QuestionsCategory: طہارتمعذور کے احکام
Mufti Shabbir Ahmad Staff asked 5 years ago

ایک شخص کو مسلسل پیشاب کے قطرے آتے رہتے  ہوں یا مسلسل ہوا خارج ہوتی رہتی ہو یا اس کے جسم میں کوئی ایسا زخم ہو جس سے مسلسل خون یا پانی نکلتا رہتا ہو یا مسلسل نکسیر بہتی رہتی ہو۔ اسی طرح اگر کسی خاتون کو حیض اور نفاس کے علاوہ مسلسل خون آتا رہتا ہو۔ اب ایسے لوگ نماز کس طرح ادا کریں؟ کیونکہ کئی مرتبہ نماز کے دوران یہ مسائل پیش آ جاتے ہیں کہ قطرہ نکل آیا، گیس خارج ہو گئی، زخم سے پانی نکل آیا یا خون نکل آیا۔

تو ایسے شخص کے نماز ادا کرنے کی کیا صورت ہو گی اور اس کے کپڑوں کا کیا حکم ہو گا؟

سائلہ: محمد  ابراہیم، امریکہ

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 5 years ago

جواب:
اگر کسی کو قطرات کے نکلنے، خون بہنے، ہوا خارج ہونے، نکسیر بہنے یا حیض و نفاس کے علاوہ خون آنے کا مرض لاحق ہو اور ایک نماز کے پورے وقت میں اس کو اتنا وقت نہ مل پاتا ہو کہ وہ مکمل طہارت کے ساتھ اس وقت کے فرض ادا کرسکے توایسا شخص  شرعاً ”معذور“  کہلاتا ہے۔ ”معذور شرعی“ کے حوالے سے چند اہم مسائل یہ ہیں:
 
[۱]: معذور شرعی کا حکم یہ ہے کہ ہر نماز کے وقت وضو کر لیا کرے، جب تک وہ وقت رہے گا تب تک اس کا وضو باقى رہے گا۔ اس وضو سے فرض، نفل، ادا، قضاء وغیرہ جو چاہے نمازیں پڑھ سکتا ہے۔  جب تک وقت رہے گا اس کا وضو باوجود اس عذر کے  نہیں ٹوٹے گا بلکہ قائم سمجھا جائے گا چاہے قطرات نکلیں، خون بہے، ہوا خارج ہو، نکسیر بہے یا حیض و نفاس کے علاوہ خون آئے۔  ہاں جب وقت نکل جائے تو  وضو ٹوٹ جائے گا اور دوبارہ کرنا پڑے گا۔ مثلاً  کسی معذور نے فجر کے وقت وضو کیا تو جب سورج نکل آیا تو اس کا وضو ختم ہوگیا، سورج نکلنے کے بعد جب وضو کرے تو ظہر کی نماز کا وقت ختم ہونے تک اس کا وضو رہے گا، اور جب ظہر کا وقت ختم ہوا تو اس کا وضو بھی جاتا رہے گا۔ الغرض ہر وقتِ نماز کے لئے ایک بار وضو کرلینا کافی ہے۔
 
[۲]: معذور جس بیمارى میں مبتلا ہے اس کے علاوہ اگر کوئى اور بات ایسى پائى جائے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تو اس کی وجہ سے وضو جاتا رہے گا اور  دوبارہ کرنا پڑے گا۔ مثلاً کسى کو ایسى نکسیر پھوٹى کہ کسى طرح بند نہیں ہوتى اور اس نے ظہر کے وقت وضو کر لیا تو جب تک ظہر کا وقت رہے گا نکسیر کے خون کى وجہ سے اس کا وضو نہ ٹوٹے گا، البتہ اگر پیشاب پاخانہ آ گىا یا سوئى چبھ گئى اور اس سے خون نکل پڑا تو اب وضو ٹوٹ جائے گا اور پھر سے کرنا پڑے گا۔
 
[۳]: ایک شرط ”معذور بننے“ کے لئے ہے اور ایک شرط ”معذور رہنے“ کے لئے۔ معذور بننے کے لئے شرط تو اوپر بیان ہو چکی ہے کہ اس عذر کے ساتھ اسے ایک نماز کے پورے وقت میں اس کو اتنا وقت نہ مل پاتا ہو کہ وہ مکمل طہارت کے ساتھ اس وقت کے فرض ادا کرسکے توایسا شخص  شرعاً ”معذور“  کہلائے گا ۔  جب کوئی شخص ایک بار معذور بن جائے تو اس کے ”معذور رہنے“ کی شرط اور  حد یہ ہے کہ اس وقت کے اندر اس کو کم از کم ایک بار یہ عذر پیش آئے، اگر پورا وقت گزر گیا اور اس کو یہ عذر پیش نہیں آیا (مثلاً  ریح وغیرہ خارج نہیں ہوئی)  تو اب  یہ معذور نہیں  رہا۔
 
[۴]: معذور شخص کے کپڑوں کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑوں کی صفائی ممکن ہو یعنی کپڑے دھونے سے نماز کے دوران یہ کپڑے پاک رہ سکتے ہوں تو پھر نماز کی ابتداء میں کپڑے صاف رکھنا ضروری ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو پھر کپڑوں کو لگی نجاست کی صفائی ضروری نہیں اور اس شخص پر کپڑے دھونا لازمی نہیں۔
اگر ان امراض کے لاحق شخص کو اتنا وقت مل پاتا ہو کہ وہ مکمل طہارت کے ساتھ اس وقت کے فرض ادا کرسکتا ہو  توایسا شخص  شرعاً ”معذور“  نہیں ہو گا اور اس پر مذکورہ احکام جاری نہیں ہوں گے۔ ایسے شخص کو اگر وضو کے بعد نماز سے پہلے یا نماز کے اندر یہی عارضہ ہو جائے (مثلاً ریح وغیرہ خارج ہو جائے) تو اس کو دوبارہ وضو کرکے نماز پڑھنا ضروری ہوگا۔
 
دلائل:
¨  حضرت فاطمہ بنت ابی جیش رضی اللہ عنہا کو استحاضہ  کا مرض لاحق تھا (یعنی حیض و نفاس کے علاوہ خون  جاری رہتا تھا اوربند نہ ہوتا تھا) انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس مسئلہ کا حکم پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
تَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ حَتّٰى يَجِيءَ ذَلِكَ الْوَقْتُ.
(صحیح البخاری: ج1 ص36 باب غسل الدم)
ترجمہ: ہر نماز کے (وقت) کےلیے وضوء کرتی رہ یہاں تک کہ پھر حیض کے دن آ جائیں۔
 اس سے معلوم ہو اکہ جو عورت استحاضہ کی بیماری میں مبتلا ہو اس کا وضوء ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے مستقل وضوء کرے۔ البتہ حیض کے دنوں میں نماز نہ پڑھے کہ ان دنوں میں نماز معاف ہے۔
¨  علامہ علاء الدین محمد بن علی الحصکفی (متوفیٰ1088ھ) فرماتے ہیں:
(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه ( أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة)…  ( إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث…. ( وهذا شرط ) العذر ( في حق الابتداء وفي ) حق ( البقاء كفي وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة ( وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة).
(الدر المختار: ج1 ص305)
ترجمہ: جس کو پیشاب کے قطرے آتے رہتے ہوں اور رکتے نہ ہوں، پیٹ جاری ہو، ہوا خارج ہوتی رہتی ہو یا عورت کو استحاضہ کا خون جاری ہو اور اس کی یہ بیماری ایک کامل فرض نماز کو محیط ہو یعنی اس پورے وقت میں اسے اتنا بھی وقت نہ مل پاتا ہو جس میں وہ طہارت کے ساتھ بغیر حدث (یعنی بے وضو ہونے) کے اپنے فرض ادا کر سکے تو ایسا شخص معذور کہلائے گا۔ معذور بننے کی شرط تو یہی تھی البتہ معذور رہنے کی شرط یہ ہے کہ وقت کے اندر اندر اسے کم از کم ایک بار یہ عذر پیش آئے۔ اور اگر پورا وقت گزر گیا اور اسے یہ عذر پیش نہیں آیا، تو اب یہ معذور نہیں رہے گا۔
¨ مشہور امام شیخ طاہر بن احمد بن  عبدالرشید  البخاری (متوفیٰ 542ھ) فرماتے ہیں:
فان اصاب ثوبہ من ذٰلک الدم فعلیہ ان یغسل ان کان مفیدا،  امااذالم یکن مفیداً بان کان مصیبہ مرۃً اخریٰ_ ثانیاً وثالثاً_ حینئذٍ لایفترض علیہ غسلہ.
(خلاصۃ الفتاویٰ: ج 1ص 16 الفصل الثالث)
ترجمہ: معذور کے کپڑوں پر اگر خون لگ جائے اور دھونا مفید ہو  تو اسے دھونا ضروری ہے۔ ہاں اگر دھونا مفید نہ ہو یعنی پھر خون کی وجہ سے کپڑے – دوسری یا تیسری بار- پھر خراب ہو جاتے ہوں اب کپڑے دھونا لازمی نہیں۔
 واللہ اعلم بالصواب
محمد الیاس گھمن
             25۔ نومبر 2017ء