QuestionsCategory: تقلید”فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ“ کے مخاطب فقہاء کرام ہیں
Mufti Shabbir Ahmad Staff asked 5 years ago

دریافت یہ کرنا ہے کہ آیت قرآنی ”فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ“ الآیۃ کے ذیل میں کیا کسی معتمد مفسر نے ”تنازعتم“ کی ضمیر میں فقہاء کرام کو ذکر کیا ہے؟

فقط والسلام

آپ کا خادم

سعد مذکر قاسمی دہلوی، ہندوستان

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 5 years ago

جواب:
 
جی ہاں ذکر کیا ہے۔ چند مفسرین کے  حوالہ جات یہ ہیں:
 
1: امام ابو بکر احمد الرازی الجصاص  (م307ھ)  فرماتے ہیں :
و قولہ تعالیٰ عقیب ذلک”فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُول”یدل علی ان اولی الامر ہم الفقہاء لانہ امر سائر الناس بطاعتہم ثم قال:”فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ”فامر اولی الامر برد المتنازع فیہ الی کتاب اللہ و سنۃ نبیہ، اذا کانت العامۃ و من لیس من اہل العلم لیست ہذہ منزلتہم لانہم لا یعرفون کیفیۃ الرد الی کتاب اللہ و السنۃ و وجوہ دلائلہما علی احکام الحوادث فثبت انہ خطاب للعلماء.
(احکام القرآن للجصاص: ج 2 ص299)
ترجمہ:  اس آیت (یعنی: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم الآیۃ) کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان”فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُول”اس بات کی دلیل ہے کہ ”اولی الامر“ سے مراد فقہاء ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ پھر اللہ نے فرمایا:”فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ”اس میں ”اولو الامر“ کو حکم دیا ہے کہ  اختلافی امور کو کتاب اللہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت  کی طرف لوٹاؤ۔ ہاں جب عام لوگ ہوں یا ایسے افراد ہوں جو لوگ اہلِ علم نہیں تو ان  کا یہ منصب نہیں ہے کیونکہ عام لوگوں کو اس بات  کا پتا نہیں ہوتا کہ اختلافی امور کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کس طرح لوٹایا جاتا ہے؟! اور انہیں اس بات کا بھی علم نہیں ہوتا کہ پیش آمدہ مسائل میں دلائل کس طرح کارگر ہوتے ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ یہ خطاب علماء کو ہے۔
 
2:علامہ ابو الحسن على بن محمد  المعروف بالكيا هراسى  (م504ھ) لکھتے ہیں:
وقوله : (فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ):  يدل على أن أولي الأمر هم الفقهاء ، لأنه أمر سائر الناس بطاعتهم ، وأمر أولي الأمر برد المتنازع فيه إلى كتاب اللّه ، وسنة نبيه عليه السلام ، وليس لغير العلماء معرفة كيفية الرد إلى الكتاب والسنة.
(احکام القرآن للکیاھراسی: ج2 ص472)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ﴾ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد فقہاء ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو حکم دیا ہے کہ فقہاء کی اطاعت کریں اور اولو الامر (فقہاء) کو حکم دیا ہے کہ اختلافی امور کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف لوٹائیں اس لیے کہ غیر علماء کے پاس اختلافی امور کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف لوٹانے کی اہلیت نہیں ہوتی۔
 
3: امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی (م671ھ) اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
فأمر تعالٰى برد المتنازع فيه إلى كتاب الله وسنة نبيه صلى الله عليه وسلم ، وليس لغير العلماء معرفة كيفية الرد إلى الكتاب والسنة ؛ ويدل هذا على صحة كون سؤال العلماء واجبا ، وامتثال فتواهم لازما.
(الجامع لاحکام القرآن: ج1 ص913)
ترجمہ:  اللہ تعالیٰ نے اختلافی امور کو کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے غیر علماء اختلافی امور کو کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی طرف لوٹانے سے واقف نہیں ہوتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ کہ علماء سے سوال کرنا واجب اور ان کے فتویٰ پر عمل پیرا ہونا لازم ہے۔
 
4: علامہ محمود آلوسی بغدادی (م1270ھ) لکھتے ہیں:
وجعل بعضهم : الخطاب فيه لأولي الأمر على الالتفات ليصح إرادة العلماء لأن للمجتهدين أن ينازع بعضهم بعضا مجادلة ومحاجة فيكون المراد أمرهم بالتمسك بما يقتضيه الدليل.
(روح المعانی: ج4 ص66)
ترجمہ: بعض مفسرین نے یہ توجیہ کی ہے کہ ﴿فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ﴾ میں خطاب بطریق التفات اولی الامر کو ہے تاکہ اس سے علماء مراد لینا صحیح ہو جائے کیونکہ مجتہدین کو اختلاف اور دلائل کی گفتگو کا حق حاصل ہے۔ اب مطلب یہ ہو گا کہ اللہ نے اولو الامر کو حکم دیا ہے کہ وہ دلیل کے مطابق عمل کریں۔
 
فائدہ:
علامہ آلوسی کے حوالے میں ”التفات“ کا لفظ ہے جس کا مطلب  خطاب کو ایک جہت سے دوسری جہت کی طرف پھیرنا ہے۔ اب علامہ آلوسی کی ذکر کردہ توجیہ کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ  نے  ”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم“ میں مخاطب عوام ہیں۔ پھر ”فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ“ میں خطاب کا رخ مخاطب یعنی عوام سے پھیر کر غائبین یعنی اولو الامر کی طرف کیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
(مولانا) محمد الیاس گھمن
23۔ مارچ 2017ء