السلام علیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے متعلق کہ
یہاں مسقط (عمان) میں ہم امام و مؤذن و خادمیین مسجد کو عربی لوگ صدقہ فطر میں چاول یا پیسے دیتے ہیں جبکہ ہم ائمہ یا مؤذنین سب صاحب استطاعت ہوتے ہیں اور ہم لوگ خود بھی اپنے مال کا صدقہ واجبہ یا نافلہ ادا کرتے ہیں۔ تو اگر ہمیں عربی لوگ غریب سمجھ کر صدقہ فطر دیں تو کیا ہمارے لیے اس کا لینا جائز ہے؟ اور کیا ان عربیوں کا صدقہ فطر ادا ہو جاتا ہے۔
اس کا تفصیلی جواب ارشاد فرما دیں ۔ جزاکم اللہ خیرا ً
جواب
واضح رہے کہ صدقہ فطر کے مستحق وہ لوگ ہیں جو خود صاحب استطاعت نہ ہوں یعنی ان کے پاس اتنا مال ضروریات سے زائد نہیں جو کہ ساڑھے سات تولہ سونا، یاساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت تک پہنچے ۔
لہذا اگر آپ کے پاس اتنا مال موجود ہے اور کسی نے آپ کو مستحق سمجھ کر صدقہ فطر دے دیا اور اس کی تحقیق بھی کی ہے تو اس کا صدقہ فطر ادا ہوگیا اب آپ کو چائیے کہ کسی مستحق شخص کو یہ مال دے دیں لیکن اگر اس نے تحقیق کے بغیر آپ کو دیا ہے تو اس کی ادائیگی نہیں ہوگی بلکہ دوبارہ ادا کرنا لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دار الافتاء
مرکز اہل السنۃ والجماعۃ سرگودھا پاکستان
3 اکتوبر 2020ء
Please login or Register to submit your answer