QuestionsCategory: متفرق سوالاتبغیر گواہوں کے نکاح کا حکم
MOHD MOIN AKHTAR asked 5 years ago

کیا فرما تے ہیں مفتیان کرام حسب ذیل کے بارے میں

1اگر کسی لڑکے نے کسی لڑکی سے یہ کہا کہ میں تجھے اپنے نکاح میں لیتا ہوں اور اس پر لڑکی بھی رضا مندی کا اظہار کر ے تو اس صورت میں کیا نکاح منعقد ہو گیا؟

2 کیا فون پر نکاح ہو جاتا ہے ؟

 

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 5 years ago

الجواب بعون الملک الوھاب
1۔ نکاح کے درست ہونے کے لئے دو گواہ ہونا ضروری ہیں جو عاقدین  ( یعنی جن کا آپس میں نکاح ہو رہا ہے اس لڑکا اور لڑکی) کے علاوہ ہوں اور ایجاب و قبول(ایجاب لڑکے کے قبول کرنے کو کہتے ہیں اور قبول لڑکی کے قبول کرنے کو کہتے ہیں) کی مجلس میں موجود ہوں، لہذااگر لڑکی کی طرف سے کوئی وکیل موجود ہو یا لڑکی نے اس شخص کو ہی اپنے سے نکاح کا وکیل بنا دیا ہو تو اس صورت میں دو افراد کی موجودگی میں اس شخص کا کیا ہوا نکاح درست ہے،البتہ مجمع عام میں نکاح کرنا بہتر اور اولی ہےتا کہ نکاح کی تشہیر ہو جائے۔ 
لمافی مختصر القدوری (ص173): النکاح ینعقد بالإیجاب والقبول۔الخ۔
وفی الدرالمختار (9/3):( وينعقد ) ملتبسا ( بإيجاب ) من أحدهما ( وقبول ) من الآخر ( وضعا للمضي ) ۔۔۔ ( كزوجت ) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك( و ) يقول الآخر ( تزوجت)۔
وفی ردالمحتار(9/3):قوله ( كزوجت نفسي الخ ) أشار إلى عدم الفرق بين أن يكون الموجب أصيلا أو وليا أو وكيلا۔
وفی الفقہ الاسلامی (6529/9):انعقاد الزواج بعاقد واحد :قال الحنفية : ينعقد الزواج بعاقد واحد إذا كانت له ولاية من الجانبين، سواء أكانت ولايته أصلية كولاية القرابة، أم طارئة كولاية الوكالة،بأن كان العاقدولياًمن الجانبين كالجدإذا زوج ابن ابنه الصغيرمن بنت ابنه الصغيرة،و الأخ إذا زوج بنت أخيه من ابن أخيه الصغير،- أو كان أصيلاً وولياً كابن العم إذا تزوج بنت عمه من نفسه، أو كان وكيلاً من الجانبين،- أو كان رسولاً من الجانبين، أو كان أصيلاً من جانب، ووكيلاً من جانب آخركأن توكل امرأة رجلاً ليزوجها من نفسه، أو وكل رجل امرأة لتزوج نفسها منه۔
صورت مسئولہ میں گواہوں کی موجودگی کا ذکر نہیں اگر گواہ موجود ہوں اور لڑکی ان گواہوں کے سامنے لڑکے کی اس بات کو قبول کر لے تو نکاح منعقد ہو جائے گا اور اگر گواہ موجود نہ ہوں تو نکاح منعقد نہیں ہو گا۔
2۔ نکاح میں فون کے ذریعہ ایجاب وقبول معتبر نہیں ہے، نکاح اُسی وقت منعقد ہوتا ہے، جب کہ عاقدین  ( یعنی جن کا آپس میں نکاح ہو رہا ہے وہ لڑکا اور لڑکی) اصالۃً (یعنی بذات خود موجود ہوں) یا وکالۃً (یعنی ان کی طرف سے کوئی وکیل، نائب یا ولی نکاح) ایک مجلس (یعنی نکاح کے وقت نکاح کی جگہ) میں موجود ہوں، اور اسی مجلس میں دوگواہوں (یا ایک مرد اور دو عورتوں) نے ایک ساتھ اُن کا ایجاب وقبول سنا ہو، اورفون کی صورت میں یہ شرائط نہیں پائی جاتی؛ اس لئے نکاح منعقد نہیں ہوگا؛ البتہ فون پر کسی کو وکیل بنادیا جائے اوروہ عاقد کی طرف سے حسبِ شرائط قبول یا ایجاب کرے، تو نکاح درست ہوجائے گا۔
ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین الخ۔ (الدر المختار 4/76 زکریا)
وشرط حضور شاہدین حرین، أو حر وحرتین مکلفین سامعین قولہما معاً۔ (الدر المختار 4/91-87 زکریا)
ومنہا أن یکون الإیجاب والقبول في مجلس واحد حتی لو اختلف المجلس بأن کانا حاضرین فأوجب أحدہما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل یوجب اختلاف المجلس لا ینعقد، وکذا إذا کان أحدہما غائبًا لم ینعقد۔ (الفتاویٰ الہندیۃ 1/269زکریا)
ومنہا سماع الشاہدین کلامہما معًا، ہٰکذا في فتح القدیر … ولو سمعا کلام أحدہما دون الآخر أو سمع أحدہما کلام أحدہما والآخر کلام الآخر لا یجوز النکاح، ہٰکذا في البدائع۔
(الفتاویٰ الہندیۃ 1؍268زکریا، بدائع الصنائع، کتاب النکاح / عدالۃ الشاہدین 2؍527 زکریا)فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ
سرگودھا ،پاکستان
02 مارچ 2019ء مطابق 24 جمادی الثانی 1440ھ