Questionsقسم کا کفارہ
Mufti Mahtab Hussain Staff asked 6 years ago

میرا یہ سوال ہے کہ آج کل لوگ ہر دوسری بات پر قسم اٹھاتے ہیں! اگر کوئی قسم اٹھا کر توڑ دے تو اس کا کیا کفارہ ہے ؟

وجاہت خان

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 6 years ago

بات بات پہ قسم کھانا یہ درست نہیں ہے ہاں سچ کو سچ ، جھوٹ کو جھوٹ ،حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے اور جائز کام میں قسم اٹھانا درست ہے اور اس وقت جب قسم کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو پھر قسم بھی صرف اللہ کی ہی اٹھائے ، اللہ کے علاوہ کسی اورچیز مثلاً اپنے آباء کی یا مخالف کے کسی بڑے کی یا اللہ پاک کے مقربین کی قسم نہ ہو کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ کے شرکاء میں سے کسی کی بھی قسم جائز نہیں اور اللہ کی قسم بھی صرف سچی قسم اٹھایا کرو چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لاَ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ وَلاَ بِأُمَّهَاتِكُمْ وَلاَ بِالأَنْدَادِ وَلاَ تَحْلِفُوا إِلاَّ بِاللَّهِ وَلاَ تَحْلِفُوا بِاللَّهِ إِلاَّ وَأَنْتُمْ صَادِقُونَ”
سنن ابوداؤد۔کتاب الاَیمان حدیث نمبر 3248
اس لیے جب بغیر قسم کے چھٹکارہ نہ ہو توبامر ِمجبوری قسم کی اجازت ہے بشرطیکہ قسم کسی سچی بات پہ ہو کیونکہ جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ مَصْبُورَةٍ كَاذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ بِوَجْهِهِ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ”
سنن ابو داؤد کتاب الاَیمان حدیث نمبر 3244
مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ جو آدمی جان بوجھ کر یا قصداً جھوٹی قسم کھا لے تو وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے ۔
لہذا اس قسم کی احادیث کومدنظر رکھتے ہوئے قسم اٹھانے میں بہت احتیاط کرنی چاہیے قسم کھا کر اگر آدمی توڑ دیے تو اسکا کفارہ ہوتا ہے لیکن اگر جھوٹی قسم کھا لے کہ میں نے یہ کام کیا ہے ، حالانکہ نہیں کیا تھا یا یہ کہ میں نے یہ نہیں کیا ، حالانکہ کیا تھا تو اس کا کفارہ سِوائے توبہ واِستغفار کے کچھ نہیں۔
الحلف على أمر ماض يتعمد الكذب فيه فهذه اليمين يأثم فيها صاحبها لقوله عليه الصلاة والسلام من حلف كاذبا أدخله الله النار ولا كفارة فيها إلا التوبة والاستغفار
ہدایہ جلد 2 ص 476 کتاب الاَیمان
اگر آدمی نے قسم اٹھا کر توڑ دی تو اس پر کفارہ لازم ہوتا ہے کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کرے یا پھر دس مسکینوں کو کپڑے دے یا پھر دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے ان کاموں کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر تین دن مسلسل لگاتار روزہ رکھے ۔
“فصل في الكفارة : قال كفارة اليمين عتق رقبة يجزي فيها ما يجزي في الظهار وإن شاء كسا عشرة مساكين كل وااحد ثوبا فما زاد وأدناه ما يجوز فيه الصلاة وإن شاء أطعم عشرة مساكين كالإطعام في كفارة الظهار والأصل فيه قوله تعالى { فكفارته إطعام عشرة مساكين } الآية وكلمة أو للتخيير فكان الواجب أحد الأشياء الثلاثة قال فإن لم يقدر على أحد الأشياء الثلاثة صام ثلاثة ايام متتابعات ”
ہدایہ جلد 2 ص 479 کتاب الاَیمان