Print this page

سبحانک ھذابہتان عظیم

Rate this item
(7 votes)

سبحانک ھذابہتان عظیم

مولانا محمدرضوان عزیز

آج کل موبائل SMS کے ذریعے اور بعض کورعلم زبانی دینی مسائل میں شتربے مہار کی طرح منہ شگافیاں کرنے اور علماءاسلام پر بہتان بازی میں مصروف رہتے ہیں۔اور یہ علاماتِ قیامت میں سے ہے کہ معاملات نااہل لوگوں کے سپرد ہوجائیں گے۔حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

فَإِذَا ضُيِّعَتْ الْأَمَانَةُ فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ قَالَ كَيْفَ إِضَاعَتُهَا قَالَ إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرْ السَّاعَةَ ۔

( بخاری شریف رقم57 (

کہ جب امانت ضائع ہونے لگے تو قیامت کا انتظار کرو ۔صحابی ؓنے پوچھا امانت کیسے ضائع ہوتی ہے ؟تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب معاملات نااہل لوگوں کے ہاتھ سپرد کیے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔

’’إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ “

کی وضاحت کرتے ہوئے ابومحمد محمود بن احمد بن موسیٰ بن احمد بن حسین بدرالدین العینی الحنفی ؒم855ھ فرماتے ہیں

کہ ” المراد به جنس الأمور التي تتعلق بالدين كالخلافة والقضاء والإفتاء “

(عمدة القاری باب رفع الامانة رقم 6946 (

امر سے مراد وہ امور ہیں جو دین سے متعلقہ ہیں جیسے خلافت ،سلطنت،امارة ،قضا ، اور منصب افتاءہے۔لیکن جیسا کہ بقیہ تمام امورمیں بدقسمتی سے نااہل متولی بنے بیٹھے ہیں اسی طرح دین میں منصب افتاءپر ہرکس وناکس قبضہ کیے ہوئے ہے ۔سچی بات ہے جب وراثت نبوی ﷺ میراثیوں کے ہاتھ چلی جائے تو پھر حقیقی ورثاءکی پگڑیاں ہی اچھالی جائیں گی۔جیسا کہ زیر بحث مسئلہ میں بعض نا اہل لوگوں کی فتویٰ بازی سے پورے ملک میں ایک عجیب سی بے چینی ،اضطراب اور بدمزگی پھیل گئی اور بعض ’’اوریجنل جاہل‘‘ اور بعض ’’نوآموز تعلیم آفتہ‘‘ کواپنی تحقیق کے سامنے پوری دنیا کے اصحاب علم وفضل بونے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اس مسئلہ پر بے دریغ لب کشائی کرتے ہوئے فرقہ واریت کی آگ کو مزید بڑھا وادیا ہے۔ بلکہ بعض لوگ تو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے یا یہود ونصاریٰ کی خوشنودی کی خاطردین اسلام کو لونڈوں کے ہاتھ کا کھلونا بنانے کے لئے منظم سازش کے تحت عوام کو مسند تحقیق پر بٹھانے کو بضد ہیں اور اس زہریلے وبائی جراثیم کو پھیلانے کےلئے اپنے الحدیث شمارہ59 ص47پر یوں لکھتے ہیں ”اصول کی بناءپر اہل حدیث کے نزدیک ہر ذی شعورمسلمان کویہ حق حاصل ہے کہ وہ جملہ افراد امت کے فتاویٰ ان کے خیالات کو کتاب وسنت پر پیش کرے جو موافق ہوں سرآنکھوں پر تسلیم کرے ورنہ ترک کرے“۔

(ماہواری ”الحدیث“ ش59 ص47(

اب فیصلہ آپ کریں کہ معاملہ ذی شعور کو سپرد کرنا چاہئے یا اہل کو ۔بہت سے باشعور ایسے ہوتے ہیں جو کسی مسئلہ کے اہل نہیں ہوتے۔ آپ ﷺ نے معاملات’’اہل‘‘افراد کے سپرد کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ ہر ذی شعور کے سپرد ۔یہ کیسا چکر ہے جو یہ چل رہے ہیں اور کیسی چال ہے جو یہ کھیل رہے ہیں۔

” اللھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذبک من شرورھم“

یہی آتا ہے بس یا اور بھی کچھ تم کو آتا ہے

امیدیں توڑنا ، دل خون کرنا، بدگماں رہنا

اب اسلاف امت اور فقہاءاسلام کے فتاویٰ کی تحقیق بے تحقیق نسل کرے گی۔فیا للعجب!

اب اصل مسئلہ سمجھنے سے بیشتر لوگ اس حدیث مبارکہ کو دل کی آنکھوں سے پڑھ کے دیکھ لیں، شاید یہ حدیث ان کے لئے غیرمحتاط گفتگوکرنے سے توبہ کرنے کا ذریعہ بن جائے :

” عن ابن كعب بن مالك عن أبيه : قال سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من طلب العلم ليجاري به العلماء أو ليماري به السفهاء أو يصرف به وجوه الناس إليه أدخله الله النار “۔

)سنن الترمذی رقم2578 ،مصنف ابن ابی شیبہ رقم 26650 (

ترجمہ: اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر اپنی نیت کو ٹٹول لیں کہ آپ حضرات اس طرح کے مسائل عوام الناس میں کس نیت سے پھیلاتے ہیں ؟فقہی جزئیات اور نصوص شرعیہ سے آپ اگر جاہل ہیں تو علماءسے پوچھ لیں ۔اگر کوئی مسئلہ آپ کی عقل سے بالا ہو تو ہر بالائے عقل مسئلہ کو خلاف عقل قرار دے کر شور وغوغاکرنا دانش مندانہ طریقہ نہیں ہے۔

انداز بیاں گرچہ مرا شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

اب آئیے نفس مسئلہ کی طرف !مسئلہ یہ ہے کہ تداوی بالحرام جائز ہے یانہیں؟جان بچانے کے لئے انسان حرام استعمال کرسکتا ہے یا نہیں؟ اس بات میں فقہاءکرام کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے ۔بعض فقہاءنے حرام سے علاج کو جائز قرار دیا ہے اور بعض نے ناجائز۔ جانبین کے پاس اپنے اپنے موقف پر مضبوط دلائل ہیں ۔اب آئیے ہم ائمہ اربعہ ؒ کے موقف کو دیکھتے ہیں کہ ان حضرات کا موقف حرام چیز سے کسی مرض کا علاج کرنے کے بارے میں کیا ہے؟

حنبلی مذہب:

ابومحمد موفق الدین عبداللہ بن احمد بن محمد المعروف ابن قدامۃ حنبلی ؒم620 ھ اپنی مایہ ناز تصنیف المغنی میں فرماتے ہیں:

ولا يجوز التداوي بمحرم ولا بشيء فيه محرم مثل ألبان الاتن ولحم شيء من المحرمات ولا شرب الخمر للتداوي به۔

(المغنی کتاب الاطعمة ج11 ص83رقم 7824(

حرام چیزوں سے علاج جائز نہیں اور نہ ہی ایسی چیز سے جس میں حرام چیز شامل ہو جیسے گدھیوں کا دودھ اور حرام جانوروں کے گوشت سے علاج کرنااور علاج کے لئے شراب پینا بھی جائز نہیں۔

شافعی مذہب:

ابوزکریا محی الدین یحییٰ بن شرف النووی م 676ھ ”المجموع شرح مہذب “میں فرماتے ہیں:

أن مذهبنا جواز التداوى بجميع النجاسات سوى المسكر۔

(المجموع شرح مہذب باب مذھب العلماءمن احکام المضطر)

کہ ہمارے(شوافع کے )مذہب میں نشہ آور اشیاءکے علاوہ تمام نجس اشیاءکو بطور دواءاستعمال کرنا جائز ہے( جیسا کہ حدیث عرینہ میں مذکور ہے)۔

مالکی مذہب:

حنابلہ کی طرح مالکیہ بھی تدادی بالحرام کسی صورت جائز قرار نہیں دیتے۔چنانچہ امام قرطبی ؒفرماتے ہیں کہ

وإن كانت الميتة قائمة بعينها فقد قال سحنون : لا يتداوى بها بحال ولا بالخنزير۔

(تفسیرقرطبی البقرہ :213 (

اگر مردہ جانور بعینہ موجود ہو تو اس کے بارے میں امام سحنونؒ فرماتے ہیں کہ اس کے ذریعے کسی حال میں علاج نہیں کیا جائیگااورنہ ہی خنزیرسے علاج کیا جائے گا۔

اور اسی طرح امام مواقؒ نے التاج والاکلیل میں ارشاد فرمایا ہے :

فلیطالع ثم ان شئت.

حنفی مذہب:

سرتاج الائمہ فخرالمحدثین امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی م 150 ھ فرماتے ہیں:

لایجوز شربہ (ای بول مایوکل لحمہ )للتداوی وغیرہ بقولہ ان اللہ تعالیٰ لم یجعل شفاءکم فیما حرم علیکمالخ

(المبسوط للسرخسی باب الوضوءوالغسل ج1ص54(

امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک علاج وغیرہ کے لئے ان جانوروں کا بھی پیشاب پینا جائز نہیں ہے جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ،کیونکہ حضورﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ جو چیزیں تم پر حرام کی گئی ہیں ان کے اندر تمہارے لئے شفاءنہیں ہے ۔

یہ مذہب تو تھا امام اعظم ابوحنیفہ ؒکا ،اگرچہ احناف میں سے امام ابویوسف ؒاور امام محمدؒ نے اس مسئلہ میں امام صاحب سے اختلاف کیا ہے اور مجتہد کو اجتہادمیں اختلاف رائے کا حق ہوتا ہے۔اب آئیے درمختار کی اس عبارت کی طرف جو مریض کے علاج کے لئے بطور علاج خون سے پیشانی پر فاتحہ لکھنے کے متعلق ہے ۔تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وہ امام ابوحنیفہؒ کا مذہب ہی نہیں کہ اس عبارت کو بنیاد بنا کر احناف کو مورد الزام ٹھہرایا جائے ۔وہ بات امام ابوبکراسکارف کی ہے ۔لہذا جمیع احناف کو الزام دینا ہی غلط ہے ۔دوسری بات یہ کہ شامی کی وہ عبارت جس پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ مریض کی حالت اضطرار کے وقت کے لئے ہے اور حالت اضطرار میں تو پیشانی پر خون سے سورہ فاتحہ لکھنے سے بھی زیادہ برے کام کرنے کی شریعت نے اجازت دی ہے جیساکہ تفسیر درمنثور میں إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ (النحل:106)کی تفسیر میں حضرت عمار بن یاسرؓکا واقعہ بیان کیا ہے ۔سنن کبریٰ للبیہقی میں مذکور حدیث کو امام جلال الدین سیوطیؒ تفسیر درمنثور میں نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اخذالمشرکون عمار بن یاسر فلم یترکوہ حتی سب النبی ﷺ وذکر اٰلھتھم بخیر ثم ترکوہ فلما اتی النبی ﷺ قال شریارسول اللہ ماترکت حتی نلت منک وذکرت ذالک بخیر قال کیف تجد قلبک قال مطمئناًبالایمان قال ان عدوا فعد“

(تفسیر درمنثور ج4ص248 السنن الکبریٰ للبیہقی ج8 ص3319مستدرک للحاکم رقم:3319 معرفة السنن والآثاررقم:5288(

یعنی حضرت عمار بن یاسرکو مشرکین مکہ نے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور آپﷺ کی شان اقدس میں نازیبا کلمات اور بتوں کے بارے میں اچھے کلمات نکلوانے کے بعد چھوڑا ۔یہ آپﷺ کے پاس آئے اور آکر اپنا ماجرا بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت (جب کفریہ کلمات کہہ رہے تھے)تمھارے دل کی کیفیت کیا تھی؟ تو انہوں نےعرض کیا کہ میرا دل ایمان پر مطمئن تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ان عدوا فعد‘‘ اگر دوبارہ کبھی ایسے حالات پیش آجائیں تو پھر ایسے کلمات کہہ کر جان چھڑا لینا۔

اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوئی کہ انسان اپنی جان بچانے کے لئے اگر کفریہ کلمات بھی کہہ دیے جائیں جبکہ دل ایمان پر مطمئن ہو تو جائز ہے۔ جب شریعت نے انسانی جان کو اتنی اہمیت دی ہے کہ حالت اضطرار میں اس کے لئے حرام تک کھانے کی اور کفریہ کلمات کہنے کی اجازت دی ہے کہ اس کی جان بچ جائے تو امام ابوبکراسکارف ؒ نے اگر انسانی جان بچانے کے لئے محض ایک طریق علاج کے طور پر یہ قول اختیار کیا ہے تو انہیں مورد طعن ٹھہرانا کیا جائز ہے؟ اگرچہ احناف کا نظریہ” تداوی بالحرا م حرام ‘‘ہے ۔لیکن اس کے برعکس جن حضرات نے دوسرا قول اختیار کیا ہے قرآن وسنت سے دلائل ان کے پاس بھی موجود ہیں جو ہر صاحب نظر کو دعوت انصاف دیتے ہیں۔

اب چند وہ احادیث ملاحظہ فرمائیں جن میں آپﷺ نے علاج بالحرام کی رخصت دی ہے ۔

:1عن عرفجة بن اسعد قال اصیب انفی یوم الکلاب فی الجاھلیة فاتخذت انفا من ورق فانتن علی فامرنی رسول اللہ ﷺ ان اتخذ انفا من ذھب۔

(جامع ترمذی رقم:1770 ،ابوداود رقم:4232 ،سنن النسائی الصغریٰ رقم:5161 ،مسند احمدرقم:19757،صحیح ابن حبان رقم:4901 ،ھکذا فی کتب کثیرة(

حضرت عرفجہ بن اسعد ؓ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ہونے والی جنگ کلاب میں میری ناک کٹ گئی تو میں نے چاندی کی ناک لگوالی جس سے بدبوآنے لگی تو آپ ﷺ نے مجھے سونے کی ناک لگوانے کا حکم دیا۔

2: عن قتادة ان انس بن مالک ان رسول اللہ ﷺ رخص للزبیر بن العوام وعبدالرحمٰن بن عوف فی قمیصیین من حریرمن وجع کان بھما حکة۔

(صحیح بخاری رقم:5391،سنن ابن ماجہ رقم :3582،صحیح ابن حبان رقم:5523)

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے زبیر بن العوام اور عبدالرحمان بن عوفؓ کو ریشم کی قمیصیں پہننے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کے جسم پر خارش تھی ۔

ان متعدد طرق سے مروی احادیث کو پڑھئے اور مردوں کے لئے سونے اور ریشم کی حرمت والی احادیث کو بھی پڑھئے تاکہ مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہو:

’’عن معاویة نھیٰ رسول اللہ ﷺ عن لبس الذھب والحریر.

(مسند احمد بن حنبل رقم:16430(

حضرت معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سونے اور ریشم کے پہننے سے منع فرما یا ہے ۔ اور دوسری حدیث میں مزید صراحت سے ارشاد فرمایا:

عن ابی موسیٰ اشعری قال قال رسول اللہ ﷺ احل الذھب والحریر لاناث امتی وحرم علی ذکورھا.

(مسند احمد بن حنبل رقم:19008(

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں پر حلال کیا گیا ہے اور مردوں پر حرام کیا گیاہے۔

اب ممانعت والی اور اجازت والی احادیث کو سامنے رکھ کر ذرا فیصلہ کیجئے اگر معترضین کے کوچہ سے دیانت کا جنازہ ابھی نہیں نکلا تو واضح ہو جائے گا عام قانون اور ہوتا ہے لیکن مجبور مضطر کا استثنیٰ ہر جگہ ہوتا ہے اور یہ رخصت کسی فقیہ کی خود ساختہ نہیں بلکہ خود شریعت ہی کا مسئلہ ہے۔

اب شامی کی جس عبارت کو ہدف تنقید بنایا گیا اس کے ناقدین دو گروہ ہیں ایک جماعت بریلویہ ہے دوسری جماعت اہل حدیث۔

اول الذکر کی علمی پسماندگی تو خود ان کے نزدیک بھی مسلمہ حقیقت ہے ۔ مُردوں کے تیجے،دسویں اور چالیسویں کھانے کی مشغولیت نے انہیں تحصیل علم سے روک رکھا ہے ورنہ اہل السنۃ والجماعۃ علماءدیوبندپراعتراضات کی بوچھاڑ کرنے سے پہلے ذرا ”اپنی منجی ہیٹ ڈنگوری“(اپنی چارپائی کے نیچے لکڑی)توپھیر لیتے اور اپنے علماءسے پوچھ لیتے کہ ’شامی‘جس کی عبارت آپ ہمیں سناکر دیوبندیوں پر اعتراض کرنے کو بھیج رہے ہیں یہ شامی کہیں ہماری اور ان کی مشترکہ کتاب تو نہیں؟ اگر مشترکہ ہے تو جیسے اعتراض ا ن پر ہے ویسے ہی ہم پر بھی ہے۔رہا دوسرا فرقہ اہل حدیث تو یہ ویسے ہی” اَنّے کتے ہرنا ں مگر“(اندھے کتے ہرنوں کے شکاری) کے مصداق اپنے موجودہ اردو خواں علماءکے اندھے مقلد ہیں۔ بلاتحقیق اصل کتاب کو دیکھے بغیر سنی سنائی باتیں ہر مجلس میں اچھالناان کا مشغلہ ہے۔ اگر ان میں عقل ہوتی تو ضرور اپنے علماءسے پوچھتے کہ اگر احناف کی کتاب میں خون سے سورہ فاتحہ کا لکھنا جائز لکھا ہے تو خود ہمارے مسلک اہل حدیث کی کتابوں میں جو لکھا ہے: ’’والمنی طاھر وغسلہ وفرک الیابس منہ ازکی واولیٰ وکذالک الدم۔۔۔۔۔الخ.

(عرف الجادی ص16 حصہ دوم مکتبہ شوکت الاسلام بنگلور(

کہ منی پاک ہے اور اسی طرح خون بھی پاک مع سوائے دم حیض کے۔تو اپنے علماءسے پوچھو کہ جب خون ویسے ہی مسلک اہل حدیث میں پاک ہے تو پاک چیز سے قرآن لکھنا کس آیت یا حدیث کی رو سے حرام ہے؟؟؟

اسی طرح (فتاوی ثنائیہ ج2ص67مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور)میں بھی لکھا ہے کہ گائے کا پیشاب جس کو نفرت ہو نہ پیئے لیکن حلت کا اعتقادرکھے۔

اس لیے اس امت کے حال پر رحم کھائیں انہیں سیدھے سیدھے مسائل بتائیں جو ان کی سمجھ میں آسکیں اور ان پر عمل کرنا ان کے لئے آسان ہو۔ خود امام بخاری ؒصحیح بخاری میں حضرت علیؓ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ :

”حدثوا الناس بما یعرفون اتحبون ان یکذب اللہ ورسولہ“

لوگوں سے اتنی بات کروجتنی وہ آسانی سے ہضم کرلیں کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکی تکذیب کی جائے۔

اس لئے لوگوں کے جذبات اور عقیدت کو غلط استعمال کرتے ہوئے ائمہ اسلاف سے بدگمانی پیدا کرنے کی بجائے اپنی مشغولیت کےلئے کوئی اور مشغلہ ڈھونڈ لیں۔ پھر ان حضرات کی بددیانتی بھی انتہاءکی ہے کہ ایک عبارت پیش کریں گے اور ساتھ ہی دوسری عبارت جو اس کی تردیدکررہی ہوتی ہے اس کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرجائیں گے۔ اب شامی ہی کی دوسری عبارت ملاحظہ فرمائیں۔ شامی میں امام حاوی قدسی ؒسے منقول ہے :

حتی یخشیٰ علیہ وقد علم انہ لو کتب فاتحة الکتاب اوالاخلاص بذالک الدم علی جبھتہ ینقطع فلایرخص فیہ

(شامی باب التداوی بالمحرم ج 29ص118(

یعنی اگر نکسیر والے کو موت کا خطرہ ہو اور اسے کسی ذریعہ سے اس بات کا یقین ہوجائے کہ اگر نکسیر کے خون سے اس کی پیشانی پر سورہ فاتحہ یا اخلاص لکھی جائے تو یکسر ختم ہوجائے گی اور جان بچ جائے گی پھر بھی خون کے ساتھ لکھنے کی اجازت نہیں الخ

لہذا معلوم ہواکہ احناف کا قطعاً یہ نظریہ نہیں ہے کہ خون یا پیشاب وغیرہ سے سورہ فاتحہ لکھنا جائز ہے، اور جو حضرات مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی کی طرف منسوب کرکے الزام تراشی کرتے ہیں تو حضرت مفتی صاحب دامت فیوضہم بھی باضابطہ اس سے اعلان براءت کرچکے ہیں۔حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم سے جو سوال کیا گیا اور حضرت نے جو اس پر فتویٰ ارشاد فرمایا وہ من وعن ہدیہ قارئین ہے ۔

سوال :

مکرم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بعض حضرات جابجا ایسے پمفلٹ تقسیم کررہے ہیں جن میں یہ مذکور ہے کہ آپ نے علاج کی غرض سے پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنے کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے اور آپ اسے جائز سمجھتے ہیں۔براہ کرم اس بارے میں وضاحت فرمائیں کہ کیا آپ نے ایسا کوئی فتویٰ دیا ہے ۔

محمدابراہیم

جواب:

میں نے ایسا کوئی فتویٰ نہیں دیا پیشاب یا کسی بھی نجاست سےقرآن کریم کی کوئی آیت لکھنا بالکل حرام ہے اور میں معاذاللہ اسے جائز قرار دینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جن لوگوں نے میری طرف یہ فتویٰ منسوب کیا ہے ان کی تردید کرچکا ہوں جوروزنامہ اسلام کی 12اگست 2004؁ءکی اشاعت میں شائع ہوچکی ہے ۔میری جس کتاب کا حوالہ میری طرف منسوب کرکے دیا جا رہا ہے اس کی حقیقت بھی میں نے اپنی تردید میں واضح کردی ہے ،اس کے باوجود جو لوگ اس فتوے کو میری طرف منسوب کررہے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ سے اور کسی پر بہتان لگانے سے ڈرناچاہئے ۔واللہ سبحانہ اعلم 9رجب 1425؁ھ

فتوی نمبر 47/730(بحوالہ فتاویٰ عثمانی ج1ص 200(

اس لئے اب جو بھی یہ بات احناف کے مفتیٰ بہا قول کے طور پر پیش کرے گا وہ بہتان کا مرتکب ہوگا وہ اس دن کو یاد کرے جب سب راز کھل جائیں گے اور وہاں کی عزت دائمی عزت ہوگی اور وہاں کی رسوائی دائمی رسوائی ہوگی۔

Read 5334 times

Latest from Mureed e Murshad