QuestionsCategory: قرآن وتفسیرتفسیر آیت “انه لحق مثل ما انكم تنطقون”
عبید asked 5 years ago

قال اللہ تعالی: انه لحق مثل ما انكم تنطقون

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے معارف القرآن میں اس آیت کے تحت جو تفسیر ذکر فرمائی ہے برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمادیں۔

اس ناقص عقل کو گویائی میں التباس اور شائبہ نہ ہونے کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔۔۔۔آپ حضرات واضح مثال کے ساتھ اس کا مفہوم سمجھا دیں۔

جزاکم اللہ خیرا

1 Answers
Mufti Shahid Iqbal answered 5 years ago

جواب
اس پوری عبارت کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ مثلاً ایک آدمی کی نظر کمزور ہے، وہ دیکھتا تو زید کو ہے لیکن نظر کی کمزوری کی وجہ سے اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ عمرو ہے۔ ایک شخص صفراوی مزاج کا مریض ہے اور میٹھی چیز کھاتا ہے لیکن اسے یہ چیز کڑوی لگتی ہے۔  اسی طرح کان کی بیماری کا شکار آدمی کبھی کچھ کا کچھ سن لیتا ہے لیکن “زبان” وہ واحد عضو  ہے کہ جب بولتی ہے تو بولنے والے شخص کو اپنی زبان میں کبھی دھوکا نہیں لگتا کہ میں بول رہا  ہوں یا  کوئی اور بول رہا ہے، اسے پتا ہے کہ یہ کلام  مجھ ہی سے صادر ہو رہا ہے۔
تو حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ باقی تمام حواس کو چھوڑ کر گویائی کا ذکر خدا تعالیٰ نے اس لیے کیا کہ انسان جب بولتا ہے تو اسے یہ شبہ نہیں ہوتا کہ وہ خود بول رہا ہے یا اور کوئی بول رہا ہے بلکہ اسے پختہ یقین ہوتا ہے کہ میں ہی بول رہا ہوں، اسی طرح قیامت کو سمجھ لیا جائے کہ اس کے وقوع میں بھی کوئی شک نہیں جس طرح انسان کو اپنے بولنے میں کوئی شک نہیں۔
واللہ الموفق
دارالافتاء
مرکز اھل السنۃوالجماعۃ سرگودھا پاکستان
06۔ دسمبر 2018