QuestionsCategory: قرآن وتفسیرسورۃ النور کی آیت نمبر 35 کی تفسیر
Fasihuddin Gani asked 4 years ago

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

قرآن مجید میں آیت ہے:

﴿اَللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ﴾

(سورۃ النور: 35)

اس آیت کا ترجمہ اورخلاصہ بیان فرما دیں کہ اس میں کیا کہا جا رہا ہے؟

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 4 years ago

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
 
آیت کا ترجمہ یہ ہے:
 اللہ تمام آسمانوں اور زمین کا نور ہے  اس کے نور کی مثال کچھ یوں ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ رکھا ہو  چراغ ایک شیشے میں ہو، شیشہ ایسا ہو جیسے ایک ستارا، موتی کی طرح چمکتا ہوا، وہ چراغ ایسے برکت والے درخت یعنی زیتون سے روشن کیا جائے جو نہ (صرف) مشرقی ہو نہ (صرف) مغربی  ایسا لگتا ہو کہ اس کا تیل خود ہی روشنی دیدے گا۔ چاہے اسے آگ بھی نہ لگے،  نور بالائے نور، اللہ اپنے نور تک جسے چاہتا ہے، پہنچا دیتا ہے، اور اللہ لوگوں کے فائدے کے لیے تمثیلیں بیان کرتا ہے، اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
 
اور اس آیت  کی تفسیر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر ”معارف القرآن“ سے پیش کی جاتی ہے:
 
آیت مذکورہ کو اہل علم آیت نور لکھتے ہیں کیونکہ اس میں نور ایمان اور ظلمت کفر کو بڑی تفصیلی مثال سے سمجھایا گیا۔
 
نور کی تعریف :
 
امام غزالی نے یہ فرمائی الظاہر بنفسہ والمظھر لغیرہ، یعنی خود اپنی ذات سے ظاہر اور روشن ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر و روشن کرنے والا ہو ۔ اور تفسیر مظہری میں ہے کہ نور دراصل اس کی کیفیت کا نام ہے جس کو انسان کی قوت باصرہ پہلے ادراک کرتی ہے اور پھر اس کے ذریعہ ان تمام چیزوں کا ادراک کرتی ہے جو آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں جیسے آفتاب اور چاند کی شعاعیں ان کے مقابل اجسام کثیفہ پر پڑ کر اول اس چیز کو روشن کر دیتی ہیں پھر اس سے شعاعیں منعکس ہو کر دوسری چیزوں کو روشن کرتی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ لفظ نور کا اپنے لغوی اور عرفی معنے کے اعتبار سے حق تعالیٰ جل شانہ کی ذات پر اطلاق نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جسم اور جسمانیات سب سے بری اور وراء الوری ہے اس لئے آیت مذکورہ میں جو حق تعالیٰ کے لئے لفظ نور کا اطلاق ہوا ہے اس کے معنے باتفاق ائمہ تفسیر منور یعنی روشن کرنے والے کے ہیں یا پھر صیغہ مبالغہ کی طرح صاحب نور کو نور سے تعبیر کردیا گیا جیسے صاحب کرم کو کرم اور صاحب عدل کو عدل کہہ دیا جاتا ہے۔ اور معنے آیت کے وہ ہیں جو خلاصہ تفسیر میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نور بخشنے والے ہیں آسمان و زمین کو اور اس میں بسنے والی سب مخلوق کو اور مراد اس نور سے نور ہدایت ہے۔ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس سے اس کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔ اللہ ھادی اھل السموات والارض ۔
 
نور مومن :
 
مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ الایتہ اللہ تعالیٰ کا نور ہدایت جو مومن کے قلب میں آتا ہے۔ یہ اس کی ایک عجیب مثال ہے جیسا کہ ابن جریر نے حضرت ابی بن کعب سے اس کی تفسیر میں نقل کیا ہے ھو المومن الذی جعل اللہ الایمان والقران فی صدرہ فضرب اللہ مثلہ فقال اللہ نور السموت والارض فبداء بنور نفسہ ثم ذکر نور للمومن فقال مثل نور من اٰمن بہ فکان ابی بن کعب یقراءھا مثل نور من امن بہ (ابن کثیر)
 
یعنی یہ مثال اس مومن کی ہے جس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور قرآن کا نور ہدایت ڈال دیا ہے اس آیت میں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے نور کا ذکر فرمایا اللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ پھر قلب مومن کے نور کا ذکر فرمایا مَثَلُ نُوْرِهٖ اور اس آیت کی قرات بھی حضرت ابی ابن کعب کی مثل نورہ کے بجائے مثل نور من امن بہ کی ہے اور سعید بن جبیر نے یہی قراءت اور آیت کا یہی مفہوم حضرت ابن عباس سے بھی روایت کیا ہے ابن کثیر نے یہ روایات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مثل نورہ کی ضمیر کے متعلق ائمہ تفسیر کے دو قول ہیں ایک یہ کہ یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ کا نور ہدایت جو مومن کے قلب میں فطرة رکھا گیا ہے اس کی مثال یہ ہے كَمِشْكٰوةٍ الخ یہ قول حضرت ابن عباس کا ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ضمیر ہی مومن کی طرف راجع ہو جس پر سیاق کلام دلالت کر رہا ہے۔ اس لئے حاصل اس مثال کا یہ ہے کہ مومن کا سینہ ایک طاق کی مثال ہے اس میں اس کا دل ایک قندیل کی مثال ہے اس میں نہایت شفاف روغن زیتون فطری نور ہدایت کی مثال ہے جو مومن کی فطرت میں ودیعت رکھا گیا ہے۔ جس کا خاصہ خود بخود بھی قبول حق کا ہے پھر جس طرح روغن زیتون آگ کے شعلہ سے روشن ہو کر دوسروں کو روشن کرنے لگتا ہے اسی طرح فطری نور ہدایت جو قلب مومن میں رکھا گیا ہے جب وحی الٰہی اور علم الٰہی کے ساتھ اس کا اتصال ہو جاتا ہے تو روشن ہو کر عالم کو روشن کرنے لگتا ہے اور حضرات صحابہ و تابعیین نے جو اس مثال کو قلب مومن کے ساتھ مخصوص فرمایا وہ بھی غالباً اس لئے ہے کہ فائدہ اس نور کا صرف مومن ہی اٹھاتا ہے۔ ورنہ وہ فطری نور ہدایت جو ابتداء تخلیق کے وقت انسان کے قلب میں رکھا جاتا ہے وہ مومن کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ ہر انسان کی فطرت اور جبلت میں وہ نور ہدایت رکھا جائے اسی کا یہ اثر دنیا کی ہر قوم ہر خطہ ہر مذہب و مشرب کے لوگوں میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے وجود کو اور اس کی عظیم قدرت کو فطرة مانتا ہے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اس کے تصور اور تعبیر میں خواہ کیسی ہی غلطیاں کرتا ہو مگر اللہ تعالیٰ کے نفس و وجود کا ہر انسان فطرة قائل ہوتا ہے بجز چند مادہ پرست افراد کے جن کی فطرت مسخ ہوگئی ہے کہ وہ خدا ہی کے وجود کے منکر ہیں ۔
 
ایک صحیح حدیث سے اس عموم کی تائید ہوتی ہے جس میں یہ ارشاد ہے کل مولود یولد علی الفطرة یعنی ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو فطرت کے تقاضوں سے ہٹا کر غلط راستوں پر ڈال دیتے ہیں ۔ اس فطرت سے مراد ہدایت ایمان ہے۔ یہ ہدایت ایمان اور اس کا نور ہر انسان کی پیدائش کے وقت اس میں رکھا جاتا ہے اور اسی نور ہدایت کی وجہ سے اس میں قبول حق کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جب انبیاء اور ان کے نائبوں کے ذریعے وحی الٰہی کا علم ان کو پہنچتا ہے تو وہ اس کو بسہولت قبول کرلیتے ہیں بجز ان ممسوخ الفطرت لوگوں کے جنہوں نے اس فطری نور کو اپنی حرکتوں سے مٹا ہی ڈالا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے شروع میں تو عطاء نور کو عام بیان فرمایا ہے جو تمام آسمان والوں اور زمین والوں کو شامل ہے مومن کافر کی بھی کوئی تخصیص نہیں اور آخر آیت میں یہ فرمایا يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف جس کو چاہتا ہے ہدایت کر دیتا ہے یہاں مشیت الہی کی قید اس نور فطرت کے لئے نہیں جو ہر انسان میں رکھا ہے بلکہ نور قرآن کے لئے جو ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتا بجز اس خوش نصیب کے جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق نصیب ہو ۔ ورنہ انسان کی کوشش بھی بلا توفیق الہی بیکار بلکہ بعض اوقات مضر بھی پڑ جاتی ہے۔
 
اذالم یکن عون من اللہ للفتی فاول مایجنی علیہ اجتھادہ
 
یعنی اگر اللہ کی طرف سے بندہ کی مدد نہ ہو تو اس کی کوشش ہی اس کو الٹا نقصان پہنچا دیتی ہے۔
 
نور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :
 
اور امام بغوی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابن عباس نے کعب احبار سے پوچھا کہ اس آیت کی تفسیر میں آپ کیا کہتے ہیں مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ الآیتہ کعب احبار جو تورات و انجیل کے بڑے عالم مسلمان تھے انہوں نے فرمایا کہ یہ مثال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک کی بیان کی گئی ہے۔ مشکوة آپ کا سینہ اور زجاجہ (قندیل) آپ کا قلب مبارک، اور مصباح (چراغ ) نبوت ہے اور اس نور نبوت کا خاصہ یہ ہے کہ نبوت کے اظہار و اعلان سے پہلے ہی اس میں لوگوں کے لئے روشنی کا سامان ہے پھر وحی الہی اور اس کے اعلان کا اس کے ساتھ اتصال ہو جاتا ہے تو یہ ایسا نور ہوتا ہے کہ سارے عالم کو روشن کرنے لگتا ہے۔
 
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اظہار نبوت و بعثت بلکہ آپ کی پیدائش سے بھی پہلے جو بہت سے عجیب و غریب واقعات عالم میں ایسے پیش آئے جو آپ کی نبوت کی بشارت دینے والے تھے جن کو اصطلاح محدثین میں ارہاصات کہا جاتا ہے کیونکہ معجزات کا لفظ تو اس قسم کے ان واقعات کے لئے مخصوص ہے جو دعوائی نبوت کی تصدیق کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پیغمبر کے ہاتھ پر جاری کئے جاتے ہیں ۔ اور دعوائی نبوت سے پہلے جو اس قسم کے واقعات دنیا میں ظاہر ہوں ان کو ارہاصات کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات عجیبیہ صحیح روایات سے ثابت ہیں جن کو شیخ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ نے خصائص کبری میں اور ابو نعیم نے دلائل النبوة میں اور دوسرے علماء نے بھی اپنی مستقل کتابوں میں جمع کردیا ہے۔ اس کا ایک کافی حصہ اس جگہ تفسیر مظہری میں بھی نقل کردیا ہے۔
 
روغن زیتون کی برکات :
 
شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ اس سے زیتون اور اس کے درخت کا مبارک اور نافع و مفید ہونا ثابت ہوتا ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں بیشمار منافع اور فوائد رکھے ہیں اس کو چراغوں میں روشنی کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی روشنی ہر تیل کی روشنی سے زیادہ صاف شفاف ہوتی ہے اس کو روٹی کے ساتھ سالن کی جگہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے پھل کو بطور تفکہ کے کھایا بھی جاتا ہے اور یہ ایسا تیل ہے جس کے نکالنے کے لئے کسی مشین یا چرخی وغیرہ کی ضرورت نہیں خود بخود اس کے پھل سے نکل آتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ روغن زیتون کو کھاؤ بھی اور بدن پر مالش بھی کرو کیونکہ یہ شجرہ مبارکہ ہے۔ (رواہ البغوی والترمذی عن عمر مرفوعاً مظہری)
 
(معارف القرآن: ج6 ص422 تا 425)
 
واللہ اعلم بالصواب
دار الافتاء، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
23۔ جولائی 2020ء