Print this page

قانون توہین رسالت میں ترمیم کے مضمرات

Rate this item
(1 Vote)

قانون توہین رسالت میں ترمیم کے مضمرات

محمد اسماعیل قریشی سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ پاکستان

مملکتِ خداداد پاکستان کے صدر جناب جنرل پرویز مشرف نے سال۲۰۰۰ء میں اعلان کیاتھاکہ قانون توہین رسالت کا غلط استعمال ہو رہا ہے ۔ اسی لیے اس کے ضابطہ کار (Procedural Law) کوتبدیل کرناہوگا۔راقم نے ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیو رسٹس کی جانب سے اس تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے اس پر گہری تشویش کااظہارکیاکہ موجودہ طریق کارمیں تبدیلی اس قانون کو غلط طورپرموثر بنانے کی ناروا کوشش ہے جو قومی اشتعال انگیزی کا باعث ہو گا اور اس کے پس پردہ امریکہ اوریورپ کی متعصب ذہنیت کار فرما ہے۔

پاکستان کی دینی اورسیاسی جماعتوں نے اس ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع کردیے اس دوران جنرل موصوف بیرون ملک دوروں پرتھے وہاں انہیں اس بگڑتی ہوئی صورتحال سے آگاہ کیا گیا۔ا س لیے انہوںنے واپسی پر ائر پورٹ ہی سے قوم سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ حکومت کے چند اہلکاروں کی طرف سے صرف ایک تجویز تھی جو نادانستہ طورپرپیش ہو گئی۔

قوم اگر اسے ناپسند کرتی ہے توہم قانون توہین رسالت کے طریقہ کارمیں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کیسے کر سکتے ہیں اس لیے یہ تجویز فوری پرواپس لے لی گئی اگرچہ کہ امریکہ اوریورپ یہ جانتے تھے کہ جنرل مشرف نے یہ بات مصلحتاًکہہ دی ہے لیکن اس کوبھی وہ براشت نہیں کرسکے۔ اس لیے امریکہ کی نیوکونز(نئی قدامت پسند عیسائی) گورنمنٹ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ڈیموکریسی اورہیومن رائٹس بیوروکے حوالے سے سال ۲۰۰۳ء میں انٹرنیشنل رپورٹ تیارکی ہے جوسال۲۰۰۴ء میں منظر عام پرآئی۔اس رپورٹ میں قانون توہین رسالت کا سختی سے محاسبہ کیاگیاہے کہ اس کی وجہ سے مذہبی آزادی اور حقوق انسانی سلب ہو رہے ہیں۔

اقلیتوں خاص طورپر قادیانی، احمدی گروہ کے متعلق بتلایا گیا ہے کہ ان کی زندگی ،جان اورمال محفوظ نہیں اگرچہ کہ ساتھ ہی یہ بھی کہاگیاہے کہ اس قانون کے سال ۱۹۹۱ ء میں نافذ ہونے کے بعد اب تک ہائیکورٹ فیڈرل شریعت کورٹ یاسپریم کورٹ سے کسی شخص کوبھی سزائے موت نہیں دی گئی اور نہ ہی کوئی اس جرم میں سزا یاب ہوا ہے لیکن رپورٹ میں بتلایا گیا ہے کہ پاکستان میں ابھی ۶۷مقدمات زیرسماعت ہیں ۔ ۱۵کروڑ آبادی کے اس ملک میں یہ صورتحال بھی ان کی نظر میں تشویشناک ہے۔

جونہی یہ رپورٹ جنرل صدر مشرف کے نوٹس میں لائی گئی اس پران کوہمہ مقتدر صدر امریکہ جارج ڈبلیو بش کی دست راست کینڈولیزارائیس کی وہ وارنگ یادآگئی کہ اگر پاکستان نے امریکن گورنمنٹ کی مرضی کے خلاف کوئی کام کیاتواس کی گاجر سے تواضع ختم ہوجائے گی پھرچھڑی (Stick)کے زور سے اسے راہ راست پر لایاجائے گاچونکہ صدر جنرل پرویز مشرف ایک امن پسند اورصلح جو جنرل ہیں اس لیے انہوں نے نہایت پھرتی سے یو ٹرن (U Turn) لیا اورالٹی زقند لگائی۔ ایسی زقند وہ کونڈی رائس کے پیش رو کولن پائل کی ایک کال پربش کی خوشنودی کے لیے ان کی مسلم ملک افغانستان کے خلاف اعلان صلیبی جنگ (Crusade) پرلگا چکے ہیں ۔ اس مرتبہ یوٹرن ۲۰۰۴ء میں جنرل موصوف نے ضابطہ کارسے بھی آگے بڑھ کرقانون توہین رسالت پر نظر ثانی کااعلان داغ دیا۔

اس اعلان میں حدو د لاز کے بارے میں بتلایاگیاکہ یہ قوانین بھی انسانی ذہن کی تخلیق ہیں یعنی: سرقہ ، ڈکیتی ، حربہ ، بدکاری، قذف کے جرائم کی قرآن وسنت میں مقررہ سزائیں ماڈرن اجتہاد کی روشنی میں معاذ اللہ،وضعی یا انسان کی اپنی بنائی ہوئی ہیں،اس پر مسلمان عوام مسلم قائدین اور دینی رہنما حکومت کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ دوسری طرف سے وزیروں اورمشیروں کی فوج ظفر موج بھی میدان میں اتر گئی ۔ سیکولر دستے پہلے ہی ان کی مدد کے لے موجود تھے مگر مصلحت وقت کے پیش نظر طے پایاکہ تمام اسلامی قوانین پر نظرثانی کی بجائے صرف قانون قصاص ودیت میں ترمیم کی جائے۔ یہ ترمیم پرائیوٹ بل کے طورپرپیش کی گئی ۔ اس میں قانون توہین رسالت میں کسی قسم کی کوئی ترمیم شامل نہ تھی ۔

یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ پاکستان کے پرائیوٹ ٹی وی چینل Geoنے۱۳مئی ۲۰۰۴ء کو توہین رسالت کے سلسلے میں ایک اہم مذاکرے(Capital Talk)کے عنوان سے اہتمام کیا۔ جس میں راقم،وزیزمذہبی امورمیاں اعجاز الحق اورپی پی پی کی رکن قومی اسمبلی فوزیہ وہاب کے علاوہ محبوب صداڈائریکٹرکرسچن سٹڈیز کو مدعوکیا گیا تھا ۔اس کے کمپئرجناب حامد میر تھے۔ اس مذاکرے میں یہ امور زیر بحث آئے: کیاحکومت امریکہ کے دبائو میں توہین رسالت کا قانون ختم کرناچاہتی ہے؟ کیا طریقہ کارمیں تبدیلی سے قانون کاغلط استعمال رک جائے گا؟ کیا سزائے موت ختم کرنے سے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہو گی ؟

امریکی دبائوکے بارے میں ہماراموقف واضح تھاکہ یہ امریکن ایجنڈے کاحصہ ہے اس کی تائید میں ہم نے امریکن ہیومن رائٹس بیوروکی رپورٹ کا دستاویزی ثبوت پیش کیالیکن وزیر مذہبی امور اور مسز فوزیہ وہاب کاکہناتھاکہ پاکستان امریکہ کے زیر اثر ایسا کوئی کام نہیں کر رہا۔ مسٹر محبوب صدا اورمسز فوزیہ وہاب ایم این اے کی رائے تھی کہ اس قانون کو ختم کر دینا چاہیے اور پارلیمنٹ جو ایک بااختیار ادارہ ہے اسے ایساکرنے کاحق حاصل ہے ۔مسز فوزیہ وہاب نے ایک متبادل تجویز پیش کی کہ اگر اس قانون کوختم کرنے میں کوئی رکاوٹ ہے توزیادہ سے زیادہ توہین رسالت کی سزا سات سال ہونی چاہیے۔ جب موصوفہ سے پوچھا گیا کہ تنسیخ یاترمیم کامطالبہ کا کیا جواز ہے ؟ جس پر انہوںنے فرمایاکہ اللہ نے ایسے معاملات میں عفو در گزر کا حکم دیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایذا دینے والوں کومعاف فرما دیاتھا۔ اس پر موصوفہ نے تسلیم کیاکہ اس سلسلے میں ان کامطالعہ اتناوسیع نہیں ہے۔ اس لیے وہ فی الوقت اس کا جواب نہیں دے سکتیں ۔کرسچن کیمونٹی کے نمائندے محبوب صدا کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ خود بائبل میں پیغمبروں کی توہین کی سزا؛سزائے موت بذریعہ سنگسارہے اس بارے میں آپ کیا فرمائیں گے ؟کہنے لگے بائبل کا قانون دنیا میں کہیں لاگو نہیں ہے جب بتلایاگیاکہ برطانیہ یورپ اور امریکہ میں جو اپنے آپ کو سیکولر ہونے کے دعویدار ہیں ۔وہاں بھی توہین مسیح کی سزا موت تھی لیکن سزائے موت موقوف ہونے کے بعد توہین مسیح کی سزا عمرقید کر دی گئی ہے جس پر انہوں نے کہا کہ ہمارایورپ برطانیہ اورامریکہ سے کوئی تعلق نہیں ہم توپاکستان کی بات کرتے ہیں۔ اگر برطانیہ امریکہ میں کوئی فیصلے ہوئے توہمیں اس کا کوئی علم نہیں لیکن انہوں نے تسلیم کیاکہ پاکستان میں ابھی تک کسی ایک شخص کو بھی توہین رسالت کی سزا دی گئی۔

وزیز مذہبی امورمیاں اعجاز الحق نے بر ملا اعتراف کیاکہ حکومت کو توہین رسالت کی سزا میں ترمیم یاتنسیخ کاکوئی اختیارنہیں اورنہ حکومت کاایساکوئی ارادہ ہے لیکن چونکہ قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اس لیے حکومت چاہتی ہے کہ اصل قانون میں کسی تبدیلی کے بغیر طریقہ کار (Procedural Law) میں تبدیلی کی جائے۔ کیسی تبدیلی ؟ کے جواب میں کہ اگر کسی نے توہین رسالت کاغلط مقدمہ درج کرایا اورتفتیش یاانکوائری میں وہ مقدمہ غلط ثابت ہوا اورعدالت سے ملزم بری ہوجائے توغلط مقدمہ درج کرانے والے کو سزائے موت دی جائے گی

اس پر راقم نے شرکائے مذاکرہ کوہارون رشید کے دورکاایک مشہورواقعہ سنایاکہ متنبی اس کے دربارکابہت بڑا قصیدہ گوشاعر تھامگر بلانوش شرابی بھی۔ہارون کے دورحکومت میں ایک سخت گیرمحتسب اعلیٰ (Ombudsman)کا تقرر ہوا جو نشہ کی حالت میں پکڑے جانے والے شخص کو موقع پر ہی اسی کوڑوں کی سزا دیاکرتاتھا۔ اس پر متنبی نے خلیفہ کی خدمت میں لکھاکہ ان حالات میں وہ دربارکی حاضری سے قاصرہے۔ہارون رشید کو مشکل یہ آن پڑی کہ شراب نوشی کی سزائے تازیانہ موقوف کر دے تورعایاکی مخالفت کاخطرہ موجود ہے تودوسری طرف اس کا دربای شاعر ایسے محتسب کی موجودگی میں اس تک پہنچ نہیں سکتا ۔ بادشاہ کی اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے اس کے وزیران باتدبیر نے اسے مشورہ دیاکہ اگر قانون کی بجائے قانون کے طریقہ کارمیں ترمیم کی جائے تویہ پیچیدہ مسئلہ حل ہوسکتاہے وہ اس طرح کہ شراب نوشی کی اسی کوڑوں والی اسلامی سزا کو نہ چھیڑا جائے وہ برقراررہے لیکن طریقہ کارمیں ترمیم کرکے شرابی کے خلاف رپورٹ کرنے والے کو سو کوڑے لگائے جائیں مگراس زمانے کے لوگ معلوم ہوتاہے کہ کچھ انتہاء پسند تھے جواس ترمیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جس پر ہارون رشید جیسے بادشاہ وقت کوبھی اس ترمیم کومنسوخ کرنا پڑا

اس مذاکرے میں سب سے دلچسپ اورفیصلہ کن مرحلہ اس وقت آیاجب وزیرمذہبی امورمیاں اعجاز الحق سے پوچھا گیا کہ بدنام زمانہ رشدی اگر ان کے سامنے آجائے تو وہ کیاکریں گے؟ جس پرانہوںنے بے ساختہ وہی جواب دیاجودراصل مسلمانوں کی قومی نفسیات کا ترجمان تھا ۔ ان کے لاشعور میں یہ تہہ نشین خواہش تھی جو شیطانی آیات کے مصنف کانام سنتے ہی بے اختیار ان کی زبان پر آگئی جسے وہ روک نہ سکے اورکہاکہ وہ اسے گولی مار دیں گے طریق کارمیں ترمیم کی بات بھی اس وقت ان کے ذہن سے فراموش ہوگئی سب سے بڑھ کروہ توہین رسالت کے ملزم کو عدالت میں صفائی کاحق بھی نہیں دیناچاہتے۔

ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کابھی یہی موقف تھاکہ ملزم گستاخ رسول کوموقع پرہی اس کی نیت ارادہ اورمقصدمعلوم کئے بغیر ہی جان سے مار دیناچاہیے جبکہ ہمارا واضح موقف شروع سے ہی فیڈرل شریعت کورٹ،ہائیکورٹ سپریم کورٹ میں یہی چلا آ رہا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کا مقصد ہی یہ ہے کہ ملزم کو پوری طرح اپنی صفائی پیش کرنے کا حق دیاجائے جوقرآن،قانون اور عدل وانصاف کاتقاضہ ہے نیت اورارادہ کے بغیر توہین رسالت کی حدود میں سزا کسی کونہیں دی جا سکتی ۔

اب رہ گیایہ اہم سوال کہ کیاتوہین رسالت طریق کارمیں ترمیم کاقانون کاغلط استعمال رک جائے گا؟ اس کاسیدھااورصاف جواب یہ ہے کہ طریقہ کارمیں ترمیم کی وجہ سے قانون کے غلط استعمال کازیادہ احتمال موجودہے جیساکہ ہم نے پہلے عرض کیاہے کہ کاروکاری قتل وغارت کے پرائیویٹ بل میں توہین رسالت کے قانون میں اس کے طریقہ کارمیں ترمیم کاکہیں ذکرموجود نہیں لیکن سرکار کے وزیرانچارج نے کاروکاری اورقتل غیرت(Honour Killing) جیسے گھنائونے جرائم کونمایاںکرکے توہین رسالت کے طریقہ کارمیں ترمیم کوکمال ہوشیاری سے قصاص و دیت کے بل میں خلط ملط کردیااورترمیم کی غرض وغایت کے بیان میں بھی اسے نظر انداز کر دیا گیا ۔جو پارلیمانی قواعد کے مطابق ضروری تھا۔ قصاص ودیت کے ترمیمی بل کے طریقہ کارپر سرکار دربار کے حاشیہ نشینوں کے سوا ملک کی اپوزیشن ایم ایم اے اوراے آر ڈی کے ممبران اسمبلی احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کرگئے ملک کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے اس غیراسلامی ترمیمات کو یکسر مسترد کر دیا۔ این جی اوز تک نے بھی اس طرح کے بل کو غیرپارلیمانی طریقہ سے منظورکرنے پراس بل کو متنازعہ قرار دیا۔اسی لیے یہ بل اورخاص طور پر توہین رسالت کا ترمیمی بل قانون بن جانے کے بعد بھی ناقابل قبول رہے گا۔

پہلے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 156کی رو سے پولیس اسٹیشن کے انچارج افسر کو قابل دست اندازی پولیس جرائم قتل توہین رسالت اور دیگر سنگین جرائم میں اطلاع دینے یا رپورٹ کرنے پرمقدمہ درج کر کے ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد تفتیش کااختیارحاصل تھاجس سے مدعی کویہ اطمینان ہوجاتاکہ قانون ملزم کے خلاف حرکت میں آگیاہے اس طریقہ کارمیں ملزم پولیس کی تحویل میں آجانے سے قاتلانہ حملے یاواردات قتل سے بھی محفوظ ہو جاتا اورا س علاقے یاملک سے فرار ہونے کے راستے بھی بندہوجاتے رہے ہیں چونکہ پولیس تھانے اورچوکیاں شہرکے اندر قریب قریب اوردیہاتوں اور ہر قریہ میں جرائم کے انسداد اور لاء اینڈ آرڈرکو برقرار رکھنے کے لیے قائم ہیں۔دفعہ156-Aتعزیرات کی تفتیش کااختیارصرف پولیس کے اعلیٰ افسر S-P کو دیا گیا ظاہر ہے ایس پی کواپنے ہیڈ کوارٹر آفس سے اٹھا کر ملک بھرکے شہروں اوردیہاتوں کے ہزاروں لاکھوں تھانوں کے اندر لا کر بٹھایا تونہیں جاسکتا۔ ایس پی صاحبان توصدر مملکت ،گورنر ،قطار اندر قطار وزیروں مشیروں اورافسران سرکارجن کے دم قدم سے اس ملک کی بقااوراستحکام وابستہ ہے کہ جان ومال کے تحفظ کے لیے شب وروز مصروف کارہوتے ہیں ۔ مزیدبرآں اپوزیشن کے جلسے جلوسوں کی روک تھام بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ایسے ہمہ گیر مصروف اعلیٰ پولیس افسروں کو توہین رسالت کے ملزموں کے خلاف رپورٹ کی تفتیش اور انکوائری کی مہلت کہاں؟ ان حالات میں توہین رسالت کے مدعی کوجس کے دل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت اس کی جان و مال ماں باپ اوراولاد سے بڑھ کرہوتی ہے وہ ایس پی صاحبان کی تلاش میں تگ ودو کے بعد بھی ان کے دفتروں کے چکر لگانے کے لیے صبر ایوب کہاں سے لائے گا۔ اس کے علاوہ توہین رسالت کے مدعی کی ایس پی کو درخواست ملزم کے لیے یورپ اورامریکہ جانے کے لیے ویزابن جائے گی۔

تاریخ کے واقعات کاتسلسل ہمیں بتلاتاہے کہ جہاں بھی توہین رسالت کاقانون موجود نہ ہو ؛اگر ہوبھی تووہ غیر موثر ہو توپھر جس کسی مسلمان کے سامنے اس گھنائونے جرم کاارتکاب ہو گا وہ قانون کواپنے ہاتھ میں لے کرمجرم کوموقع واردات پربھی سزا دے گاتوہین رسالت کاقانون ہونے کے باوجود بھی سرفروش لوگوں کی کمی نہیں جوتوہین رسالت کے ملزموں کے مقدمات میں تاخیر بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ چنانچہ لاہور ہی کی جیل کے اندر ہمارے ہی مقدمہ توہین رسالت کے ملزم یوسف کذاب کے متعلق ایک قیدی کو معلوم ہو گیاکہ اس گستاخ رسول کوضمانت پر رہا ہونے کے بعد یورپ کی گورنمنٹ ایجنسیاں اسے اپنے ملک میں لے جانے کے لیے منتظرہیں تو اس قیدی نے یوسف کذاب کواسی جیل کے اندر گولی مار کرہلاک کردیا اورساتھ ہی اقرارِجرم بھی کر لیا ۔ اس گستاخ رسول کومسلمانوں نے اپنے قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت بھی نہیں دی۔

کچھ عرصہ قبل لبنان کی ایک مشہور گلوکارہ نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز گیت گائے تو اس کے شوہر نے اس کاگلہ کاٹ دیا۔نیوزویک ماہ نومبر۲۰۰۴ء کی ایک رپورٹ کے مطابق جب ہالینڈ کے ایک بدقماش فلم ساز تھیودان گوغ نے قرآن ناطق صلی اللہ علیہ وسلم کی آیت وحی کی تضحیک اوربے حرمتی ایک نیم برہنہ ادکارہ سے کرائی توایک مراکشی نوجوان اٹھا اوراس نے کام تمام کر دیا معلوم نہیں مہذب یورپ کی انتہاپسند شہری اسلامی اورپیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایسی ناشائستہ اورانسانیت سوز شیطانی حرکتوں سے مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرتے رہتے ہیں انہیں روکنے کی بجائے الٹا مسلمانوں کو مور د الزام ٹھہرایا جاتا ہے چنانچہ اسی نیوز ویک کے ایک کالم نویس نے ہننگٹن(Huntington)کے نفرت انگیز نظریہ کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے:

That the clash of civilization taking place at tha global level batween muslims and christians.

مسلمانوں اورعیسائیوں کاتہذیبی تصادم اب عالمی سطح پرپہنچ گیاہے ملکی اورعالمی حالات کے تناظرمیں قانون توہین رسالت کے ضابطہ کارمیں ترمیم کے ذریعے اسے غیرموثر بنانے کی کوشش ملک اور قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہوگی۔ اس سے مسلمانوں کے ہیجان انگیز جذبات کاطوفانی بند کھل جائے گاجسے بند کرناحکومت کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ اس لیے ایسی ترمیم کی تنسیخ حکومت کادانش مندانہ اقدام ہوگا۔ قانون توہین رسالت منسوخ کرکے کوئی اسلامی ریاست اور حکومت زندہ اورسلامت نہیں رہ سکتی۔

اس لیے اس قانون وغیرہ موثر کرنے کے لیے طریقہ کارمیں ترمیم کاچور دروازہ استعمال کیا گیاہے اس کی غرض وغایت ترمیم بل میں نہیں لائی گئی جس کے بغیر ترمیمی بل ہی ناقابل پیش رفت تھاترمیم کی ایک وجہ جواخبارات کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے وہ یہ کہ توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال ہو رہاہے لوگوں کے خلاف اور خاص طور پر غیرمسلم اقلیتوں کے خلاف توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے درج ہورہے ہیں جس کا حوالہ انٹرنیشنل ہومن رائٹس امریکن بیورکی رپورٹ سال ۲۰۰۳ء میں دیاگیاہے یہ رپورٹ پاکستان کی ہیومن رائٹس این جی اوزکی فراہم کردہ ہے جس کاسربراہ پاکستان کاعیسائی بشپ ہے یہ رپورٹ خود بر خود غلط ہے سارے پاکستان میں بارہ سال کے دوران عیسائی یادیگر غیرمسلموں کے خلاف پندرہ سے زیادہ مقدمات دائر نہیں ہوئے جن میں تمام ملزمان اسلامی قانون شہادت کے غیرمعمولی معیار اور تحفظات کی بدولت بری ہوچکے ہیں۔

قانون رسالت کے بارے میں غلط استعمال ہونے کے اعتراض کاالزامی جواب یہ ہے کہ دنیاکاوہ کون ساقانون ہے جس کاغلط استعمال نہیں ہوتا۔ خود پاکستان میں جتنے تعزیراتی قوانین ہیں کیاان کابے دریغ غلط استعمال نہیں ہو رہا ؟ روزانہ سینکڑوں قتل ، چوری ، ڈکیتی،عصمت دری ،کرپشن کے مقدمات پولیس اورتھانوں کے ذریعے ہی عدالتوں میں آتے ہیں اور ان میں سے اکثر ہائیکورٹ پہنچ کربری ہوجاتے ہیں خود پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیربھٹوکے شوہرمسٹر آصف زرداری کے خلاف سرکار کی جانب سے کئی مقدمات درج ہوئے جن کی پاداش میں وہ آٹھ سال کے طویل عرصے تک جیل میں بند رہے۔ پاکستان میں ایسے سخت گیر قوانین (Draconian Laws) کی عمل داری ہے جو مرگ مفاجات سے کم نہیں۔ اسلامی ریاست میں ایسے خطرناک قوانین کو اوران کے بنیادی حقوق سے منافی پروسیجر کوتبدیل کرنے کی شدیدضرورت ہے لیکن برسراقتدارطبقہ اس کی تبدیلی کے لیے قطعا تیار نہیں۔

دوران جنگ جس طرح انسانوں کاقتل عام ہواہے اس سے زیادہ لاقانونیت کے ہاتھوں انسانیت کی تباہی آئی ہے اس سے قطع نظر اگر چند غلط مقدمات کی وجہ سے حکومت کو قانون توہین رسالت کے غلط استعمال کے بارے میں کچھ رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔

توکیاحکومت کویہ علم نہیںکہ غلط مقدمات کے سدِباب کے لیے نہایت موثر قانون خود تعزیرات پاکستان میں موجود ہے ۔قانون تعزیرات کی دفعہ194کی رو سے اگر کوئی شخص کسی بے گناہ کوسزائے عمر قید یا سزائے قتل دلانے کے ارادے سے غلط بیانی کرے یاجھوٹی شہادت دے تو اس کوعمر قید کی سزا دی جائے گی اوراگر کسی شخص پرسزائے موت لاگو ہو جائے اوربعد میں ثابت ہو کہ اس کی وجہ جھوٹی شہادت تھی توایسے جھوٹے گواہ یاگواہوں کو سزائے موت دی جائے گی اگر کبھی کہیں قانون توہین رسالت کا غلط استعمال ہواہے تومعلوم نہیں کیوں گورنمنٹ اس تعزیراتی قانون پر عملدرآمد سے گریزاں ہو رہی ہے عدالت بھی ازخو د نوٹس لے کر ایسے افراد کو قرارواقعی سزادے سکتی ہے جوتوہین رسالت کے نام پر جھوٹے مقدمات میں لوگوں کوملوث کرتے ہیں جھوٹے اور غلط مقدمات کے لیے پہلے ہی سے ملک میں تعزیری قانون موجودہے توپھرصرف قانون توہین رسالت کے طریق کارمیں ترمیم کا کیا جوازہے؟دوسرے سنگین جرائم کا بھی پاکستان میں جھوٹے مقدمات کے ذریعے غلط استعمال ہو رہا ہے۔ توان کے طریق کارمیں کوئی ترمیم کیوں نہیں کی جاتی ؟ صرف قانون توہین رسالت کے طریق کارمیں یہ ترمیم کیوں مسلط کر دی گی ہے؟عوام یہ سوچنے پر مجبورہیں کہ یہ ساری کارروائی امریکہ اوریورپ کے دبائو کانتیجہ ہے۔

Read 2392 times

Latest from Mureed e Murshad