AhnafMedia

سعودی عرب …کچھ گلے شکوے

Rate this item
(1 Vote)

سعودی عرب …کچھ گلے شکوے

عبدالقدوس محمدی

ہمارے گزشتہ کالم ’’عالمِ اسلام اور پاکستان کے خلاف خطرناک سازش ‘‘پر حیرت انگیز تعداد میں قارئین کی طرف سے’’ فیڈ بیک‘‘ آیا ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ فون کرنے اور فیڈ بیک دینے والے اکثر نوجوان قارئین بالخصوص علمائے کرام اور مختلف دینی ،سیاسی اور سماجی تنظیموں کے کارکنان اور معروف مدارس کے منتہی درجات کے طلبائے کرام تھے۔اس لحاظ سے تو یہ فیڈ بیک نہایت خوش آئند محسوس ہوا کہ اکثر قارئین نہ صرف یہ کہ دشمن کی چالوں کا بڑی گہرائی اور باریکی سے جائزہ لیتے اور ان سے درست نتائج اخذکرتے ہیں بلکہ ان کے دل عالم اسلام کے ساتھ دھڑکتے ہیں بالخصوص حرمین شریفین کی محبت سے ہر کوئی سرشار محسوس ہوا مگر بہت سے قارئین نے خادمین حرمین شریفین کے دیوبندی مکتب فکر کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کے بارے میں جن جذبات واحساسات کا اظہار کیا اور اپنے گلے شکوے جس انداز سے بیان کیے وہ بہرحال ایک تشویشناک پہلو ہے۔

اس اہم موقع پر ان عوامی جذبات واحساسات پر بات کرنا اشد ضروری ہے تاکہ اگر ہمارے سعودی بھائی چاہیں تو حقیقت پر مبنی گلے شکوؤں کی تلافی اور بے بنیاد غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جاسکے کیونکہ آنے والا وقت اس امر کا متقاضی ہے کہ اہل ِحق ماضی کی اونچ نیچ کو فراموش کرکے ، آپس کی تمام رنجشوں اور کدورتوں کوختم کر کے اسلام کی سربلندی ،حرمین شریفین کی حفاظت اور عالمِ اسلام کی بقاء کے لیے بنیان مرصوص کا منظر پیش کرنے لگیں تاکہ دشمن کو اس سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں کہیں بھی نقب لگانے کی جرأت نہ ہو ۔

ایک ایسے وقت میں جب ایک گرینڈ گیم کے تحت سعودی عرب کے خلاف بلیم گیم جار ی ہے اس کے تو ڑ کے لیے خلافِ توقع دیوبندی مکتب فکر جو کردار ادا کررہا ہے ایسے میں اس مکتب فکر کے رہنماؤں ،جواں سال فضلاء اورلاکھوں وابستگان کے ذہنوں میں مختلف قسم کے سوالات اٹھنا فطری امرہے کیونکہ کسی کے وہم وگماں میں بھی نہیں تھا کہ آلِ سعود پر مشکل وقت آپڑنے کی صورت میں دیوبند ی مکتب فکر اتنی بے باکی ،جرأت اور خلوص کے ساتھ خادمین حرمین شریفین کا ساتھ دے گا ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومتی اور عوامی سطح پر کسی بھی مکتب فکر،کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت اور سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کی طرف سے سعودی عرب کی وہ حمایت دیکھنے میں نہیں آرہی جس کی ان سے توقع تھی بلکہ وہ گروہ جن کی سعودی عرب مالی ،اخلاقی ،مسلکی ہر قسم کی بھرپور حمایت بلکہ پرورش کرتا رہا وہ بھی آج منظر عام سے غائب ہیں اور وہ لوگ جنہیں مشکل گھڑی میں سعودی عرب نے پناہ بھی دی اور ان کی مدد بھی کی ان کے ہاں بھی صحرا کاسا سکوت طاری ہے جبکہ سعودی عرب کے حق میں اور حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے سب سے زیادہ سرگرمی اور فعالیت دیوبندی مکتب فکر کے ہاں دیکھی جا رہی ہے ۔

دیوبندی مکتب فکر کے تحت ملک بھر میں جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے ،اجلاس منعقد ہو رہے ہیں ،کانفرنسوں کا انعقاد ہو رہا ہے،بھرپور میڈیا مہم چل رہی ہے ،حرمین شریفین کے خلاف ہونے والی مذموم سازشوں کو طشت ازبام کرتے اخباری بیانات اور کالموں کی بھرمار ہے، سعودی عر ب کے حق میں دیوبند ی مکتب فکر کی تقریباً تمام چھوٹی بڑی جماعتیں میدان عمل میں کو د پڑی ہیں اور سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ نہ تو کسی مالی منفعت کے لیے ہو رہا ہے اور نہ ہی کسی مفاد کی خاطر ،کسی احسان کا بدلہ چکانے کے لیے محنت کی جارہی ہے اور نہ ہی پرانی دوستی نبھانے کے لیے کیونکہ دیوبندی مکتبِ فکر اور آل سعود کے درمیان کبھی بھی تعلقات کچھ زیادہ مثالی نہیں رہے ۔ بلکہ یہ سب تگ ودَو نظریاتی بنیادوں ،پر خلوص جذبوں،بے لوث محبت اور محض فکری قربت کی وجہ سے ہو رہی ہے کیونکہ اکابر علمائے دیوبند کی شروع سے یہ تاریخ رہی ہے کہ انہوں نے حق اوراہل حق کی ہر دور اور ہر حال میں حمایت کی ہے اور اس مقصدکے لیے کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا ۔

بی بی سی نے حالیہ مہم کے حوالے سے انتہائی طنزیہ رپورٹ پیش کی ہے جس میں علمائے دیوبند پر یہ پھبتی کسی گئی ہے کہ وہ آلِ سعود کو بچانے کے لیے میدان عمل میں آگئے ہیں صرف بی بی سی ہی نہیں بلکہ اس وقت ہر جگہ اس تحریک پر تبصرہ بازی اور تبرہ بازی جاری ہے مگر علمائے دیوبند کی یہ روایت ہے کہ وہ جب کسی بات کو حق سمجھ کر اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو پھر وہ ولایخافون لومۃ لائمکا حقیقی مصداق بن جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ سعودی حکمرانوں کے بارے میں کئی طرح کے تحفظات اور ان کی طرف سے دیوبندی مکتب کو مسلسل نظر انداز کیے جانے کے باوجود دیوبندی مکتب فکر اپنا پورا وزن سعودی عرب کے پلڑے میں ڈال رہاہے اوریہ صر ف آج کی بات نہیں بلکہ ہمیشہ ہی دیوبندی مکتب فکر نے سعودی عرب کے عوام اور حکمرانوں کے ساتھ یکطرفہ محبت کی ہے ،ان کی بے لوث وکالت اور ترجمانی کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر نبھایا ہے ۔

جبکہ سعودی عرب کی طرف سے دیوبندی مکتب ِفکر کی یکطرفہ اور بے لوث محبت و عقیدت کے جواب میں کبھی بھی وہ وفا نہیں ملی جس کا یہ مکتبِ فکر مستحق تھا ۔اگر اس خطے میں اسلامی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ خدمات علمائے دیوبند کے حصے میں آئیں گی۔ اگر تحقیق وتصنیف کے شعبے کو دیکھا جائے تو دیوبندی علمائے کرام کی کتب سے لائبریریوں کی لائبریریاں بھری پڑی ہیں ،اگر افرادی قوت کی بات کی جائے تو حج کے اجتماعات کے بعد دنیا میں سب سے بڑے اجتماعات تبلیغی جماعت کے ہوتے ہیں اور اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ رائیونڈ کے اجتماع کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑ گیاکیونکہ رائیونڈ کا وسیع وعریض پنڈال اب دیوبندی مکتبِ فکر کی صرف ایک ذیلی جماعت کے لاکھوں وابستگان کو بیک وقت اپنے دامن میں سمیٹنے سے قاصر ہے ۔

اگر مدارس دینیہ کاجائزہ لیا جائے تووفاق المدارس العربیہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کے ساتھ تیرہ ہزارمدارس وابستہ ہیں جن میں بیس لاکھ سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں ،اگر سیاسی اثر ورسوخ کی بات کی جائے تو مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کی طرف سے پاکستان کی پہلی پرچم کشائی سے لے کر مفتی محمودؒ کی وزارت علیاتک، ایم ایم اے کی شاندار کامیابی ،مولانا فضل الرحمن کی وزارت عظمی ٰ کے منصب کے قریب تک رسائی، بعد ازاں اپوزیشن لیڈر کے طور پر کردار، دو صوبوں کی حکومت اور پارلیمنٹ ،سینٹ اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں اراکین کی بڑی تعداد کی موجودگی کی شکل میںسیاسی اور قومی اثر ورسوخ کی ایک طویل داستان ہے ۔

اگر نیٹ ورکنگ کو اہمیت دی جائے تو صر ف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں دارالعلوم دیوبنداور ذیلی اداروں کے فیض یافتگان خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اگر تحریکوں کی بات کی جائے تو تحریک آزادی سے لے کر تحریک ختم نبوت اورتحریک دفاعِ صحابہ ؓ تک کتنی ہی شاندار تحریکیں ہیں جو علمائے دیوبند کی قیادت میں چلیں اور کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوئیں۔

اگر قرآن وسنت کی خدمت کا حوالہ دیا جائے تو برصغیر ہی کیا پوری دنیا کی دینی اور علمی تاریخ علمائے دیوبند کے تذکرے کے بغیر ادھوری رہے گی اور اگر عقیدہ توحید کے پرچار اور ترویج کو معیار بنایا جائے تو اس خطے سے شرک وتوہم پرستی اور بدعات وسومات کے اندھیرے چھٹے ہی دیوبندی فرزندان ِتوحید کی شبانہ روز محنتوں کے نتیجے میں …الغرض عقیدے کی بات ہو یا عقیدت کی ،توحید کا معاملہ ہو یا بدعات کے خاتمے کا ، قرآن وسنت کی خدمت ہو یا دین کی اشاعت ،عقائد کی اصلاح ہو یا توہم پرستی کا خاتمہ ،سیاسی اثر ورسوخ ہو یا مذہبی خدمات ،افرادی قوت ہو یا عسکری طاقت،کامیاب تحریکوں کا شاندار ماضی ہو یا بھرپور عوامی پذیرائی ،ملک بھر میں پھیلی مساجد کا سلسلہ ہو یا مدارس دینیہ کی کثیر تعداد،نامور علمی شخصیات ہو ں یا مختلف علاقوں اور اداروں میں تعداد کا تناسب… اس خطے میں دیوبندی مکتب فکر سعودی عرب کا حقیقی حلیف ،صحیح معنوں میں خیرخواہ بے لوث ترجمان ، بازوئے شمشیر زن اور سب سے زیادہ موثراور مفید اتحادی تھا اور ہے لیکن بدقسمتی سے یہ سارے تعلقات ہمیشہ یکطرفہ رہے ہیں اور آج بھی یکطرفہ ہی ہیں ۔

افسوس کہ امریکی تھنک ٹینکس جس حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئے سعودی پالیسی سازوں کو آج تک اس کی سمجھ نہیں آئی ۔کچھ عرصہ قبل زلمے خلیل زاد کی بیوی نے اس خطے کے حوالے سے ایک معروف امریکی تھنک ٹینک کے لیے ایک رپورٹ مرتب کی جس میں اس نے پاکستانی مسلمانوں کو چار گروہوں میں تقسیم کیا۔(1)سیکولر مسلمان یعنی اسلامی اقدار وروایات سے گریز وفرار اختیار کرنے والے (2) صوفی مسلمان یعنی زیارتوں ،درباروں اور مزاروں والے (3)شیعہ جو ایرا ن کی شہ پر بروئے کار آتے ہیں (4)وہابی مسلمان یعنی صحیح العقیدہ مسلمان اور اس چوتھے طبقے میں اس نے سب سے پہلے علمائے دیوبند کا تذکرہ کیا ۔یہ صرف زلمے خلیل زاد کی بیوی ہی نہیں بلکہ اس خطے کے بچے بچے سے لے کر عالمی برادری تک ہر کوئی دیوبندی مکتب فکر کے لوگوں کو آلِ سعود کے فکری پیشوا محمد بن عبدالوہاب نجدی کی طرف منسوب کر کے’’ وہابی‘‘ہونے کا’’ طعنہ ‘‘دیتا اور سعودیوں کا فطری حلیف سمجھتا ہے لیکن اگر نہیں سمجھتے تو وہ سعودی ہیںجو مکتب ِ دیوبند کو اپنا نہیں سمجھتے ۔یہ تو وہی بات ہوئی کہ

کافر یہ سمجھتا کہ مسلماں ہوں میں

آپ خود دیکھ لیجیے کہ ایک عرصے سے سعودی حکمران چند عناصر کے جس گروہ کی پشت پناہی کر رہے ہیںوہ اپنی تعداد ،حیثیت واہمیت ،اپنے طریقہ کار ،فرقہ وارانہ اور گستاخانہ طرزعمل کی وجہ سیاس خطے میں اپنے لیے کوئی جگہ نہیں بنا سکا تو وہ مشکل کی کسی بھی گھڑی میں سعودی عرب کے لیے کیا کر سکتا ہے ؟سعودی عرب نے صرف رفع یدین دیکھ کر ایک گروہ کو اپنا حلیف تصور کرلیااور باقی تمام چیزوں کو پس پشت ڈال دیا اور اس گروہ نے خود کو سعودی عر ب کا اس قدر چہیتا ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستانی عوام اسی گروہ کے آئینے میں سعودی عرب کی تصویر دیکھنے لگے ۔

اس گروہ کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ ایک طرف سعودی عرب سے ریال لیتے اور دوسری طرف پاکستانی ایجنسیوں سے پیسے بٹور کر عسکریت پسندی میں مصروف عمل ہیں ۔حالیہ دنوں میں ڈیرہ غازی خان میں ہونے والے انتخابات میں اسی گروہ سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت کے بارے میں یہ میڈیا رپورٹس تواتر کے ساتھ منظر عام پر آتی رہیں کہ وہ ایک عام سے مولوی صاحب ہوا کرتے تھے مگر سعودی ریالوں کی’’ برکت‘‘سے آج وہ ماشااللہ سے کروڑ پتی ہو گئے۔اسی طرح سعودی عرب کی طرف سے دی گئی رقم اور امداد سے تعمیر کی جانے والی مساجد نے بھی اس خطے میں دین کی خدمت اور عوام کی ضرورت پوری کرنے کی بجائے فرقہ واریت کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔یہ مساجد عام مساجد کی طرح اس خطے کے عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ ایک خاص مسلک کو ان کے نام کا حصہ بنا کر اس طرح ان مساجد کی پیشانیوں پر اس مسلک کے نام کے بورڈز آویزاں کیے جاتے ہیں تاکہ کوئی عام مسلمان کہیں بھولے سے اس مسجد میں نہ آجائے ۔

اسی طرح سعودی عرب میں حج کے موسم میں کئی ایسے حضرات کے لیے حرمین شریفین میں باقاعدہ منبر نصب کیے گئے ہیں جوانتہائی اشتعال انگیز اور نفرت آمیز گفتگو کرتے ہیں ۔انہی عناصر کی شکایتوں اور خلاف حقیقتوں درخواستوں کی وجہ سے کبھی تو تفسیر عثمانی پر پابندی عائد کی جاتی ہے اور کبھی سعودی عرب کی یونیورسٹیوں کے دروازے دیوبندی مکتب فکر کے بچوں اور وفاق المدارس کے فضلاء کے لیے بند کردئیے جاتے ہیں جس کا مجھے خود ذاتی طور پر تجربہ ہوا۔ میں نے شہادۃالعالمیہ حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے سعودی عرب جانے کی بہتیری کوششیں کیں لیکن کوئی کوشش کارگر ثابت نہ ہوسکی اور آخر میں جب مجھے یہ بتایا گیا کہ وفاق المدارس کی اسناد کے حامل امیدواروں کی درخواستیں متعلقہ حکام تک پہنچنے ہی نہیں دی جاتیںتو میں صبر شکر کر کے بیٹھ گیا ۔

یہ سب کچھ صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ ہر سال وفاق المدارس کے سینکڑوں فضلاء اس تلخ تجربے سے گزرتے ہیں ۔یہ بھی نہیں کہ یہ سب کچھ سعودی حکام کی لاعلمی میں ہو رہا ہے بلکہ سعودی حکام دانستہ طور پر ایک ایسے مکتب فکر کے طلباء کو ترجیح دیتے ہیں جن کے فضلاء کی اوسط تعداد وفاق المدارس کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں بلکہ عجیب بات یہ کہ سعودی عرب سے جامعات کے داخلوں کے لیے آنے والے وفود بھی ایک خاص گروہ کے مدارس میں آکر پڑاؤڈالتے ہیں اور صرف اسی مکتب فکر کے لڑکوں اور سعودی امداد بٹورنے والوں کے بیٹوں اور بھانجوں ،بھتیجوں کواپنی جامعات میں داخلوں کے پروانے جاری کرتے ہیں ۔

خیر گلے شکوؤں کی یہ ایک طویل داستان ہے لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ ان غلط فہمیوں کے ازالے کی بھی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی نہ اس کی ضرورت محسوس کی گئی بلکہ گزشتہ دنوں دیوبندی مکتب فکر کی بہت سی سرکردہ اور اہم ترین شخصیات نے اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر سعودی سفیر سے ملاقات کی لیکن شنید یہ ہے کہ اس موقع پر انتہائی خوش اخلاق، ملنسار اور متاثرین سیلاب کے لیے دن رات ایک کر دینے والے سفیر موصوف نے بدترین سرد مہری کا مظاہرہ کیا اور ان اکابر کی بات اور موقف بھی تفصیل سے سننا گوارہ نہیں کیا ۔ایسے میں تعریف اور محبت وعقیدت کے خوگر دیوبندی نوجوان گلے شکوؤں کا اظہار نہ کریں تو اور کیا کریں ؟

اگر ہماری ان معروضات پر کسی کو یقین نہ آئے تو حال ہی میں دارلعلوم دیوبند کا دورہ کرنے والے ہر دلعزیز امامِ حرم شیخ عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ سے معلوم کر لیا جائے کہ اس خطے میں دیوبندی مکتب فکر کی اہمیت ،کردار ،خدمات ،اثر ورسوخ اور افرادی قوت کا کیا عالم ہے کیونکہ شیخ کی آمد کے موقع پر انڈیا کے مسلمانوں کے جم غفیر کی ویڈیو دیکھ کر آدمی چکرا کر رہ جاتا ہے اور خود شیخ سدیس کا کہنا تھا کہ میں نے حرمین شریفین کے علاوہ دنیا کے کسی خطے میں اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا ۔

میرے اکثر قارئین کا خیال یہ تھا کہ یہ ایک ایسا موقع اور تاریخ کا اہم موڑ ہے جب دیوبندی مکتب فکر اور سعودی حکمرانوں ،عوام اور بالخصوص اہل علم کو ایک دوسرے کے قریب آکر ایک دوسرے کو سننااور سمجھنا ہوگاورنہ آنے والے کل دشمن ہمیں مزید دور کرنے ،مزید ٹکڑیوں میں تقسیم کرنے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

Read 2978 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) سعودی عرب …کچھ گلے شکوے

By: Cogent Devs - A Design & Development Company