضمون کی احادیث:مندرجہ ذیل کتب میں بھی مروی ہیں جن میں تین رکعت وتر کا ذکر ہے ۔

مسئلہ مرداور عورت کی نماز میں فرق

آخرمیں قارئین ایک اور اہم مسئلہ کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کراناضروری تصور کرتا ہوں کہ آج کل غیر مقلدیت زدہ بعض ٹی وی چینلز پر دینی پروگرام کے درپردہ ایک بات یہ بھی مشہور کی جا رہی ہے کہ مرد اور عورت کی طریقہ ادائیگی نماز میں کوئی فرق نہیں!!جیسے مرد حضرات نماز کے ارکان ادا کرتے ہیں ایسے ہی عورتیں نماز ادا کریں حالانکہ اہل السنت والجماعت کا موقف یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں احکام خداوندی کے مخاطب مرد و عورت دونوں ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ کے احکام جس طرح مردوں لئے ہیں عورتیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں لیکن عورت کی نسوانیت اور پردہ کا خیال ہر مقام پر رکھا گیا ہے ان عبادات کی ادائیگی میں عورت کے لئے وہ پہلو اختیار کیا گیا ہے جس میں مکمل پردہ حاصل ہو احادیث شریفہ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ عورت اورمرد کا نماز ادا کرنے کے طریقے میں فرق ہے ۔ وہ کیا فرق ہے؟ آئیے احادیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں!!!

عن وائل بن حجر قال جئت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ ۔فقال لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا وائل بن حجر: اذا صلیت فاجعل یدیک حذو اذنیک والمراۃ تجعل یدیھا حذاء ثدیھا۔

ترجمہ : حضرت وائل بن حجررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے وائل بن حجر ! جب تم نماز پڑھو تو اپنے کانوں کے برابر ہاتھ اٹھائو اور عورت اپنے ہاتھوں کو چھاتی کے برابر اٹھائے ۔

عن یزید بن حبیب ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرعلی امراتین تصلیان فقال اذا سجدتما فضما بعض اللحم الی الارض فان المراۃ لیست فی ذلک کالرجل۔

ترجمہ : حضرت یزید بن حبیب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو عورتوں کے قریب سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب تم سجدہ کرو تو جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورت کا حکم اس میں مرد کی طرح نہیں ہے ۔‘‘

عن عبد اللہ بن عمرقال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا جلست المراۃ فی الصلٰوۃ وضعت فخذھا علی فخذھا الاخریٰ فاذا سجدت الصقت بطنھا فی فخذھا کاسترما یکون لھا فان اللہ ینظر الیھا ویقول : یا ملا ئکتی اشھد کم انی قد غفرت لھا۔

حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لئے زیادہ پردے کی حالت ہے ۔اللہ تعالی اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں: اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جائو میں نے اس عورت کو بخش دیا۔

5: عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا تقبل صلوۃ الحائض الابخمار۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بالغہ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں ہوتی ۔

Read 13189 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) فقہ حنفی کے چند اہم مسائل اور احادیث مبارکہ

By: Cogent Devs - A Design & Development Company