AhnafMedia

عدالت مزاج عمرڈھونڈتی ہے

Rate this item
(1 Vote)

عدالت مزاج عمرڈھونڈتی ہے

حافظ سراج الدین

دو نوجوان ایک آدمی کو پکڑے سیدنا عمر tکی محفل میں داخل ہوتے ہیں۔ سیدنا عمرt ان سے پوچھتے ہیں: ’’کیا جرم کیا ہے اس شخص نے؟‘‘

’’یا امیر المؤمنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔‘‘

’’ کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟‘‘ سیدنا عمر tپوچھتے ہیں۔

سیدنا عمرt اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں: ’’کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟‘‘ وہ شخص کہتا ہے : ’’جی ہاں امیر المؤمنین، ان کا باپ میرے ہاتھوں قتل ہو گیا ہے۔‘‘

’’کیوں قتل کیا ہے؟‘‘ سیدنا عمر tپوچھتے ہیں۔

’’ یا امیر المؤمنین!ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔‘‘

’’پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اس کی سزا۔ ‘‘ سیدنا عمر tکہتے ہیں۔

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اس کے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے؟ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں؟ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟

ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمرtکو مطلب ہی کیا ہے!! کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر tپر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرt کو روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے حضرت عمرtکا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے :’’ا ے امیر المؤمنین! اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس جانے دیجئے، میرے والد نے مرتے وقت ایک خزانہ چھوڑا تھا۔ میرا ایک چھوٹا بھائی ہے جو میرے بعد اس کا تنہا وارث ہوگا اور اس کو اس کی جگہ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں صرف میں اس کے بارے میں جانتا ہوں، مجھے جانے دیجئے میں اس کو بتانے کے بعد واپس آ جاؤں گا۔‘‘

سیدنا عمر tکہتے ہیں: ’’کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟‘‘

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی ایک بھی تو ایسا نہیں ہے جو اس کا نام تک جانتا ہو۔ اس کے قبیلے، خیمے یا گھر کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔ کون ضمانت دے اس کی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرtسے کوئی بات کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ایسا ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ بھی سکے۔

محفل میں موجود صحابہ رضی اللہ عنہم پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود حضرت عمرt بھی متاثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بھائی کو اس کی وراثت سے محروم کردیا جائے؟ اس کو بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیا جائے؟ یا پھر اس کو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے گا؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا؟

خود سیدنا عمرt سر جھکائے بیٹھے ہیں اس صورتحال پر کچھ دیر بعد سر اٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ’’ اللہ کی رضا کے لیے معاف کر دو اس شخص کو۔‘‘

’’ نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اس کو چھوڑ دیں؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجک کے سنا دیتے ہیں۔

حضرت عمر t ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ’’اے لوگو! ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟‘‘

حضرت ابو ذر غِفاری t اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ’’میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!‘‘

سیدنا عمرt کہتے ہیں ’’ابوذر! اس نے قتل کیا ہے۔‘‘

’’چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو۔‘‘ ابوذرt اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔ ’’جانتے ہو اسے؟‘‘ ’’ نہیں جانتا۔‘‘ ’’ تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟‘‘ ’’میں نے اس کے چہرے پر مؤمنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، ان شاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔‘‘ ’’ابوذر! دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔‘‘ ’’امیر المؤمنین، اللہ مالک ہے۔‘‘ ابوذرt اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔ سیدنا عمر t سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، اپنے بھائی کو اس کا مال لوٹانے ،کچھ ضروری تیاری کرنے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد ان کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔ اور پھر تین راتوں کے بعد، عمرtبھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں الصلاۃ جامعۃ کی منادی پھر جاتی ہے، نماز کی ادائیگی کے بعد نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔ توکل وزہد کے بادشاہ حضرت ابو ذرt بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر حضرت عمرt کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ’’کدھر ہے وہ آدمی؟‘‘ سیدنا عمرtسوال کرتے ہیں۔ ’’معلوم نہیں یا امیر المؤمنین‘‘ حضرت ابوذرt مختصر جواب دیتے ہیں۔ پورا مجمع آسمان کے مغربی کنارے کی جانب دیکھتا ہے جدھر سورج ڈوبنے کے لیے معمول سے کچھ زیادہ ہی تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟ یہ سچ ہے کہ حضرت ابوذرt سیدنا عمرt کے دل میں بستے ہیں، حضرت عمرtسے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمرt دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذرt کے حوالے کر دیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔ سیدنا ابوذرtپورے اطمینان سے بیٹھے ہیں اور ان کا چہرہ اتنا ہی پرسکون ہے جتنا عام دنوں میںہوا کرتا ہے۔ لوگ دم سادھے بیٹھے ہیں ،آنے والے لمحات کا تصور کرکے ہلکے ہلکے لرزرہے ہیں۔ سورج اب سرخی کا لبادہ اتار کر پیلاہٹ میں ڈوبتا جارہا ہے لیکن اس نوجوان کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔ سب کو یقین ہوچلا ہے کہ اب قصاص میں بطور ضامن سیدنا ابوذر غفاریt کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ اچانک دور سے گردوغبار اٹھتا نظر آتا ہے، ایک نقاب پوش شخص گھوڑے کی پشت پر تیزی سے قریب آتا جارہا ہے۔ لوگ بے چینی سے پہلو بدلتے ہیں، اتنے میں گھڑ سوار قریب آکر چہرے سے کپڑا اتارتا ہے۔ اللہ اکبر! یہ تو وہی نوجوان ہے! یہ تو وہی ہے جس سے قصاص لیا جانا ہے! خود کو موت کے منہ میں ڈالنے آگیا ہے! کس ماں کا جنا ہے یہ! وعدے کا اتنا پاسدار! اللہ اکبر! بے ساختہ حضرت عمرt کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔ لوگوں کے چہرے جوش سے سرخ ہورہے ہیں، کچھ کی آنکھوں میں نمی بھی ہے۔ سیدنا عمرt نوجوان کے سلام کا جواب دے کر حضرت ابوذر tکی طرف پلٹتے ہیں: ’’ابوذر! تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی؟‘‘ ’’اس نوجوان کا چہرہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے۔‘‘ اسی اطمینان سے جواب آیا سیدنا عمرtنے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا ’’ کیا کہتے ہو اب؟‘‘ نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا ’’اے امیر المؤمنین! ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں۔‘‘ سیدنا عمرt اللہ اکبر پکار اٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے… اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے… اے ابو ذرt…! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے… اور اے شخص…! اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے… اور اے امیر المؤمنینt…! اللہ تجھے تیرے عدل پر جزائے خیر دے…

Read 2300 times

DARULIFTA

Visit: DARUL IFTA

Islahun Nisa

Visit: Islahun Nisa

Latest Items

Contact us

Markaz Ahlus Sunnah Wal Jama'h, 87 SB, Lahore Road, Sargodha.

  • Cell: +(92) 
You are here: Home Islamic Articles (Urdu) عدالت مزاج عمرڈھونڈتی ہے

By: Cogent Devs - A Design & Development Company