AhnafMedia

عقل کے پجاری

Rate this item
(1 Vote)

عقل کے پجاری

مولانامحمدکلیم اللہ

’’امت مسلمہ پہلے ہی زخموں سے چُور چُور ہے پھر تم آئے دن چھوٹے چھوٹے مسائل پر مزید افتراق وانتشار پھیلاتے ہو بھلایہ کوئی بات ہے کہ جو حدیث کو نہ مانے اس کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا جائے کیا حدیث پر ایمان لانا قرآن میں لکھا ہوا ہے؟ کیا یہ لڑنے جھگڑنے اور منبروں پر باتیں بیان کرنے کی ہیں کہ فقہ کے منکر در پردہ یہودیت اوراسلام دشمن لابی کے ایجنڈے پرکام کر رہے ہیں۔اسلاف امت سے بیزار لوگ آخر ہیں تو مسلمان ہی نا۔کیوں کہتے ہوکہ اکابرکی بات مانی جائے ورنہ گمراہی وضلالت مقدر بنتی ہے ۔‘‘

بظاہر یہ خوش نما نعرہ ہے بظاہر یہ اتحادکا دعوی ہے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ نعرہ اپنے اندر جذبہ خیر سُگالی لیے ہوئے ہے میرے معاشرے کے دانشورکہلانے والے اسی نعرہ کو رٹ رٹا کر علماء کو سمجھانے بلکہ کوسنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ان کی زبان پر بہت جلد قرآن کریم کی آیت مبارکہ لا اکراہ فی الدین دین میں کوئی سختی نہیں ہے ؛ جاری ہوجاتا ہے بعض زیادہ پڑھے لکھے تو احکامِ خداوندی مثلاحدود وقصاص اور تعزیرات پر نکتہ چینی کرتے وقت بھی آیت کریمہ کو تلاوت فرما دیتے ہیں اور بے دھڑک کہہ اٹھتے ہیں :’’او چھوڑو یار!مولویوں کی باتیں،اسلام میں اتنی سختی نہیں۔‘‘

آئیے اس کافیصلہ قرآن کریم سے لیتے ہیں،قرآن کریم نے ابدی اورسرمدی کامیابی کے حصول کا راستہ خود ذکر فرمایا ہے صراط الذین انعمت علیھم۔ صراط مستقیم جس پر چل کر انسان نے کامیاب ہوناہے وہ ہے ’’صراط الذین انعمت علیھم۔‘‘ ان لوگوں کا رستہ جن پر اللہ وحدہ لاشریک نے انعام فرمایا دوسرے مقام پر ان انعام یافتہ لوگوں کی نشاندھی فرمائی کہ’’ انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین‘‘ انعام یافتہ لوگ انبیاء علیھم السلام ہیں، صدیقین ہیں، شہداء ہیں اورنیک صالح لوگ ۔ جو ان کے رستے پر چلے گا ظاہر ہے کامیاب ہو گا اور جو ان کے رستے سے منہ موڑے گا ان کی تعلیمات سے نظریں پھیرے گا وہ ہزار بار کہے کہ ’’میںکامیاب ہوں ۔‘‘کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔اس قرآنی فیصلہ کے ضمن میں چند باتیں قابل غور ہیں۔

نمبر۱: انبیاء ،صدیقین،شہداء اورصالحین اللہ کے ہاں کامیاب ہیں اور انعام یافتہ ہیں۔

نمبر۲: جوشخص بھی کامیابی کا خواہاں ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ان مذکورہ بالا طبقات کے رستے پر چلے ۔

نمبر۳: مذکورہ بالاطبقات کا راستہ بالکل صحیح ہے اسی لیے تو ان کو انعام یافتہ قرار دیا گیا ہے۔

نمبر۴: مذکورہ بالاطبقات کے رستے پرچلنے میں کوئی سختی اوردشواری نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ لایکلف اللہ نفسا الاوسعھا۔

نمبر۵: جوشخص ان کوغلط کہتاہے درحقیقت وہ خود غلطی پر ہے۔

نمبر۶: انہی طبقات اربعہ کے عقائد و نظریات ہی قابل قبول ہیں۔

نمبر۷: ان کے عقائد ومسائل افتراق وانتشار پر مبنی نہیں ہیں۔

نمبر۸: جب ان کے مسائل وعقائد بالکل سچے ہیں تو سچ بیان کرنے سے امن وسلامتی پھیلتی ہے نہ کہ فساد ۔

نمبر۹: جو شخص ان مسائل اور نظیرات کا مخالف ہے وہ خود بھٹکا ہوا ہے تو وہ دوسروں کوکیا راہ دکھلائے گا؟

نمبر۱۰: جو شخص خدا کے اس فیصلے کے بر عکس سوچتے ہیں وہ کبھی بھی اتحاد کے داعی نہیں ہوسکتے۔

اب بتلائیے! کیاعلمائے اہل السنۃ والجماعۃ کے پیش کردہ مسائل اورعقائد ان طبقات اربعہ سے ثابت نہیں ہیں؟ہیں اوریقیناًہیں ۔ تو پھر یہ کبھی بھی امت میں انتشار کی راہیں ہموار نہیں کریں گے۔ حدیث کوحجت نہ ماننے والاعملاًاس بات کا قائل بن رہا ہے کہ فرمانِ خدا کی سمجھ مجھے زیادہ ہے اور جس شخصیت پر خدا نے اپنا کلام نازل فرمایا اس کو اس کی تشریحات و توضیحات کا علم نہ تھا۔کیا یہ اپنی جان پر ظلم نہیں کر رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ وانزلناالیک الذکرلتبیین للناس۔‘‘ اے رسول! ہم نے تیری طرف قرآن نازل کیا تاکہ تو لوگوں کے سامنے اس کی وضاحت کر سکے حدیث رسول در حقیقت فرمان خدا کی توضیح وتشریح ہی ہے۔

اب فقہ ہی کو لیجئے!جیسے حدیث مبارک قرآن کی تشریح ہے اسی طرح فقہ بھی قرآن و حدیث کی عام فہم تشریح اور وضاحت کا نام ہے۔ ورنہ بیسیوں مسائل ایسے ہیں جو روز مرہ اربوں انسانوں کو پیش آتے رہتے ہیں اوران کا حل قرآن وحدیث سے ماخوذ فقہ ہی میں ہے۔اصل میں جہاںآکر دھوکہ لگتاہے وہ یہ ہے کہ فقہ کو قرآن وحدیث سے متصادم کوئی الگ چیزسمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ اس بات میں کوئی شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ فقہ کا کوئی مسئلہ آج تک کوئی مائی کا لعل قرآن وحدیث کے مخالف اور متصادم پیش نہیں کر سکا اور نہ ہی ان شاء اللہ کر سکے گا۔ ویسے بھی خود حضور اکرمe کا ارشاد گرامی موجود ہے کہ تشاورون الفقہاء فقہا سے مشاورت کیاکروگے اگر فقہاء قرآن وحدیث کے مخالفت ہوتے تو دینی امورمیں مشاورت کا حکم کیوں ارشاد فرمایا جاتا ؟ ؟

آخری مرحلہ…اور سب سے اہم مرحلہ وہ یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے ارشادات کا اکابر کی فہم و ذکاء پر اور ان کے تقویٰ وللہیت اعتماد کر کے مان لیاجائے۔ یا پھر اپنے ذہن نارسا کو عقل کل تسلیم کر لیا جائے۔ پس مسئلہ میں راہ اعتدال اہل السنۃ والجماعۃ کے پاس ہے وہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں حضور نبی کریمe نے خوشخبری دی ہے کہ یہ خیرکے زمانے والے ہیں ’’خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم‘‘ تو ان کے فہم و فراست، تفقہ واتقان ثقاہت وعدالت اور تقو ی پاکبازی پر اعتماد کر لیا جائے اورکہا جائے کہ ان کو ہم سے زیادہ دین کی سمجھ تھی اور وہ دینی مسائل کے استنباط واستخراج میںمہارت رکھتے تھے پھر ان کے مسائل و عقائد کو پوری امت مسلمہ نے تسلیم کیا ہے اگرخدا نخواستہ یہ لوگ غلط تھے تو پھر کیا دین اسلام چودہ سو سال سے غلط لوگوں کے ہاتھوں ہم تک پہنچا!!!مقام فکر ہے ان لوگوں کے لیے جو بڑی بے توجہی میں کہہ جاتے ہیں کہ فلاں امام کو صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں ۔ وہ یتیم فی الحدیث تھے ،کیا یہ لوگ اس طرف توجہ دینے کے لیے تیار نہیں کہ ان کا یہ جملہ ساری امت کوگمراہ کہنے کے مترادف ہو رہا ہے

سوچنے کی بات ہے اس اسے بار بار سوچ

اب رہا ان لوگوں کا رٹا ہوا جملہ کہ دین میں کوئی سختی نہیں، مولویوں نے یہ ساری باتیں خود بنا رکھی ہیں، یہ رحم دل نہیں ہوتے، ان میں خیر خواہی اور ہمدردی نہیں ہے لا اکراہ فی الدین

ان ’’دانشورانِ قوم ‘‘کی خدمت میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ آیت کریمہ جس نبی پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے وہ اس امرالہی کوزیادہ جانتے ہیں یاآپ؟ جب وہ چورکی سزاپرہاتھ کاٹنے کاحکم دیتے ہیں حدود و قصاص کوجاری فرماتے ہیں حد سرقہ(چوری کی سزا) حد شرب خمر (شراب پینے کی سزا) حد زنا(زناکرنے کی سزا) اور معاشرتی برائیوں کی روک تھام کے لیے حدود و قصاص نافذ فرماتے ہیں توکیاآپ ان سے بھی زیادہ رحم دل اورشفیق ہیں؟ان کے بارے میں تو خود اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ رحمت للعالمین ہیں۔ اصل میں بات کچھ اور ہے اگر اجازت ہو تو عرض کر دوں!

جب ہم ان قوانین کے نفاذ کی بات کرتے ہیں جو اسلامی ہیں اوران میں معاشرے میں برائیوں اور فتنہ وفساد روکنے کی استعداد ہے تو صرف وہی لوگ سر اٹھاتے ہیں جن کے دل میں چور ہوتا ہے جو خود شرابی کبابی ہوتے ہیں، جوخود سودکے رسیا اور زناکے عادی ہوتے ہیں انہیں پتا ہوتا ہے کہ اگر یہ قوانین نافذ ہوگئے تو ہماری خیر نہیں۔

الحمدللہ!اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ فضل اور بار بار شکر و امتنان ہے کہ ہمیں یہ خوف نہیں کہ اگر اسلامی حدود جاری ہوگئیں تو ہمیں سر بازار کوڑے لگیں گے یا سر مقتل ہم کو تختہ دار پر جھولنا پڑے گا ۔ ہم مطمئن ہیںشاید میری بات قدرے سخت ہوگئی ہے لیکن یقین جانیے کہ حقیقت ایسے ہی ہے آخر میں خصوصا با اثر شخصیات جن کو خدا نے ہمارا حکمران بنایا ہے وہ حدود اللہ اور شریعت اسلامی میں ثابت شدہ قوانین میں نہ تو ترمیم کا مطالبہ کریں اور نہ ہی اسلامی احکامات کو بدلنے کی کوشش فرمائیں یہ یہود کا وطیرہ اور شیوہ رہا ہے کہ وہ احکامات خدا وندی کو نذرانوں کے لیے بدل دیاکرتے تھے لہذا اسلامی احکامات کی رونق کومدھم نہ کیا جائے اورخلاف شریعت مطالبات کرنا چھوڑ دیے جائیں ورنہ اللہ تعالیٰ کااعلان ہے کہ’’ان بطش ربک لشدید‘‘ تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے ۔ آئیے! اپنے رب کی طرف لوٹ آئیںاورجھگڑے فساد کو امن وآشتی میں بدل دیں۔

Read 2456 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) عقل کے پجاری

By: Cogent Devs - A Design & Development Company