QuestionsCategory: متفرق سوالاتپردہ کا حکم کب ہوا
sarfaraz hussain soomro asked 5 years ago

Question no 1: Islam main parday ka hukum kab hua?
Question no 2: Humaray pyaray nabi s.w ne humari maa bibi aashya ko jab habshi ka khail dikhaya, kia us zamanay main parday ka hukum nahi aaya tha?.
Question no 3: Kia tv pe aurat mard ko dekh sakti hai?
Question no 4 : kia Print ( hard copy) ki  hui tasweer main bhi ulma haq ka ikhtilaaf hai? kyun k election time pe JUI aur bohat  deeni ulma tasweer chapwatay hein kia ye sahi hai?
baray karam in sab sawalon ka tafseel sy jawab den

1۔ اسلام میں پردے کا کیا حکم کب ہوا؟

2۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو حبشی کا کھیل دکھایا کیا اس زمانے میں پردہ کا حکم نہیں آیا تھا؟

3۔ کیا ٹی وی پر عورت مرد کو دیکھ سکتی ہے؟

4۔ کیا پرنٹ کی ہوئی تصویر میں بھی علماء کا اختلاف ہے؟ کیونکہ الیکشن ٹائم پر جے یو آئی اور بہت سارے دینی علماء تصویر چھپواتے ہیں کیا یہ صحیح ہے؟

برائے کرم ان سوالات کے تفصیلی جواب ارسال فرمائیں۔

1 Answers
Mufti Pirzada Akhound answered 5 years ago

الجواب حامداًومصلیاً           
(1)
پردہ کے دو معنی ہیں : ایک ستر دوسرے حجاب۔ ستر تو فرض ہے، تفصیل اس کی یہ ہے کہ مرد کو مرد کا سارا بدن دیکھنا جائز ہے، مگر ناف سے زانو تک جائز نہیں ۔ اور عورت کو عورت کا بھی اتنا ہی بدن دیکھنا جائز ہے۔ اور اپنی مملوکہ حلال شرعی اور اپنی زوجہ کا سارا بدن دیکھنا جائز ہے، اور اپنے محارم کا مُنھ اور سر اور سینہ اور پنڈلیاں اور دونوں بازو دیکھنا بشرط امن شہوت جائز ہے۔ اور اُن کی پشت اور شکم دیکھنا جائز نہیں ، اور غیر مملوکہ کا بھی اتنا ہی بدن دیکھنا جائز ہے، اور اجنبی آزاد عورت کا کچھ دیکھنا جائز نہیں ، مگر ہتھیلیاں دیکھنا بشرط امن شہوت جائز ہے، اور اگر شہوت کا خوف ہو تو بغیر حاجت ضروری شرعی کے دیکھنا جائز نہیں ، ہاں اگر حاجت ہو جیسے حاکم حکم کرتے وقت اور گواہ کو شہادت کے وقت تو چہرہ دیکھنا جائز ہے، اور طبیب کو مرض کا موضع دیکھنا جائز ہے، اگر چہ لوگوں کو خوف شہوت کا ہو، باقی حتی الوسع شہوت کو دل سے دور کرے، چنانچہ یہ روایت قدوری کی شاہد اس مضمون کی ہے:
ولا یجوز أن ینظر الرجل من الأجنبیۃ إلا وجھھا وکفیھا، فإن کان لا یأمن من الشھوۃ لم ینظر إلی وجھھا إلا لحاجۃ، ویجوز للقاضي إذا أراد أن یحکم علیھا وللشاھد إذا أراد الشھادۃ علیھا أن ینظر إلی وجھھا وإن خاف أن یشتہي، ویجوز للطبیب أن ینظر إلی موضع المرض منھا، وینظر الرجل من الرجل في جمیع بدنہ إلا مابین سُرّتہ إلی رکبتہ، ویجوز للمرأۃ أن تنظر من الرجل إلی ما ینظر إلیہ الرجل، وتنظر المرأۃ من المرأۃ إلی ما یجوزللرجل أن ینظر إلیہ من الرجل، وینظر الرجل من أمتہ التي تحل لہ وطیھا وزوجتہ إلی فرجھا، وسائر جسدھا، وینظر الرجل من ذوات محارمہ إلی الوجہ والرأس، والصدر، والساقین، والعضدین، ولا ینظر إلی ظھرھا وبطنھا، وینظر الرجل من مملوکۃ غیرہ إلیٰ ما یجوز لہ أن ینظر إلیہ من ذوات محارمہ ۔
پس ستر اس تفصیل سے فرض ہے۔
دوسراؔ حجاب ہے جو آج کل شرفاء میں معمول ہے، کہ عورت مرد اجنبی کو بالکل بدن نہیں دکھاتی، اور غالباً غرض سائل کی اسی کا پوچھنا ہے، پس یہ جناب رسالت مآب ا کی ازواج مطہرات پر تو فرض تھا۔
لقولہ تعالیٰ: وقرن في بیوتکن ۔
ولقولہ تعالیٰ: وإذا سألتموھن متاعاً فسئلوھن من وراء حجاب ۔
اور مومنینِ اُمّت کی عورتوں پر فرض نہیں ، چنانچہ روایت بالا سے معلوم ہو چکا کہ اجنبی عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں دیکھنا بشرط امن شہوت جائز ہے؛ البتہ یہ حجاب سنت اور واجب استحسانی ہے اور بہ نظر مصلحت ورفع شروفتنہ ضروری ہے۔
لقولہ تعالیٰ: یٰایھا النبی قل لأزواجک وبناتک ونساء المؤمنین یدنین علیھن من جلابیبھن ذٰلک أدنیٰ أن یعرفن فلا یؤذین۔ الآیۃ ۔ 
وفي الدرالمختار، صفحہ ۲۷۲ من الجلد الأول:
وتمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین الرجال لا لأنہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ کمسہ، وإن أمن الشھوۃ؛ لأنہ أغلظ، ولذا ثبت بہ حرمۃ المصاھرۃ کما یاتي في الحظر۔
۔ حضرت شاہ عبد القادر صاحب رحمۃ اﷲ علیہ آیت کریمہ فاسئلو ھن من وراء حجاب۔ الآیۃ ۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’اور اس آیت میں حکم ہوا پردہ کا، کہ مرد حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج کے سامنے نہ جائیں ، سب مسلمانوں کی عورتوں پر یہ حکم واجب نہیں ، اگر عورت سامنے ہو کسی مرد کے سب بدن کپڑوں میں ڈھکا ہو تو گناہ نہیں ، اور اگر نہ سامنے ہو تو بہتر ہے۔ موضح القرآن ۔
پس خلاصۂ جواب یہ ہوا کہ ستر فرض ہے اور حجاب بنظر مصلحت واجب ہے
امداد، جس۲، ص ۱۱
پردے کا حکْم کب نازِل ہوا
اس کے مُتَعَلِّق شیخِ کبیر، علّامہ شہیر حضرت سَیِّدُنا مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی اپنی کتاب سیرت سید الانبیا میں فرماتے ہیں: اِسی سال (یعنی 4ہجری) ذی قعدہ کے مہینہ میں اُمُّ المومنین حضرت زینب بنت جحش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکی کاشانَۂ نبوّت میں رُخصتی کے دن مسلمان عورتوں کے لیے پردہ کا حکْم نازِل ہوا۔ بعض عُلَمائے کِرام کا کہنا ہے کہ یہ حکْم 2ہجری کو نازِل ہوا، (مگر )قولِ اوّل (یعنی پہلا قول ہی)راجِح ہے۔
 [2] اسی طرح حضرت سَیِّدُنا امام ابن حَجَر عَسْقَلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی بھی فتح الباری میں اس حکْم کے نازِل ہونے کے مُتَعَلّق چند اَقوال ذکر کر کے ایک قول کو ترجیح دیتے ہوئے اِرشَاد فرماتے ہیں:ان تمام اَقوال میں سب سے زیادہ مشہور قول یہی ہے کہ پردے کا حکْم 4 ہجری میں نازِل ہوا۔ 
(فتح الباری،کتاب المغازی،باب غزوۃانمار،۷/۵۳۷،تحت الحدیث:۴۱۴۰
 
(2)
اس بارے فقہاء کا اختلاف ہے کہ عورت کا غیر محرم مرد کو دیکھنا جائز ہے یا نہیں۔ جمہور فقہاء کے نزدیک یہ جائز ہے جیسا کہ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام احمد اور امام شافعی کی ایک روایت کے مطابق یہ جائز ہے۔ دوسرے قول کے مطابق یہ حرام ہے اور یہ قول امام شافعی سے منقول ہے اور امام احمد سے بھی ایک دوسری روایت حرمت کی ملتی ہے۔
جو فقہاء اس کے جواز کے قائل ہیں، ان کی دلیل صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی چادر میں چھپا کر حبشیوں کا کھیل دکھایا تھا بلکہ حدیث کے الفاظ ہیں: “وأنا أنظر إلى الحبشة” کہ میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی۔ یہ اس لیے عرض کر دیا کہ بعض متشدد لوگ اس کی یہ تاویل کر لیتے ہیں کہ وہ کھیل دیکھ رہی تھیں، مردوں کو تو نہیں دیکھ رہی تھیں۔ اسی طرح ان فقہاء کی دلیل صحیح مسلم کی روایت بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس کو ایک نابینا صحابی ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارنے کی اجازت دی تھی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ان کے گھر میں رہیں اور ان کی ان پر نظر نہ پڑے۔
جو فقہاء اس کو حرام کہتے ہیں، ان کی دلیل قرآن مجید کی آیت ہے کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ﴾ النور: 31
ترجمہ: آپ مومن عورتوں کو کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہوں کو پست رکھیں۔ ان کی دوسری دلیل ام سلمہ اور میمونہ رضی اللہ عنہما والی روایت ہے کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نابینا صحابی ابن ام مکتوم کی طرف دیکھنے سے منع فرمایا تھا تو یہ روایت ضعیف ہے۔ جہاں تک آیت کا معاملہ ہے تو جو فقہاء جواز کے قائل ہیں، ان کے نزدیک آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جن جگہوں کو دیکھنا جائز نہیں ہے، ان سے نگاہوں کو پست رکھیں اور مرد کا چہرہ ان میں شامل نہیں ہے۔
(3)
ٹی وی پر عورت مرد کو دیکھ سکتی ہے؟
مستند و معتبر علماء کرام کے بیانات تو براہِ راست یا موبائل وغیرہ میں بھری ہوئی آواز کو سن لینا تو جائز ہے مگر نامحرم علماءِ کرام کی چلتی پھرتی یا ساکن تصاویر کا دیکھنا تو جائز نہیں بلکہ گناہ ہے کیونکہ اس میں شہوت کا اندیشہ ہے۔ اس گناہ کی اصلاح نامحرم علماءِ کرام کی تصاویر دیکھ کر ہرگز نہ ہوگی بلکہ اور بہت سے مفاسد و خرابی میں اضافہ کا قوی اندیشہ ہے ٹی وی او رموبائل میں تصاویر کے ساتھ بیانات عامةً آنکھ کان اور دلوں کے تعیش کا ذریعہ ہو گئے ہیں ایسی صورت میں اصلاح کی توقع بہت مشکل ہے پس بالخصوص عورتوں کو تو اس بلاءِ عظیم سے بہت کو دور رہنا چاہئے۔
(4)
پرنٹ کی ہوئ تصویر
پرنٹ تصویر کی حرمت  پر تو اتفاق ہے ۔ البتہ ایسے مواقع جہاں اس تصویر کا استعمال ناگزیر ہو تو گنجائش ہوگی ۔جیسے شناختی کارڈ ، پاسپورٹ وغیرہ کے لئے تصویر لازمی ہے تو اب ان مقاصد کے لئے بنوانا ٹھیک ہوگا ۔
آج کل الیکشن کمپین میں بھی تصویر لازمی نظر آتی ہے کہ اس کے بغیر کمپین ادہوری رہتی ہے ۔اس لئے اگر پارٹی کا مقصد اسلامی نظام کی بالادستی ہو  تو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی تصویر کی طرح اس تصویر کی بھی گنجائش ہوگی ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتا٫ مرکز اہل السنت والجماعت
سرگودھا     پاکستان
12 فروری 2019