AhnafMedia

نکاح ثانی …احیائے سنت

Rate this item
(2 votes)

نکاح ثانی …احیائے سنت

محمد الیاس گھمن

ماہنامہ بنات اہلسنت کے مدیر اعلی متکلم اسلام مولانامحمد الیاس گھمن حفظہ اللہ تعالی رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے ۔ مدیر اعلی کے عقد ثانی کی مبارک تقریب مرکزی جامع مسجد حسن ابدال میں منعقد ہوئی جس علماء و مشائخ اور اہل علاقہ کا ایک جم غفیر جمع تھا۔ مولانا عبد الشکور حقانی نے ابتدائی کلمات ارشاد فرمائے تقریب کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت سے شروع ہوا تلاوت کی سعادت قاری محمد اخلاق مدنی (امام فیصل مسجد اسلام آباد) نے حاصل کی قاری صاحب کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی اور لحن داوی میں قرآن سننے سے محفل میں مدعو شرکاء کی عجیب سی کیفیت ہورہی تھی اس کے بعد پیر طریقت مولانا قاضی ارشد الحسینی نے تعدد ازواج پر وارد ہونے والے شبہات کا عقلی و نقلی دلائل سے جواب دیا اور معاشرے میں پائے جانے والے شکوک وشبہات کو دور کیا اور نکاح ثانی کو معیوب سمجھنے کی بنا پر معاشرے میں جو فسادات رونماہو رہے ہیں ان کا بھی تفصیلی جائزہ لیا۔ بعدازاں متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ تعالی نے تقریبا آدھ گھنٹے کا انتہائی مدلل، پر مغز اور علمی بیان فرمایا اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں شادی کے حقیقی تصور کو واضح فرمایا۔ مولانا کے بیان کے بعد پیر طریقت مولانا عزیز الرحمن ہزاروی دامت برکاتہم خلیفہ مجاز شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ تعالی نے نکاح پڑھایا اور دعاکروائی۔

تقریب میں مولانا کے صاحب زادے عزیزم محمد عبداللہ آپ کے بھائی مولانا خبیب احمد گھمن ان کے علاوہ اٹک سے قاضی نثار الحسینی، لاہور سے مولانا عبد الشکور حقانی، مفتی زبیر احمد ، مولانا عابد جمشید ڈائریکٹر احناف میڈیا سروس ،بھائی شبیر احمد ثانی، راولپنڈی سے مولانا شفیق الرحمن، مفتی محمد اویس اور مولانا غلام ربانی، ایبٹ آباد سے مولانا محمد آصف، مانسہرہ سے مولانا ضیاء الرحمن اور مولانا حفیظ الرحمن، حسن ابدال سے مفتی زاہد، ماموں کانجن سے مولانا عبد القدوس گجر، مولانا افتخار، مولانا نوید اور مولانا شمیم ناگرہ، چارسدہ سے حاجی عبد الرحمن، ہری پور سے مولانا امان اللہ، آزاد کشمیر سے مولانا زاہد کشمیری اور کثیر تعداد میں معززین علاقہ اور علماء نے شرکت کی۔

اس مبارک تقریب میں متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے جو خطاب ارشاد فرمایا بتغییر یسیر اس کو نقل کیا جارہا ہے۔

بعدازخطبہ مسنونہ :

جا زندگی مدینے سے جھونکے ہوا کے لا

شاید کے حضور ہم سے خفا ہیں منا کے لا

کچھ ہم بھی اپنا چہرہ باطن سنوار لیں

ابوبکر سے وہ آئینے عشق و وفا کے لا

دنیا مسلماں پر بہت ہی تنگ ہو گئی

فاروق اعظم کے دور کے نقشے اٹھا کے لا

جن سے خدا نے ہمیں محروم کر دیا

عثمان کے وہ زاویے شرم و حیا کے لا

مغرب کی گلیوں میں مارا مارا نہ پھراے گدائے علم

دروازہ علم سے وہ خیرات جا کے لا

معزز علماء کرام! میرے نہایت واجب الاحترام بز رگو ار مسلک اہل السنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے غیورنوجوان دوستو اوربھائیو!سماعت فرمانے والی میری قابل صد احترام مائوواوربہنو!ہمارآج کایہ مختصرساپروگرام نکاح کامبارک اور مسنون عمل ہے جس کے لیے آپ حضرات یہاں تشریف لائے ۔ میں تفصیل کے ساتھ گفتگو نہیں کرنا چاہتا؛ میں چند ایک باتیں جو نہایت ضروری ہیں وہ آپ کی خدمت میں عرض کرتاہوں آپ میں سے اکثر افرادبہت اچھی طرح جانتے ہیں میں لطیفہ گوئی مولوی نہیں ہوں جواللہ نے تھوڑی سی زندگی عطافرمائی ہے اگر یہ مسلک کی خدمت میں لگ جائے اللہ کی قسم اللہ رب العزت کامجھ پراورآپ پربہت بڑااحسان ہے اس مختصر زندگی کوفضول مت سمجھیں اور وقت ضائع مت کریں۔ بس دعا کریں کہ اللہ ہم سب کو گناہوں سے بچائے ا ور عافیت کے ساتھ اپنے دین کی خدمت کے لیے قبول فرمائے ۔

میں نے صرف دوتین باتیں عرض کرنی ہیں:

نمبر1 : مسلمانوں اورکافروں کے درمیان تصور نکاح میںکیافرق ہے؟

مسلمانوں کے ہاں نکاح’’ عبادت‘‘ کاکام ہے کفار کے ہاں نکاح ’’عیاشی‘‘ کانام ہے ،اس لیے کافر نکاح کے موقع پر وہ اسباب اختیار کرتا ہے جن کاتعلق عیاشی کے ساتھ ہے مسلمان وہ اسباب اختیار کرتاہے جس کا تعلق عبادت کے ساتھ ہے۔اس لیے مسلمان نکاح کے موقع پراسباب عبادت اختیارکرتاہے اور کافر اسباب عیش اختیار کرتاہے ۔مسلمانوں کے نکاح میں خطبہ ہے،کافروں کے نکاح میں خطبہ نہیں۔ مسلمان کے نکاح میںگواہان اور ایجاب وقبول ہے۔ کفار کے ہاں نہیں، مسلمان کانکاح مسجد میں ؛کافر کا نہیں مسلمان کے ہاں نکاح کے موقع پر کلمات تشکر ہیں کفار کے ہاں نہیںہیںمیں علماء کی خدمت میں ہلکے ہلکے اشارے پیش کرتاہوں آپ مزید دلائل جمع کرکے گفتگو فرمائیں۔

کفر کی مسلسل محنت کی وجہ سے آج مسلمان کادماغ یہ بنا ہے کہ مسلمان بھی نکاح کو ’’عیاشی‘‘ سمجھنے لگاہے۔اس لیے کسی سے رشتہ مانگنابھی عجیب لگتاہے رشتہ دینابھی عجیب لگتاہے۔ میں آپ کی خدمت میں ایک اصول عرض کرتاہوں آپ نے فرق کرنا ہو کہ تقویٰ ہے یا نہیں ؟کسی قریبی دوست یابڑے سے آپ رشتہ مانگیں اگر آپ کا دوست صحیح اورمتقی ہوگاوہ عذر تو کرے گا ، محسوس نہیں کرے گااوراگر آپ کاصحیح دوست اورمتقی نہیں ہوگاعذر نہیں کرے گا،محسوس کرے گا ۔ دس سال سے مجھ سے دوستی اس لیے تھی کہ تو مجھ سے میری بیٹی مانگتا تمہیں شرم نہیں آتی میری بیٹی مانگتاہے یہ وہ کہے گاجودوستی میںغیرمخلص ہوگا جوصحیح دوست ہو گاوہ کہے گامیرا عذرہے ہماری نسبت کامسئلہ ہے یااس کی نسبت طے کردی ہے بچی کی عمرپوری نہیںہے کچھ مسائل ہیں عذر کر دے گا محسوس نہیں کرے گا ۔

ہمارے ایک دوست بڑی پیاری بات فرماتے ہیںکہ :

’’ہمارے ہاں یہ بھی ہے کہ دوستی اوروں سے ہوتی ہے رشتے اوروں سے ہوتے ہیں۔ میرا ایک بہت ہی قریبی دوست ہے وہ ہمارے گھر نہیں آسکتا کیوں کہ ہماری رشتہ داری نہیں ہے میں چاہتاہوں مگر نہیں آسکتا۔ اگرمیں اپنی بیٹی دے دوں اور اس کی بیٹی لے لوں تویہ دروازے ختم ہو جائیں گے اور اندر آئے گا ۔‘‘

نبوت کامزاج کیاہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک لاکھ چوبیس ہزارصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے سب سے قریبی جو چارتھے ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسے لی ہیں اور د و کو دی ہیں تو دوکے گھر میں آئے ہیں اوردو کے گھر میں گئے ہیں۔

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے صاف کردیے ہیں اب معاملہ آسان ہو گیا کہ نہیں؟ ہر روز ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں،یہ حضورکے یار ہیںنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ؛ابوبکررضی اللہ عنہ کی بھی خواہش ہے اورعمررضی اللہ عنہ کی بھی خواہش ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’عمر کافرق ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایاتم مانگ لو ۔تیری عمر کافرق تو نہیں ہے ناں!اسے دوستی کہتے ہیں ۔

میں نے عرض کیا کہ میں تفصیلاًگفتگونہیںکر رہامیں ہلکی ہلکی بات کے اشارے کر رہا ہوں تاکہ بات کوسمجھیں لیکن ہمارے معاشرے میں کیونکہ اس حیثیت کواس قدرعام کیا گیا ہے کہ لوگ نکاح کو’’عیاشی‘‘ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اب بتائیں اگرنکاح عبادت ہے توجوعبادت زیادہ کر سکتاہے وہ کرے جونہیںکرسکتا،نہ کرے!ہم کہتے ہیں دوسری شادی؟ ؟ ؟ تیسری شادی ؟ ؟ ؟ چوتھی شادی کیوں؟ہمارے ذہن میں جنسیت ہے۔ ہمارے ذہن میں خواہشات ہیں، ہمارے ذہن کا باغیانہ مزاج ہے اگر اس کو عبادت سمجھتے توتعجب نہ ہوتا اگرآپ یاکوئی دس نفل پڑھے بیس نفل پڑھے کوئی تعجب نہیں کرتاکوئی آدمی پوری رات پڑھے کوئی تعجب نہیں کرتا۔لیکن یہ اس کے لیے ہے جو اس عبادت کوسہہ سکتاہو۔حضرت کاندھلوی فرماتے ہیں کہ اگرکوئی شخص عشاء کی نماز کے بعد نفل شروع کرے دوگھنٹے پڑھے اور فجر کی نماز فوت ہوگئی۔ توعشاء کی نماز کے بعد دو گھٹے کے نفل چھوڑ کر فجر کی نمازباجماعت ادا کرے ۔ ہاں جو سہہ سکتا ہے وہ ضرور کرے ؛ہمارے امام امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُاللہ علیہ نے چالیس سال تک عشاء کے وضوسے فجر کی نماز پڑھی لیکن ہمارے مشائخ فرماتے ہیں کہ اگر آپ میں ہمت نہیں ہے تو عشاء کی باجماعت نماز ادا کرکے سو جائیں اور صبح فجر کی نماز باجماعت ادا کریں ۔

عورت بہت مضبوط رشتہ ہے اس کی آہ جب نکلتی ہے تو اس کے اور عرش کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہتا ۔ اس نے گھرکو چھوڑ دیا،والد کو چھوڑ دیا،بھائیوں کوچھوڑ دیا خاندان کوچھوڑ دیا صرف خاوند کے سہارے جیتی ہے جب یہ ظالم اسے مارتاہے ،دنیامیں ہے کوئی اس کی بات سننے والا!!!

دوسری بات: عبادات کی دو قسمیں ہیں :

نمبر 1: اجتماعی اورنمبر 2: انفرادی

ایک عبادت اجتماعی ہے! ایک عبادت انفرادی ہے ۔ اجتماعی عبادات میں اظہار مقصود ہوتا ہے انفرادی عبادات میں اخفاء مقصود ہوتاہے ۔جماعت کے ساتھ فرض نماز یہ اجتماعی عمل ہے، اس پر کیا ہونا چاہیے اظہار ۔تہجد یہ ہے انفرادی؛ اس پر کیاہوناچاہیے ؟اخفائ۔ اس لیے فرض نماز مسجد میں بہتر ہی نہیں ضروری ہے اور نفل نماز گھرمیں بہترہے کیونکہ نفل انفرادی عبادت اورفرض اجتماعی عبادت ہے۔

میں ایک مثال دیتاہوں:

اب آپ دیکھیں نکاح یہ اجتماعی عمل ہے یاانفرادی ؟نکاح ایک فرد سے نہیں ہوتابلکہ نکاح تب ہو گا جب دو افراد ہوں،اجتماعی ہوا ناں؟ تو اس کا اظہارہونا چاہیے ؟ یااخفائ؟اب جو نکاح کرکے اخفاء کرتے ہیں توقابل جرم ہیں۔کہتے ہیں کہ ہم نے شرعی نکاح کیا ہے دوگواہ بنائے ہیں۔

گواہوں کا مطلب کیا ہے؟

گواہ اس لیے تھے کہ آپ کانکاح توہوگیاآپ جا رہے ہیں اورکسی کو نہیں پتا کہ بیوی ہے کہ نہیں توجب اعلان کریں گے تواب سب کوپتا ہو گا ناںکہ اس کی بیوی ہے۔ تو گواہ اس لیے نہیں تھے کہ آپ دو بندوں کے درمیان ایجاب وقبول کریں۔ یہ گواہ اس لیے تھے کہ کم از کم دو فرد ہونے چاہئیں تاکہ ان کے اکھٹے چلنے پرکسی کواعتراض نہ ہو اور ہر کسی کوپتہ ہوکہ یہ خاوند بیوی ہیں

میں دوسرے لفظوں میں یوں کہتاہوںایک ہے نکاح کے لیے افراد اورایک ہے جب کوئی مطالبہ کرے کہ تمہارے نکاح کی دلیل کیاہے؟تو یہ دوشہادتیں اس لیے ہوتی ہیں اگر کوئی کیس عدالت میں آئے کوئی مسئلہ پیش آئے کبھی کوئی بندہ پوچھ لے توکم از کم دو افراد ایسے ہونے چاہئیں کہ جوکہہ سکیں کہ یہ خاوند اوربیوی ہیں۔ ورنہ شریعت کامنشاء گواہ نہیں ہے بلکہ شریعت کا مسئلہ(اعلنوا النکاح واجعلوہ فی المساجد)اعلانیہ نکاح ہواورکہاں کرو مسجد میں ۔کیونکہ مسلمانوں کی اجتماعی عبادت گاہ کون سی ہے؟ مسجد۔ آپ کے ذہن میں سوال آئے گا ’’اعلنوا‘‘ تو فرما دیا تو د و گواہ کیوں فرمائے ؟ گواہ عبادات میں نہیں ہوتے بلکہ گواہ معاملات کے لیے ہوتے ہیں اس لیے علماء کی مستقل یہ بحث ہے کہ نکاح عبادت ہے یامعاملہ ہے؟ اس لیے یہ ایک بحث چلتی ہے کہ کوئی بندہ نکاح نہ کرے نفل پڑھے یہ بہتر ہے؟ یانکاح کرے اور نفل نہ پڑھے یہ بہتر ہے؟ اصل اس کی وجہ کیاہے ؟ کیااس نکاح کامنشاء معاملہ ہے یاعبادت۔

توجنہوںنے معاملہ سمجھاانہوںنے نوافل کوبہتر کہاجنہوںنے عبادت سمجھاانہوں نے نکاح کوبہتر کہاکیونکہ اجتماعی عبادات انفرادی عبادات میں سب سے بہتر اوراعلیٰ ہوتی ہیں اور جب تک منشاء نہ سمجھ آئے توبات سمجھ میں نہیں آتی۔میں اس پر چھوٹی سی مثال دیتاہوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’الغیبۃ اشد من الزنیٰ ‘‘ غیبت زنا سے بڑا جرم ہے ۔

اس کی وجہ کیاہے ؟

سیدا الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

زنا کی منشائ’’ حب باہ‘‘ ہے اورغیبت کی منشاء ’’حب جاہ‘‘ ہے اور’’جاہ‘‘ یہ’’باہ‘‘ سے بڑا جرم ہے اس لیے غیبت زنا سے بڑاجرم ہے۔

میںبات سمجھانے کے لیے کہتا ہوں حضرت تھانوی کانام آیاالحمد للہ میں اس پر شکر ادا کرتاہوں کہ مجھے سلسلہ تھانوی سے بھی خانقاہ کی اجازت حاصل ہے اور سلسلہ مدنی سے بھی اجازت حاصل ہے دونوں اعزاز اللہ تعالی نے عطا فرمائے ہیں اس پر اللہ کاشکر ادا کرتے ہیں، یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے بلکہ اللہ کاشکر ہے ۔

حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا:

کہ کسی نے مجھ سے کہاکہ عوام میں آپ نے اتناعلمی بیان فرمایاکسی کوکچھ سمجھ نہیں آیا تو میں نے کہا کہ کہ سمجھ لیا تواچھا ۔نہیں سمجھ آیا توبہت اچھا۔انہوں نے کہا کہ حضرت ہمیں تو آپ کی یہ بات بھی آپ کی سمجھ نہیں آئی کہ سمجھ آئے تواچھا نہ سمجھ آئے تو بہت اچھا،توآپ نے فرمایااگر سمجھ آ گیا تواچھا اگرنہیں سمجھ آیاتوان کویہ احساس ہوجائے گا کہ مولانا کے دلائل مضبوط رکھتے ہیں گمراہ نہیں ہونگے تومجھ پر اعتماد ہوگاکہ حضرت کے پاس بہت علم ہے ۔

تومیں نے جوباتیں کی ان میں سے ایک یہ ہے کہ نکاح عبادت ہے۔ نمبر2نکاح میں اظہار ہے اعلان ہے ۔ چھپ کرنہیں۔ یہ ایسا شرعی عمل ہے کہ میں فتویٰ تونہیں دیتا،اگرکوئی مولوی ایسا عمل کرے تواسے کوڑوں کی سزا دینی چاہیے یہ ایسا مسئلہ ہے کہ نکاح بھی کرتے ہو تو چوری کیوں ؟

جہیز:

ہمارے ہاں ایک بات مشہور ہے کہ شریعت میں جہیز کا وجود نہیں جوجہیز کی بات کرتے ہیں ان کی دلیل ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کودیاجانے والاسامان ہے ۔ تواگر یہ دلیل مان لی جائے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑامساوات اور عدل قائم کرنے والادنیا میں کون ہو سکتا ہے ؟ ؟ ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں کتنی ہیں ایک یاچار؟

’’چار ‘‘

توجہیز کتنوں کا؟ایک کا یا چار کا؟آپ نے سناحضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کواتناسامان دیا۔ وجہ کیاہے اگرجہیز دینا تھا تو چاروں کو اتناسامان دیناچاہیے تھا۔

اس کی وجہ کیا ہے ؟

کہ حضرت زینب رضی اللہ عنھا کے خاوند یہ خود کفیل ہیں،حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا اورحضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کے خاوند یہ خودکفیل ہیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے خاوند یہ خودکفیل نہیں ہیں۔ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں ہیں اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کسی اورجگہ نکاح کرتے توسامان کس کے ذمہ تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ۔تویہ سامان کس لیے تھا؟ ہم اس کوجہیز سمجھ بیٹھے۔ توہم نے کہاکہ جہیز ہونا چاہیے میں شرم کی وجہ سے نہیں کہتا مرد کی غیرت کے خلاف ہے، کہ بیٹی بھی لے ،برتن بھی لے ، بیٹی بھی لے، گھر بھی لے،بیٹی بھی لے، گھر کاسامان بھی لے۔

مہمان میرے ہیں اوربرتن بھی میرے ذمہ ہیں یہ عجیب بات ہے کہ مہمان میراآتا ہے اور برتن وہ لا رہے ہیں یہ مرد کی غیرت کے خلاف ہیں۔ بحمداللہ تعالیٰ ہم نے چھوٹے بھائیوں کی شادیاں کی ہیں اور شرط یہ لگائی تھی کہ جہیز نہیں لیں گے، جب تک والدین کے گھرمیں تھی والدین کے ذمے، جب شادی ہو گئی توشوہر کے گھر آگئی توشوہرکے ذمہ ہے والدین کے ذمہ نہیں،آسان بات ہے ہمارے ہاں ایک مسئلہ چلتاہے حق مہر کا۔اچھا ہم بڑے عجیب لوگ ہیں برأت میں دو سو آدمی لے کرآنے ہیں اورجب وہ لڑکی والے پوچھیں کہ مولوی صاحب! حق مہر ؟ تو کہتے ہیں مہر فاطمی رکھ لیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے گھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاں سے تو برأت نہیں نکلی تھی ۔ دو سو بندوں کی برأت بھی لائیں گے دس لاکھ کاجہیز بھی لیں گے تو جب بچی کے حق مہر کا مسئلہ آئے گاتو کہتے ہیں تو مہر فاطمی کی بات کرو۔

میں اصولی بات کرتاہوں کہ حق مہر کتناہوناچاہیے؟

یہ کم از کم اتنارکھیں کہ اتناکم نہ ہوکہ لڑکی اپنی سہیلیوں کوبتانے میں شرم کرے اوراتنا نہ رکھیں کہ بوجھ ہو،ان کابھی خیال کریں اوراُن کابھی، یہ حق مہر ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ارشادات خیرہی خیر برکت ہی برکت ہیں آج کل جو اختلافات گھر گھر میں لڑائی جھگڑے اور فسادہیں ان کی وجہ ؟ہم جب نکاح کرتے ہیں توشریعت کے مطابق نہیں کرتے توجب توڑ پیدا ہوتا ہے تومولوی صاحب کے پاس دوڑتے ہیں۔

قیمتی اصول :

حضرت امی عائشہ رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اصول لیاوہ کون سا ؟

فرمایا: ’’ اس نکاح میں برکت زیادہ ہوتی ہے جس میں خرچہ کم ہو۔‘‘

ایک ہوتی ہے برکت ایک ہوتی ہے کثرت۔برکت اورکثرت میں کیافرق ہے؟ چیز زیادہ ہو اور فوائد کم ہوں تو اسے کہتے ہیں کثرت اوراگر چیز کم ہو فوائد زیادہ ہوں تواسے کہتے ہیں برکت۔دس بندوں کاکھاناایک بندہ کھائے تو یہ کیا؟کثرت۔ اورایک بندے کاکھانادس کھائیں اور پیٹ بھرجائے تواسے کیا کہتے ہیں؟برکت۔ ہم کثرت والے نہیں ہیں برکت والے ہیں۔

ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر نبوت کے اعلان کے بعد کتنے سال ہے؟23سال ہے۔ مگر حضورکے ہاںبرکت ہے کثرت اور برکت کو سمجھیں۔اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اعلان نبوت کے بعد23سال ہے۔

جولوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوقبر اطہر میں زندہ نہیں مانتے وہ لوگ یہاں ایک وسوسہ اور شبہ پیش کرتے ہیں کہ اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں توعمر1500 سال کے لگ بھگ بنتی ہے۔اگر حیات بھی مانتے ہو تونبوت کے بعد زندگی 23سال کیوں بتاتے ہو؟

یہ اشکال پیداکرکے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں حیات کو نہیں مانتے۔جب کوئی آپ سے یہ اشکال کرے توآپ اس سے پوچھیں کہ تیری عمر کتنی ہے تووہ کہے گا35سال۔ توآپ کہیں کب سے شروع ہوئی وہ کہے گاجب سے میں پیداہوا اس سے پوچھو جب توماں کے پیٹ میں تھا تو زندہ تھا یا نہیں ،اس نے کہنا ہے کہ ہاں زندہ تھا۔

آپ اس سے کہیں کہ پھرتو تیری عمر35سال اور6ماہ ہے تو6ماہ کیوں پی گیا؟یہ چھ ماہ بھی شمار کر نا جو تو ماں کے پیٹ میں زندہ رہا تو کل عمر 35سال اور 6ماہ !اس نے کہناکہ میں زندہ تھا مگر عمر شروع ہوتی ہے ولادت کے بعد سے ،پیٹ سے نہیں۔آپ اسے کہیں کہ نبی قبرمیں زندہ ہیں مگر عمر شمار نہیں کرتے،قبر میں زندہ ہو توحیات تب بھی پیٹ میں ہوتب بھی ۔نہ اس کو شمار کریں گے نہ اس کو،اس میں بھی زندہ اس میں بھی زندہ ۔پیٹ میں بھی شمارنہیں کرتے،قبرمیں بھی شمارنہیں کرتے۔

فورااشکال کرے گا؟

نبی قبرمیں زندہ ہیں؟آپ کہو گے :’’جی! زندہ ہیں۔‘‘ اس نے فوراًکہناہے:

کہ نبی کاحجرہ مبارک توچھوٹاساہے اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کادم نہیں گھٹتا؟؟ اب یہ دیکھیں یہ تزلزل کا شکارہے میںکہتاہوں کہ اس سے پوچھو جب توماں کے پیٹ میں زندہ تھا تو تیرادم نہیں گھٹتا تھا؟توکہے گا۔نہیں۔

اسے کہو کہ جو خداماں کے پیٹ میں زندہ رکھتاہے اورسانس نہیں گھٹنے دیتاتووہ خدانبی کو بھی زندہ رکھتا ہے اور اس کابھی سانس نہیں گھٹتا۔

وہ کہے گاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبرمیں زندہ ہیں؟ ہم کہیں گے :’’جی ہاں۔‘‘تواس نے فوراً شکوہ کرناہے توحضورصلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تورزق ملتاہے؟ تو ہم کہیں گے :’’ملتاہے۔‘‘ تو پھر وہ کہے گا کہ قضائے حاجت کے لیے کہاں جاتے ہیں؟اب اس سے پوچھو؟

اللہ تجھے ہدایت عطا فر ما دے ، اور ہدایت کے بعد جنت عطافرمائے تو تجھے جنت میں رزق ملے گاتوکھائے گاپئے گا؟توکہتاہے :’’ہاں! میں کھائو ں گا پیوں گا،تواس سے پوچھو کہ کیاتو قضائے حاجت کے لیے جہنم میں جائے گا؟جو تجھے رزق ملے گاتوقضائے حاجت کے لے کہاں جائے گا؟ اس نے فورا کہناہے کہ جنت میں قضائے حاجت نہیں ہوگی!

حضورصلی اللہ علیہ وسلم قبرمیں ہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر جنت ہے توجنت میں تو قضائے حاجت کی شکایت ہوتی ہی نہیں ۔ جوحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر صلوۃ وسلام پڑھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سماعت فرماتے ہیں اور اگر دور سے پڑھے تو ملائکہ لے جاتے ہیں۔

میں آیاتونکاح کی مبارک تقریب میں ہوں لیکن عقیدہ ہم خوشی میں بھی بیان کرتے ہیںاور غمی میں بھی ۔ہم نے جینااورمرناعقیدے پرہے۔میں نے کہاکہ جب ہم آئیں گے تو عقیدہ ضروربیان ہوگاعقیدہ پر سودے بازی (کمپرومائز )نہیں ہوسکتا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبرمیں زندہ ہیںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جائیں توصلوۃ وسلام سنتے ہیںاورحضورصلی اللہ علیہ وسلم مناسب سمجھیں توجواب دیتے ہیں نہیں سمجھتے توجواب نہیں دیتے ۔ایک شخص کہنے لگا کہ جواب دیتے ہیں توہم تونہیں سنتے۔ ہم کیسے مان لیں کہ جواب دیتے ہیں ؟

میں نے کہا ’’اللہ‘‘

آپ بھی مل کرکہیں!!! اللہ…

دلیل قرآن میں ہے کہ جب ہم بولتے ہیں تواللہ تعالی جواب بھی دیتے ہیں،آپ نے جواب سنا توجواب دیتے ہم نے سنانہیں مگر مان لیا کیونکہ قرآن میں ہے۔ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام پیش کیانبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ہم نے نہیں سنامگر ماناکیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو نہ مانے وہ بھی بے ایمان رب کاقرآن نہ مانے تب بھی بے ایمان ہے۔

(بیان کا بعض حصہ اختصار کی غرض سے حذف کیا جارہا ہے )

اللہ ہمیں اورآپ کوبات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے(آمین )اللہ کرے کہ ہمیں یہ باتیں سمجھ آجائیں اورعقیدہ بھی سمجھ آجائے اورنکاح اورشریعت بھی سمجھ آجائے۔اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کوسمجھ کرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔

Read 3570 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) نکاح ثانی …احیائے سنت

By: Cogent Devs - A Design & Development Company