AhnafMedia

صدائے ہوش

Rate this item
(3 votes)

صدائے ہوش

محمد زبیر ، کمالیہ

قربانی واجب نہیں … بھینس کی قربانی جائز نہیں…گھوڑے کی قربانی جائز ہے…مرغی کی بھی قربانی دی جا سکتی ہے…ایام التشریق قربانی کے دن ہیں…بکری پورے گھر کی طرف سے کافی ہے…گائے میں سات ،اونٹ میں دس آدمی شرکت کر سکتے ہیں…

حافظ محمد سعید صاحب بے تکان بولے جا رہے تھے اور پاس بیٹھے پرنسپل بھائی امیر حمزہ صاحب ان کی تائید میں ایک من کا سر ہلا رہے تھے۔

گفتگو ابھی جاری تھی ۔اتنے میں قاری مراد صاحب بھی تشریف لے آئے۔مجلس میں بیٹھے محمد شفیق صاحب نے قاری صاحب کو صورتحال سے آگاہ کیا اور بولے اب گفتگو فرمائیں۔

آپ لوگوں کا کام ہی اہل سنت والجماعت سے اختلاف کرنا ہے ۔امت مسلمہ کو توڑنے کا جیسے آپ نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔حالانکہ سورۃ الکوثر کی آیت نمبر۲ ’’فصل لربک وانحر‘‘ میں وانحر سے قربانی کا وجوب ثابت ہو رہا ہے اور بھینس کی قربانی کے جواز پر علامہ ابن تیمیہ(۱) اور ابن حزم ظاہری (۲) جیسے حضرات نے بھی فتوی دیا ہے اور ابو داود شریف میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی مرفوعاً روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ پھر گھوڑے اور مرغ کی قربانی کو جائز سمجھتے ہو تو عمل کیوں نہیں کرتے؟

ایام التشریق میں ۹ ذی الحجہ بھی ہے لیکن آج تک کسی نے بھی اس دن قربانی نہیں کی۔

باقی رہی بات کہ بکر ی پورے گھر کی طرف سے کافی ہے اس پر کوئی دلیل……

قاری مراد صاحب نے میٹھے لہجے میں بات ختم کرنا چاہی مگر حافظ سعیدصاحب درمیان میں بول پڑے اس پر دلائل موجود ہیں۔

مولانا علی محمد سعیدی نے فتاوی علماء حدیث کی جلد ۱۳ صفحہ ۱۱۲ پر موطا امام محمد کے حوالے سے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے۔

’’کنا نضحی بالشاۃ الواحدۃ یذبحھا الرجل عنہ وعن اہل بیتہ ثم تباہی الناس بعد ذلک‘‘

آدمی اپنی اور گھر والوں کی طرف سے بکری بکرے کی قربانی دیا کرتا تھا ،بعد میں فخر و مباہات کا سلسلہ جاری ہو گیا تو ایک ایک کی طرف سے دینے لگے۔اور یہی روایت جامع الترمذی میں بھی موجود ہے۔

قاری مراد صاحب اطمینان و سکون سے بیٹھے سنتے رہے۔

مزید سنیے ! ابن ماجہ شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھے قربانی کے ذبح کرتے ، ایک اپنی اور گھر والوں کی طرف سے اور ایک امت مسلمہ کی طرف سے۔

مدیر حافظ زبیر علی صاحب بڑے خوش ہو رہے تھے کہ دلائل کے انبار لگ گئے مگر ان کے چہرے سے ملال بھی ظاہر تھا کہ اس طرح تو چرمہائے قربانی میں کمی آئے گی۔بھائی امیر حمزہ صاحب نے پریشانی بھانپ کر زبیر علی صاحب کے کان میں سرگوشی کی جناب فکر کی ضرورت نہیں۔تین چار مرتبہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھا کر سالانہ اخراجات مکمل کر لیں گے۔

اتنے میں قاری مراد صاحب متوجہ ہوئے اور فرمایا ۔میں تو آپ کو عقل کا ہمسایہ سمجھتا تھا مگر لگتا ہے عقل کا سایہ بھی آپ سے کوسوں دور ہے۔ آپ نے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت دلیل میں پیش کی ، ان کے متعلق تمہارے امام قاضی شوکانی نیل الاوطار ،ج:۵ ، ص:۱۲۵ پر فرماتے ہیں کہ’’والحدیثان یدلان علی انہ یجوز للرجل ان یضحی عنہ وعن اتباعہ و یشرکھم معہ فی الثواب‘‘ یعنی قربانی ایک آدمی کی طرف سے ہوتی اور ثواب میں دوسروں کو شریک کر لیتا ہے اور حاشیہ ابن ماجہ ص۲۲۶ پر لکھا ہے:’’تاویل الحدیث الباب انہ صلی اللہ علیہ وسلم اراد ان اشتراک جمیع امتہ فی الثواب تفضلا منہ علی امتہ ‘‘

حضور ﷺ نے از راہ شفقت اپنی امت کو قربانی کے ثواب میں شریک کرنے کے ارادے سے ایسا فرمایا۔

اگر یہی قاعدہ ہے کہ بکری اہل خانہ کی طرف سے کافی ہے تو پھر گائے خاندان کی طرف سے ، گھوڑا پورے محلے کی طرف سے ،اونٹ دیہات کی طرف سے کافی ہونا چاہئیے۔ محمد شفیق صاحب قاعدہ بیان کر کے خاموش ہو گئے اور پھر تمہارے نزدیک قول صحابی ؓ و فعل صحابی ؓ حجت شرعیہ نہیں۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ والی روایت میں، حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ نے عطا ء بن یسار کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا۔اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل نقل فرما رہے ہیں۔

گویا یہ قول صحابی ہونے کی وجہ سے حجت شرعیہ نہیں ۔اور اس پر چند حوالے بھی سن لیں۔

زیر اکہ قول صحابی حجت نیست (قول صحابی حجت نہیں) (فتاوی نذیریہ ، ج:۱ ،ص: ۳۴۰) وفعل الصحابی لا یصلح للحجۃ (فعل صحابی حجت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا) (التاج المکلل ص: ۲۰۷) صحابہ کی درایت معتبر نہیں۔ (شمع محمدی ص: ۱۹) اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ابن ماجہ ص۲۲۶ پر جو روایت موجود ہے ’’ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من کان لہ سعتہ ولم یضح فلم یقربن مصلنا‘‘ یعنی جو صاحب نصاب ہو کر قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے اور دوسری روایت حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ابن ماجہ میں موجود ہے۔ ’’قال کنا وقوفاعند النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعرفۃ فقال یایھا الناس ! ان علی کل اہل بیت فی عام اضحیۃ و عتیرۃ۔‘‘ کہ ہم صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وقوف عرفات میں تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا گھر والوں میں سے ہر ایک شخص پر ہر سال قربانی اور عتیرہ واجب ہے۔

(نوٹ: عتیرہ اس بکری کو کہتے ہیں جو ماہ رجب کے اول عشرہ میں ذبح کی جاتی ہے ، یہ حکم منسوخ ہو چکا) اس سے ہر صاحب نصاب پر قربانی کے وجوب کا ثبوت ہو رہا ہے۔

حافظ سعید صاحب ! جب بکری پورے گھر کی طرف سے کافی ہے تو پھر گائے میں سات اور اونٹ میں دس کی شراکت کیسے؟اس پر کوئی دلیل۔

دلیل تو کیا جناب اس شراکت پر دلائل موجود ہیں۔ حافظ صاحب گھبراہٹ سے نکلنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولے۔

تو سنئیے جناب ! ترمذی شریف ، باب ما جاء فی الاشتراک فی الاضحیۃ میںسیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے ’’کنا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر فحضر الاضحی فاشترکنا فی البقرۃ سبعۃ وفی البعیر عشرۃ‘‘یعنی ہم کسی سفرمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ،قربانی کا دن آ گیا، ہم گائے میں سات اور اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے۔

اور سید نذیر حسین دہلوی نے فتاوی نذیریہ میں اسی کے مطابق فتوی دیا ہے۔ حافظ سعید صاحب اتنی بات کہہ کر خاموش ہو گئے۔تو قاری مراد صاحب گویا ہوئے کہ جناب عالی! ترمذی شریف کے اسی باب میں حدیث جابر بھی تو ہے ’’قال نحرنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الحدیبیۃ البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ‘‘ کہ ہم نے حدیبیہ والے سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کی ۔ اونٹ میں بھی سات شریک ہوئے اور گائے میں بھی اور پھر امام ترمذی حدیث ابن عباس کے بعد فرماتے ہیں ،ھذاحدیث حسن غریب۔حدیث جابر کے بعد فرماتے ہیں ، ھذا حدیث حسن صحیح والعمل علی ھذا اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہم۔کہ حدیث جابر صحیح ہے اور معمول بہا ہے ۔صحابہ کرام و تابعین عظام کا بھی یہی عمل رہا ہے۔

حاشیہ ترمذی شریف صفحہ ۲۷۶پر لکھا ہے کہ دس شرکا والی حدیث منسوخ ہے اور پھر صحیح مسلم کی ج: ۱،ص: ۴۲۴ پر ،اعلاء السنن کی ج: ۱۷،ص: ۲۰۴ پر بھی اسی مضمون کی احادیث موجود ہیں۔کہ گائے اور اونٹ میں سات آدمی ہی شریک ہو سکتے ہیں اور باقی رہا سید نذیر حسین دہلوی کا فتویٰ تو،سید نذیر حسین دہلوی فتاویٰ نذیریہ ج:۱ ، ص: ۳۴۰ پر فرماتے ہیں ’’حاصل آنکہ فتوی ابن عباس و ابن زبیر ہرگز قابل احتجاج نیست۔‘‘فتوی ابن عباس و ابن زبیر ہرگز دلیل بننے کے قابل نہیں۔

ایک جگہ روایت ابن عباس کو دلیل بنا کر فتوی دے رہے ہیں تو دوسری جگہ فتوی ابن عباس کو قابل دلیل ہی نہیں سمجھتے ۔ یہ فتاویٰ ہیں یا چوں چوں کا مربہ۔

ان دلائل سے واضح اور صریح اونٹ میں سات کی شراکت جائز ہو رہی ہے نہ کہ دس کی۔ قاری مراد صاحب نے بڑے دلنشین انداز میں جوابات عرض کئے اور ساتھ ہی اپنے دلائل بھی پیش کئے۔مگر حافظ سعید صاحب چونکہ کافی ہٹ دھرم واقع ہوئے تھے اتنے دلائل کے باوجود اپنی غیر مقلدانہ ضد پر اڑے رہے۔قاری مرادصاحب جان گئے کہ پہلے کی طرح اب بھی ان کو سمجھانا چیونٹی کے پائوں میں رسہ ڈال کر کھینچنے والی بات ہے۔

Read 2717 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) صدائے ہوش

By: Cogent Devs - A Design & Development Company