QuestionsCategory: نکاح و طلاقڈرامے میں طلاق
Molana Abid Jamshaid Staff asked 6 years ago

میں ایک طلاق کے سلسلے میں ایک فتویٰ آپ کی خدمت میں لایا ہوں۔

میرا ایک بھانجا جس کا نام مسعود احمد ولد محمد ایوب جو موضع بڈھیال تحصیل و ضلع چکوال کا رہنے والا ہے، وہ اَن پڑھ ہے اور اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ وہ اور اس کی بیوی ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ ڈرامے میں میاں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اس نے کہا کہ ہم بھی ڈرامہ کرتے ہیں۔ بے سمجھی کی وجہ سے اس نے بھی اپنی بیوی کو طلاق، طلاق ،طلاق کہہ دیا۔ اسلام کی رو سے ہم آپ سے جاننا چاہتے ہیں کہ یہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟ یہ واقعہ مورخہ 05- اکتوبر 2016ء کو پیش آیا۔

المستفتی:اجمل حسین

خاص مقام ڈاکخانہ بڈھیال تحصیل چکوال، ضع چکوال

نوٹ:

استفتاء کے ساتھ ایک تحریر بھی منسلک ہے جس میں کسی صاحب نے تین طلاق کو ایک قرار دیا ہوا ہے۔ مستفتی کی طرف سے اس کی تحقیق کا تقاضا بھی کیا گیا ہے۔

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 6 years ago

صورت مسئولہ میں مسعود احمد ولد محمد ایوب کی بیوی پرتین طلاقیں واقع ہو گئیں، اب وہ مسعود احمد کے لیے مغلظاً حرام ہو چکی ہے۔ ہاں اگر عورت مذکور ہ عدت گزرنے کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور نکاح کے بعد دوسرا شوہر اس سے صحبت کرے پھر مر جائے یا از خود طلاق دے دے اور اس کی عدت گزر جائے تب یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی اور وہ اس سے دوبارہ نئے مہر پر نکاح کر سکے گا۔
قرآن مجید،احادیث نبویہ علی صاحبہا السلام، فیصلہ ہائے خلفاء راشدین و اقوال دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم، اجماع امت اور حضرات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کے فتاویٰ جات سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک مجلس میں متفرق الفاظ سے یا ایک ہی کلمہ سے دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں۔ دلائل پیش خدمت ہیں:

قرآن مجید مع التفسیر:

پہلی آیت:

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
سورۃ البقرہ :229
ترجمہ: طلاق دو با رہونی چاہیے۔ اس کے بعد (شوہر) یا تو قاعدے کے مطابق (بیوی کو) روک رکھے (یعنی طلاق سے رجوع کرلے) یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے۔

استدلال و تفسیر:

[۱]:امام محمد بن اسما عیل بخا ری رحمۃ اللہ علیہ تین طلا ق کے وقوع پر مذکورہ آیت سے استدلال کر تے ہوئے باب قائم فرماتے ہیں:
”باب من اجاز طلاق الثلاث‘‘[وفی نسخۃ: باب من جوز طلاق الثلاث ] لقولہ تعالیٰ: أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ .“
صحیح البخاری: ج2 ص791
ترجمہ: باب؛ جس نے تین طلاقیں دیں تو وہ واقع ہو جائیں گی اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہ ﴿أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
اس آیت سے استدلال دو طرح سے ہے:
(۱): اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ﴾ [طلاق دو با رہونی چاہیے] کا مطلب ”مرۃ بعد مرۃ“ ہے یعنی شوہر ایک طلاق دے کر دوسری طلاق دے تو یہ دو طلاقیں شمار ہوں گی۔ جب دو طلاقیں دینے سے واقع ہو جاتی ہیں تو تین طلاقیں دینے سے بھی واقع ہو جاتی ہیں۔
عمدۃ القاری: ج 14ص236 باب من اجاز طلاق الثلاث
فائدہ: ﴿أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ﴾ میں دو اکٹھی طلاقوں کے معنی کی واضح گنجائش موجود ہے یعنی ایک مجلس کی دو طلاقیں اس کے مفہوم میں داخل ہیں۔ جیسے حدیث میں آیا ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ.
صحیح البخاری ج1 ص27 بَاب الْوُضُوءِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ
کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے وضوء میں اعضاء کو دو دو بار دھویا۔
یہاں ”مرتین“ کا معنی یہ نہیں کہ ایک عضو کو ایک مجلس میں دھویا اور پھر دوسری مجلس میں دوبارہ دھویا بلکہ مراد ایک ہی مجلس میں دو بار دھونا ہے۔ اب امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال بالکل واضح ہے کہ جب ایک مجلس میں دو طلاقیں دینے سے واقع ہو جاتی ہیں تو ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی واقع ہو جاتی ہیں۔
(۲):اس آیت کے آخری حصہ ﴿ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ [یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے]میں ”تسریح“ سے مراد چھوڑ دینا ہے، یہ عام ہے جو کہ تین طلاقیں دے کر چھوڑنے کو بھی شامل ہے۔ معلوم ہوا کہ تین طلاقیں دی جائیں تو واقع ہو جاتی ہیں۔ اس کی تائید امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کی اس روایت سے ہوتی ہے:
جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! أرأيت قول الله: ﴿أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ أين الثالثة ؟ قال : ألتسريح باحسان .
تفسیر ابن ابی حاتم: ج2 ص419 سورۃ البقرۃ- اسناده صحيح
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور پوچھنے لگا: ” أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ“ میں اللہ تعالیٰ نے دو طلاقوں کا ذکر کیا ہے، اس میں تیسری طلاق کا ذکر کہاں ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ“ میں تیسری طلاق کا ذکر ہے۔
عمدۃ القاری: ج 14ص236 باب من اجاز طلاق الثلاث
یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ ﴿فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾پر حرف ”فا“ داخل ہے جو اکثر تعقیب بلا مہلت کے لیے آتا ہے۔ اس کا تقاضا دو طلاق دینے کے بعد فوراً تیسری طلاق کے واقع ہونے کا ہے۔ یوں یہ آیت دفعۃً تین طلاقوں کے واقع کرنے کے مفہوم کو بھی شامل ہو گی۔ چنانچہ شارح بخاری علامہ قسطلانی رحمہ اللہ صحیح البخاری کے اس باب کا عنوان قائم کر کے ﴿أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وہذا عام یتناول ایقاع الثلاث دفعۃ واحدۃ وقد دلت الآیۃ علی ذلک من غیر نکیر الخ
ارشاد الساری: ج8 ص157
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو واقع ہو جاتی ہیں اور اس آیت سے یہی ثابت ہوتا ہے اور اس میں کسی کا انکار منقول نہیں۔
[۲]:امام ابو بکر احمد الرازی الجصاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قولہ تعا لیٰ : ﴿أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ یدل علیٰ وقوع الثلاث معاً مع کونہ منہیا عنہا•
احکام القر آ ن للجصا ص :ج1 ص527ذکر الحجاج لایقاع الثلاث معا ً
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿أَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ اس بات کی دلیل ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو واقع ہو جاتی ہیں اگرچہ اس طرح طلاق دینا ممنوع ہے۔
[۳]: امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد الانصا ری القرطبی رحمہ اللہ اس آ یت کی تفسیر کر تے ہو ئے فر ماتے ہیں:
قال علماؤنا واتفق ائمۃ الفتویٰ علیٰ لزوم ایقاع الطلاق الثلاث فی کلمۃ واحدۃ•
الجامع لاحکا م القر آن للقرطبی :ج1ص492
ترجمہ: ہمارے علماء بھی یہی فرماتے ہیں اور فتویٰ دینے والے ائمہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ تین طلاقیں ایک کلمہ سے دی جائیں تو تین ہی واقع ہوتی ہیں۔

دوسری آیت:

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُĨ
سورۃ البقرۃ:230
ترجمہ: پھر اگر شوہر( تیسری) طلاق دے دے تو(وہ مطلقہ عورت) اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔

استدلال و تفسیر:

[۱]: مشہور صحابی اور مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَلَا تَحِلُّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًاغَیْرَہُ.
السنن الکبری للبیہقی: ج7ص376 باب نکاح المطلقۃ ثلاثا
ترجمہ: اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔
[۲]: مشہور فقیہ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وَالْقُرْآنُ یَدُلُّ_وَاللّٰہُ اَعْلَمُ _عَلٰی اَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَۃً لَّہُ دَخَلَ بِھَا اَوْلَمْ یَدْخُلْ بِھَاثَلَاثًالَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ‘‘
کتاب الام للامام محمد بن ادریس الشافعی: ج2ص1939
ترجمہ: قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی، خواہ اس سے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو تووہ عورت اس شخص کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ کسی اورشوہر سے نکاح نہ کرے۔
[۳]: علامہ ابن حزم اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قول اللہ تعالیٰ: ﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ﴾ فَهٰذَا يَقَعُ عَلَى الثَّلاثِ مَجْمُوعَةً وَمُفَرَّقَةً، وَلا يَجُوزُ أَنْ يُخَصَّ بِهَذِهِ الآيَةِ بَعْضُ ذَلِكَ دُونَ بَعْضٍ بِغَيْرِ نَصٍّ..
المحلیٰ لابن حزم: ج9 ص394 كتاب الطلاق مسألۃ1945
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ﴾ ا ن تین طلاقوں پربھی صادق آتا ہے جو اکٹھی ہوں اور ان پر بھی سچا آتا ہے جو متفرق طور پر ہوں، اور بغیر کسی نص کے اس آیت کو تین اکٹھی طلاقوں کو چھوڑ کر صرف متفرق کے ساتھ مخصوص کر دینا صحیح نہیں ہے۔

احادیث مبارکہ:

(1):عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ……قَالَ عُوَیْمَرُرَضِیَ اللہُ عَنْہُ کَذَبْتُ عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ (وَفِیْ رِوَایَۃِ اَبِیْ دَاؤُدَ)قَالَ:فَطَلَّقَھَاثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَاَنْفَذَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ•
صحیح البخاری ج2ص306 مکتبۃ المیزان باب من اجاز طلاق الثلاث، سنن ابی داؤد ج 1ص324 باب فی اللعان – وقال الالبانی: صحیح رقم 2252
ترجمہ:حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے(جب اپنی بیوی سے لعان کیا توحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں) کہا: یارسول اللہ! اگر اب بھی میں اس عورت کو اپنے گھر میں رکھوں تو گویا میں نے اس پر جھوٹا بہتان باندھا۔ یہ کہہ کر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔(سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ) عویمرنے اپنی بیوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں تین طلاقیں دیں توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان طلاقوں کو نافذ بھی کردیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو نافذ فرما دیا تھا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ”با ب من اجاز طلاق الثلاث‘‘ [باب؛ جس نے تین طلاق دی تو وہ واقع ہو جائے گی] کے تحت اس روایت کو لائے ہیں۔ ثابت ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین شمار ہوتی ہیں۔
(2):عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ امْرَأتَہُ ثَلٰثاً فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ؟ قَالَ:لَاحَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ•
صحیح البخاری ج2ص791باب من اجاز طلاق الثلاث، السنن الکبری للبیہقی ج7 ص334 باب ما جاء فی امضاء الطلاق الثلاث و ان کن مجموعات
ترجمہ:ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں،اُس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ دوسرے شخص نے بھی اس کو طلاق دے دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیاکہ کیا یہ عورت پہلے شخص کے لیے حلال ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں!جب تک پہلے شوہر کی طرح دوسرا شخص بھی اس کا ذائقہ نہ چکھ لے۔‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر باب باندھا: ”با ب من اجاز طلاق الثلاث‘‘ [باب؛ جس نے تین طلاق دی تو وہ واقع ہو جائے گی]، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو ”باب ما جاء فی امضاء الطلاق الثلاث و ان کن مجموعات“ [باب : تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں اگرچہ اکٹھی دی جائیں] میں لائے ہیں اور حا فظ ابن حجر عسقلا نی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں:
فا لتمسک بظاہر قولہ ”طلقہا ثلاثاً “فا نہ ظاہر فی کونہا مجموعۃ•
فتح الباری لا بن حجر :ج9ص455باب من جوز الطلاق الثلاث
تر جمہ: اس روا یت کے الفا ظ ”فطلقہا ثلاثاً“ سے استدلال کیا گیا ہے (کہ تین طلاقیں تین شمار ہوتی ہیں) کیو ں کہ یہ الفاظ اس بارے میں بالکل ظاہر ہیں کہ اس شخص نے تین طلا قیں اکٹھی دی تھیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس شخص نے تین طلاقیں اکٹھی دی تھیں اور تینوں کو شمار کیا گیا تھا جیسا کہ مذکورہ محدثین کے ابواب اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی وضاحت ذکر کی گئی ہے۔
(3):عَنِ الْحَسَنِ قَالَ نَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَهِىَ حَائِضٌ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُتْبِعَهَا بِتَطْلِيقَتَيْنِ أُخْرَاوَيْنِ عِنْدَ الْقَرْئَيْنِ الْبَاقِيَيْنِ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقَالَ : يَا ابْنَ عُمَرَ مَا هَكَذَا أَمَرَ اللَّهُ إِنَّكَ قَدْ أَخْطَأْتَ السُّنَّةَ وَالسُّنَّةُ أَنْ تَسْتَقْبِلَ الطُّهْرَ فَتُطَلِّقَ لِكُلِّ قَرْءٍ. قَالَ : فَأَمَرَنِى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَرَاجَعْتُهَا ثُمَّ قَالَ:« إِذَا هِىَ طَهَرَتْ فَطَلِّقْ عِنْدَ ذَلِكَ أَوْ أَمْسِكْ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! رَأیْتَ لَوْاَنِّیْ طَلَّقْتُھَاثَلاَثاً کَانَ یَحِلُّ لِیْ أنْ اُرَاجِعَھَا؟قَالَ لَاکَانَتْ تَبِیْنُ مِنْکَ وَتَکُوْنُ مَعْصِیَۃً•
سنن الدارقطنی: ج4ص20 حدیث نمبر3929- وسندہ صحیح
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض ایک طلاق دے دی پھر ارادہ کیاکہ باقی دوطلاقیں بھی بقیہ دوقرء (حیض یا طہر) کے وقت دے دیں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی خبرہوئی توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے فرمایا:’’تجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح تو حکم نہیں دیا، تو نے سنت کے مطابق نہیں کیا۔ سنت تویہ ہے کہ جب پاکی کا زمانہ آئے تو ہر طہرکے وقت اس کوطلاق دے۔“ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے حکم دیاکہ تو رجوع کرلے! چنانچہ میں نے رجوع کرلیا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا:’’جب تیری بیوی کا پاکی کا زمانہ آئے تو(مرضی ہو تو) اس کوطلاق دے دینا اورمرضی ہوتو بیوی بناکررکھ لینا۔ اس پرمیں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! یہ تو بتلائیں کہ اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا اس سے رجوع کرنا میرے لیے حلال ہوتا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’نہیں وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اوریہ (کام کرنا) گناہ ہوتا۔“
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا کہ ”وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اوریہ (کام کرنا) گناہ ہوتا“ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مقصد اکٹھی تین طلاقوں کا حکم پوچھنا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ نہ فرماتے کہ ایسا کام کرنا معصیت اور گناہ ہے کیونکہ ہر ہر طہر کے وقت طلاق دینے سے تعمیلِ حکم ہوتی ہے نہ کہ نافرمانی۔
(4):عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفْلَۃَ قَالَ کَانَتْ عَائِشَۃُ الْخَثْعَمِیَّۃُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا أُصِيْبَ عَلِىٌّ وَبُوْيِعَ الْحَسَنُ بِالْخِلَافَةِ قَالَتْ : لِتَهْنِئْكَ الْخِلاَفَةُ يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ فَقَالَ : یُقْتَلُ عَلِىٌّ وَ تُظْهِرِينَ الشَّمَاتَةَ اذْهَبِى فَأَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثًا قَالَ: فَتَلَفَّعَتْ نِسَاجَهَا وَقَعَدَتْ حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتَهَا وَبَعَثَ إِلَيْهَا بِعَشْرَةِ آلاَفٍ مُتْعَةً وَ بَقِيَّةٍ بَقِيَ لَهَا مِنْ صَدَاقِهَا فَقَالَتْ : مَتَاعٌ قَلِيلٌ مِنْ حَبِيبٍ مُفَارِقٍ فَلَمَّا بَلَغَهُ قَوْلُهَا بَكَى وَقَالَ لَوْلَاأَنِیْ سَمِعْتُ جَدِّیْ أوْحَدَّثَنِیْ أَبِیْ أَنَّہُ سَمِعَ جَدِّیْ یَقُوْلُ أَیُّمَا رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَأَتَہُ ثَلاَثاً مُبْھَمَۃً أَوْثَلاَثاً عِنْدَ الْاِقْرَائِ لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ لَرَاجَعْتُهَا.
سنن الدارقطنی ج4ص20 حدیث نمبر3927 کتاب الطلاق و الخلع و الطلاق- اسنادہ صحیح
ترجمہ:حضرت سوید بن غفلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ خثعمیہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھیں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرکے ان کو اپنا خلیفہ منتخب کرلیا تو اس موقع پر عائشہ خثعمیہ نے آپ کوکہا :’’ اے امیر المؤمنین! آپ کو خلافت مبارک ہو۔“ اس پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ”کیا یہ مبارک باد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ہے؟ تو اس پر خوشی کا اظہارکر رہی ہے؟ جا!تجھے تین طلاقیں ہیں“ اس نے اپنی عدت کے کپڑے اوڑھ لیے اور وہیں عدت گزار دی۔عدت گزرنے پرحضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کو دس ہزار اور بقیہ مہر(جو ابھی ادا نہیں ہوا تھا) دے دیا۔ جب اس کو یہ رقم ملی تو وہ کہنے لگی: ”بچھڑنے والے دوست کی طرف سے یہ مال کم ملاہے۔“ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ رو دیے اور فرمایاکہ اگر میں نے اپنے نانا جان جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ نہ سنا ہوتا- یا یہ فرمایا کہ مجھے میرے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے میرے نانا جان کی یہ حدیث اگر نہ سنائی ہوتی- کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنی بیوی کو ایک دفعہ تین طلاقیں دے دے یاتین طہروں میں تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوتی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔ “ تو میں ضروراس سے رجوع کرلیتا۔
(5):عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَانَ عُمَرُ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ اِذَااُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فِیْ مَجْلِسٍ أَوْجَعَہُ ضَرْباً وَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص 11 باب من کرہ ان یطلق الرجل امرأتہ ثلاثا- اسنادہ حسن ورواتہ ثقات
ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی ایسا آدمی لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوتیں توحضرت عمر اس کو سزا دیتے اوران میاں بیوی کے درمیان جدائی کردیتے تھے۔‘‘
(6):عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي یَحْيٰى قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إلَى عُثْمَانَ فَقَالَ : إنِّي طَلَّقْت امْرَأَتِي مِئَةً ، قَالَ : ثَلاَثٌ يُحَرِّمْنَهَا عَلَيْك ، وَسَبْعَةٌ وَتِسْعُونَ عُدْوَانٌ.
مصنف ابن ابی شیبہ :ج4ص13باب ما جا ء یطلق امرأتہ مائۃ او الف فی قول وا حد- اسنادہ صحیح و رجالہ ثقات، مثلہ فی مصنف عبد الرزاق :ج6ص306 باب المطلق ثلاثاً- واسنا دہ صحیح علیٰ شرط البخا ری ومسلم
ترجمہ: حضرت معاویہ بن ابی یحییٰ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ”میں نے اپنی بیوی کو ایک سو طلاقیں دی ہیں۔“حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”تین طلاقوں نے تیری بیوی تجھ پر حرام کر ڈالی ہے اور باقی ستانوے زیادتی اورظلم ہیں۔ “
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی ایک کلمہ اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے تھے، اسی لیے تو انہوں نے فرمایا کہ تین طلاقوں نے تیری بیوی کو حرام کر ڈالا ہے، باقی ظلم اور زیادتی ہیں۔ نیز امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ کا باب بھی اس موقف کی واضح دلیل ہے۔
(7):عَنْ شَرِیْکِ بْنِ أَبِیْ نَمْرٍقَالَ جَائَ رَجُلٌ اِلٰی عَلِیٍّ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ اِنِّیْ طَلَّقْتُ اِمْرَأتِیْ عَدَدَ الْعَرْفَجِ۔ قَالَ تَاْخُذْ مِنَ الْعَرْفَجِ ثَلاَثاً وَتَدْعُ سَائِرَہُ۔
مصنف عبدالرزاق ج6ص306 حدیث نمبر 1 1385باب المطلق ثلاثا- اسنا دہ صحیح علیٰ شرط البخا ری ومسلم، و مثلہ فی مصنف ابن ابی شیبۃ: ج4ص12 باب فی الرجل یطلق امراتہ ماۃ او الفا فی قول واحد- اسنا دہ صحیح علیٰ شرط البخا ری ومسلم
ترجمہ:شریک بن ابی نمر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ ایک آدمی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آیااورکہنے لگاکہ میں نے اپنی بیوی کوعرفج درخت کے عدد کے برابر طلاق دی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’عرفج درخت سے تین کو لے لے اور باقی تمام چھوڑ دے۔‘‘
اس روایت سے استدلال بھی ماقبل والی حدیث کے استدلال کی طرح ہے اور واضح ہے۔
(8):قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ الْکَبِیْرُ أَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ التَّابِعِیُّ الْکُوْفِیُّ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ حُسَیْنٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ دِیْناَرٍ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّہُ أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ طَلَّقْتُ اِمرَأتِیْ ثَلاَ ثًا فَقَالَ عَصَیْتَ رَبَّکَ وَحَرُمَتْ عَلَیْکَ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاًغَیْرَکَ.
مسند ابی حنیفہ بروایۃ بحوالہ جامع المسانید للخوارزمی ج2ص 148- اسنادہ صحیح
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آکرکہنے لگامیں نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی ہیں۔آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اورتیری بیوی تجھ پرحرام ہوگئی جب تک وہ تیرے علاوہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے (تیرے لیے حلال نہیں ہو گی)۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فرمانا کہ ”تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے“ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ اس شخص نے دفعۃً تین طلاقیں دی تھیں۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو وہ یہ نہ فرماتے کہ تو نے طلاق کے سلسلہ میں اپنے رب کی نافرمانی کی ہے کیونکہ ہر ہر طہر کے وقت طلاق دینے سے تعمیلِ حکم ہوتی ہے نہ کہ نافرمانی جیسا کہ ظاہر ہے۔
(9):علامہ ابن القیم لکھتے ہیں:
قالوا فهذا عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبدالله بن مسعود وعبدالله بن عمر وعبدالله بن عباس وعبدالله بن الزبير وعمران بن حصين والمغيرة بن شعبة والحسن بن علي رضوان الله تعالى عليهم أجمعين وأما التابعون فأكثر من أن يذكروا
اغاثۃ اللہفان: ج1 ص322
ترجمہ: جمہور حضرات نے یہی مذہب (کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہوتی ہیں) حضرت عمر بن خطاب، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عبدالله بن مسعود، حضرت عبدالله بن عمر ، حضرت عبدالله بن عباس ، حضرت عبدالله بن الزبير، حضرت عمران بن حصين، حضرت مغیرہ بن شعبۃ اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہم کا نقل کیا ہے اور (فرماتے ہیں کہ )تابعین کا تو کچھ شمار ہی نہیں ہے۔

اجماع امت:

[۱]:امام ابو بکر احمد الرازی الجصاص (م307ھ):
فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاع الثلاث معا.
احکام القر آ ن للجصا ص :ج1 ص527ذکر الحجاج لایقاع الثلاث معا ً
ترجمہ: قرآن مجید، سنت اور سلف کے اجماع سے ثابت ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو واقع ہو جاتی ہیں۔
[۲]:امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر (م319ھ):
وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَ ثًا أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی مَاجَائَ بِہٖ حَدِیْثُ النَّبِیّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ•
کتاب الاجماع لابن المنذر ص92
ترجمہ: ان (فقہاء اورمحدثین) کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب مرد اپنی بیوی کوتین طلاقیں دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی۔ ہاں! جب وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے (اور وہ از خود طلاق دے دے یا مر جائے اور عدت بھی گزر جائے) تواب حلال ہوجاتی ہے کیونکہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث وارد ہوئی ہے ۔
[۳]:امام ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی (م321ھ
مَنْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فَاَوْقَعَ کُلاًّفِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہُ مِنْ ذٰلِکَ… فَخَاطَبَ عُمَرُبِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَفِیْھِمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الَّذِیْنَ قَدْعَلِمُوْامَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُنْکِرٌوَلَمْ یَدْفَعْہُ دَافِعٌ•
سنن الطحاوی ج2ص34باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا،ونحوہ فی مسلم ج1 ص477
ترجمہ: جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور طلاق دیتے وقت تینوں کو نافذ بھی کر دیا (یعنی ایک مجلس میں دیں)تو یہ تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں (دلیل اس کی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ) جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو اس چیز کے متعلق خطاب فرمایا (کہ تین طلاقیں تین ہیں) اور ان مخاطبین میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے جوحضور علیہ السلام کے عہد مبارک میں اس معاملہ سے بخوبی واقف تھے لیکن کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا انکار نہ کیا اورنہ ہی کسی نے اسے رد کیا۔
[۴]:قاضی ثناء اللہ پانی پتی (م1225ھ):
اَجْمَعُوْاعَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً یَقَعُ ثَلاَثٌ باْلاِجْمَاعِ.
التفسیر المظہری ج1ص300
ترجمہ:ان (فقہاء ومحدثین) کااس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کوکہا کہ تجھے تین طلاقیں ہیں تو بالاجماع تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔

فقہاء کرام رحمہم اللہ:

امت مسلمہ کے جید فقہاء کرام خصوصاً حضرات ائمہ ار بعہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں:

1: امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت [م150ھ]

مؤطا امام محمد:ص263، سنن الطحاوی:ج2ص34، 35، شرح مسلم:ج1 ص478

2: امام مالک بن انس المدنی [م 189ھ]

التمہید لابن عبد البر :ج6ص58،المدونۃ الکبریٰ:ج2ص273، شرح مسلم للنووی:ج1ص478

3: امام محمد بن ادریس الشا فعی [م 204ھ]

کتاب الام للامام محمد بن ادریس الشافعی: ج2ص1939

4: امام احمد بن حنبل [م241ھ]

شرح مسلم:ج1 ص478

5: جمہور علماء تابعین و غیرہ

علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللہ صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں:
جمہور علماء کا جن میں تابعین، اتباع تابعین اور بعد کے حضرات شامل ہیں، یہ موقف ہے کہ تین طلاقیں تین ہی ہوں گی اور یہی موقف امام اوزاعی، امام نخعی، امام ثوری، امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں، امام مالك اور ان کے شاگردوں، امام شافعی اور ان کے شاگردوں،امام احمد اوران کے شاگردوں ، امام اسحاق، ا مام ابو ثور اور امام ابو عبيد رحمہم اللہ وغیرہ کا بھی ہے۔
عمدۃ القاری: ج 14ص236 باب من اجاز طلاق الثلاث

تین طلاقوں کا حکم سعودی حکومت کی نظر میں:

حکومت سعودیہ نے اپنے ایک شاہی فرمان کے ذریعے علما ء حرمین اور ملک کے دوسرے نامور ترین علما ء کرام پر مشتمل ایک تحقیقاتی مجلس قائم کر رکھی ہے جس کا فیصلہ تمام ملکی عدالتوں میں نافذ ہے ۔ 1393ھ میں اس مجلس میں ”طلاق ثلاثہ“ کا مسئلہ پیش ہوا۔ سترہ جید اور نامور علماء ومشائخ نے سیر حاصل بحث کے بعد بالاتفاق واضح الفاظ میں یہ فیصلہ دیا کہ ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقیں تین ہی ہیں ۔ یہ پوری بحث اور متفقہ فیصلہ حکومت سعودیہ نے ایک رسالہ کی صورت میں شائع کیا ہے۔ ’’حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد‘‘ کے عنوا ن سے یہ رسالہ ”احسن الفتاویٰ“کی پانچویں جلد میں موجود ہے ۔

استفتاء کے ساتھ منسلک تحریر کا جائزہ

استفتاء کے ساتھ ایک تحریر دی گئی ہے اور جواب کا تقاضا کیا گیا ہے۔ تحریر کو پڑھنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس میں جس حدیث کو دلیل بنایا گیا ہے اگراسے مکمل لکھ کر اس کا مطلب دیگر احادیث مبارکہ اور محدثین کی تحقیقات کی روشنی میں اس کا مطلب سمجھا جاتا تو زیرِ نظر مسئلہ واضح ہو جاتا۔ ذیل میں ہم مکمل حدیث لکھ کر اس کا مطلب بیان کرتے ہیں:
عن ابن عباس قال كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم
صحیح مسلم
اس روایت کا مطلب بعض لوگ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کو تین کر دیا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کو لیا جائے گا کہ تین طلاق ایک ہے اور حضرت عمر کی بات کو نہیں لیا جائے گا کہ تین طلاق تین ہیں۔

تحقیقی جائزہ:

پہلی بات…

تو یہ ہے کہ ماقبل میں قرآن مجید،احادیث نبویہ علی صاحبہا السلام، فیصلہ ہائے خلفاء راشدین و اقوال دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم، اجماع امت اور حضرات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کے فتاویٰ جات سے ثابت کیا گیا ہے کہ تین طلاقیں تین شمار ہوتی ہیں۔ اب یہ بات ناممکن ہے کہ دیگر کئی دلائل سے تو تین طلاق کا تین ہونا ثابت ہو رہا ہو اور اس روایت میں تین کا ایک ہونا ثابت ہو رہا ہو!

دوسری بات….

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد ہیں۔ یہ بات نا ممکن ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کے خلاف فیصلہ دیں! چنانچہ امام نووی علیہ الرحمۃ امام مازری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل فرماتے ہیں:
قال المازري وقد زعم من لا خبرة له بالحقائق أن ذلك كان ثم نسخ قال وهذا غلط فاحش لأن عمر رضي الله عنه لا ينسخ ولو نسخ وحاشاه لبادرت الصحابة إلى انكاره.
شرح مسلم للنووی: ج2ص478
ترجمہ: امام مازری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حقائق سے بے خبر لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ”تین طلاقیں پہلے ایک تھیں، پھر منسوخ ہو گئیں“یہ کہنا بڑی فحش غلطی ہے، اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے فیصلہ کو منسوخ نہیں کیا، -حاشا-اگر آپ منسوخ کرتے تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس کے انکار کے در پے ضرور ہو جاتے۔

تیسری بات….

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس روایت کا صحیح مطلب بیان کر دیں تاکہ واضح ہو کہ تین طلاق کو تین کہنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہی فیصلہ نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی یہی فرمان ہے۔ چنانچہ اس حدیث کے دو مطلب پیش خدمت ہیں:

پہلا مطلب:

اس حدیث میں طلاق کی تاریخ بیان کی جارہی ہے کہ عہد نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام سے لے کر ابتدائے عہد فاروقی تک لوگ یکجا تین طلاقیں دینے کے بجائے ایک طلاق دیا کرتے تھے، خلافت فاروقی کے تیسرے سال سے لوگوں نے جلد بازی شروع کردی کہ ایک طلاق دینے کے بجائے تین طلاقیں اکٹھی دینے لگےتو وہ تینوں طلاقیں نافذ کردی گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ اس پر واضح قرینہ ہیں، آپ فرماتے ہیں:
إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة.
لوگوں کو جس کام میں سہولت تھی انہوں نے اس میں جلد بازی شروع کر دی ہے۔
سہولت اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ جب عام طور پر لوگ تین طلاق دینے کے بجائے ایک طلاق دیتے ہوں کیونکہ خاوند جب صرف ایک طلاق دے گا تو بعد میں اسے کچھ سوچنے کا موقع ملے گا اور اگر وہ بیوی سے رجوع کرنا چاہے تو بسہولت رجوع کر سکے گا۔ اگر عام رواج تین طلاقیں دینے کا ہوتا تو سوچنے سمجھنے کا موقع بالکل نہ ہوتا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ”لوگوں کو جس کام میں سہولت تھی انہوں نے اس میں جلد بازی شروع کر دی ہے“ واضح دلیل ہیں کہ پہلے عام رواج ایک طلاق دینے کا تھا۔ اگر ابتداء سے تین طلاق کا رواج ہوتاتو پھر استعجال (جلد بازی) اور اناۃ (سہولت) کا کوئی معنی نہیں بنتا۔ لہذا اس حدیث میں ”طلاق الثلاث واحدة“ کا مطلب ”تین طلاقوں کے بجائے ایک طلاق دینا“ ہے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں آ کر مسئلہ بدل گیا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ طلاق دینے کے معاملے میں لوگوں کی عادت بدل گئی تھی۔ اگر یہ مراد لیا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے فیصلے کو منسوخ فرما کر تین طلاقوں کو تین شمار کیا ہے تو یہ مطلب انتہائی غلط ہے، کیونکہ اگر یہی معاملہ ہوتا تو صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر اجماع نہ فرماتے بلکہ اس فیصلہ کا انکار کرتے حالانکہ کسی سے بھی انکار منقول نہیں۔ یہی مطلب محدثین نے بیان کیا ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
المراد أن المعتاد في الزمن الأُوَل كان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر يوقعون الثلاث دفعة فنفذه عمر فعلى هذا يكون اخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغير حكم في مسألة واحدة .
شرح مسلم للنووی: ج2ص478
ترجمہ: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ فرما دیا۔ اس طرح یہ حدیث لوگوں کی عادت کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ کے حکم کے بدلنے کی اطلاع ہے۔
اگر آپ رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ خود ساختہ ایک نیا فیصلہ ہوتا یا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے کے خلاف ہوتا- العیاذ باللہ- تو ایک صحابی بھی اس پر راضی نہ ہوتا چہ جائیکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری جماعت نے اس فیصلے سے اتفاق کر لیا ، حتیٰ کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جو اس حدیث کے راوی ہیں ان کا فتویٰ بھی تین طلاقوں کے تین واقع ہونے کا ہے۔

دوسرا مطلب:

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فر مایا :
الحدیث اذا لم تجمع طر قہ لم تفہمہ والحدیث یفسر بعضہا بعضاً
الجا مع لاخلاق الرا وی للخطیب البغدادی: ص370 رقم1651
ترجمہ: جب تک آپ حدیث کے تمام طرق جمع نہ کر لیں اس وقت تک حدیث کا معنی نہیں سمجھ سکتے اس لیے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی تشریح کرتی ہے۔
چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت سنن ابی داؤد میں ہے، جس میں راوی سے سوال کرنے والا شخص ایک ہی ہے یعنی ابو الصَّہباء، اور دونوں روایتوں کے الفاظ بھی ملتے جلتے ہیں۔ روایت یہ ہے:
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَلٰى كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَبِى بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ.
سنن ابی داؤد: ج 1ص306 باب نسخ المراجعۃ بعد التطليقات الثلاث
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ہاں! جب خاوند اپنی بیوی کو ہمبستری سے پہلے تین طلاق دیتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں اسے ایک شمار کیا جاتا تھا۔
اس روایت کی اسناد صحیح ہے۔
زاد المعاد لابن القیم: ج4 ص1019-فصل: فى حكمہ صلى الله علیہ وسلم فیمن طلق ثلاثا بكلمۃ واحدۃ، عمدۃ الاثاث: ص94
اسی طرح صحیح مسلم کے راوی طاؤس یمانی کی خود اپنی روایت میں بھی غیر مدخول بہا (جس سے ابھی تک ہمبستری نہ کی ہو)کی قید موجود ہے۔ علامہ علاء الدین الماردینی (م745ھ) لکھتے ہیں:
ذكر ابن أبى شيبة بسند رجاله ثقات عن طاوس وعطاء وجابر بن زيد انهم قالوا إذا طلقها ثلاثا قبل ان يدخل بها فهى واحدة.
الجوہر النقی: ج 7ص331
ترجمہ: محدث ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نےسند کے ساتھ جس کے تمام راوی ثقہ ہیں، طاوس، عطاء اور جابر بن زید سے یہ روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو وہ ایک ہی ہو گی۔
ان دونوں روایات میں ”قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا“ (غیر مدخول بہا) کی تصریح ہے ۔ معلوم ہوا کہ حدیثِ صحیح مسلم مطلق نہیں بلکہ ”غیر مدخول بہا“ کی قید کے ساتھ مقید ہے یعنی ایسی عورت کے بارے میں ہے جس کا نکاح تو ہو چکا ہے لیکن خاوند سے ہم بستری کی نوبت نہیں آئی۔ ایسی عورت کو خاوند الگ الگ الفاظ (أنت طالق أنت طالق أنت طالق) سے طلاق دے تو پہلی طلاق سے ہی وہ بائنہ ہو جائے گی اور دوسری تیسری طلاق لغو ہوجائے گی، اس لیے کہ وہ طلاق کا محل ہی نہیں رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دورِ حکومت میں لوگ غیر مدخول بہا کو طلاق انہی الفاظ (یعنی أنت طالق أنت طالق أنت طالق) سے دیتے تھے اس لیے ان حضرات کے دور میں غیر مدخول بہا کو دی گئی ان تین طلاقوں کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں لوگ غیر مدخول بہا کو ایک ہی جملہ میں اکٹھی تین طلاقیں دینے لگے(یعنی انت طالق ثلاثا) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب تین ہی شمار ہوں گی، کیونکہ غیر مدخول بہا کو ایک ہی لفظ سے اکٹھی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں۔ تو اس صورت میں بھی اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ غیر مدخول بہا کو طلاق دینے کے معاملے میں لوگوں کی عادت بدل گئی تھی، یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں آ کر مسئلہ بدل گیا تھا۔

تنبیہ:

اگر اس روایت کا وہی مطلب لیا جائے جو منسلکہ تحریر میں لیا گیا ہے کہ تین طلاق ایک شمار ہوتی ہے تو یہ مطلب لینا انتہائی غلط ہے۔ ایسا مطلب لینے سے یہ روایت شاذ (ضعیف) ہو جائے گی۔ اس لیے کہ یہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تمام شاگرد آپ رضی اللہ عنہ سے تین طلاق کا تین ہونا ہی روایت کرتے ہیں اور اس روایت میں آپ کا شاگرد ”طاؤس“ ہے۔ اگر یہی مطلب ہی لیا جائے کہ طاؤس اس روایت میں تین کا ایک ہونا روایت کرتا ہے تو بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تمام شاگردوں کے خلاف ہو گی۔ تصریحات محققین ملاحظہ ہوں:

(1): امام احمد بن حنبل:

كل أصحاب ابن عباس رووا عنه خلاف ما قال طاؤس.
نیل الاوطار للشوکانی ج6ص245 باب ما جاء فی طلاق البتۃ
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے تمام شاگرد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو [تین طلاق کا تین ہونا] روایت کرتے ہیں طاؤس ان سب کے خلاف روایت کرتا دکھائی دیتا ہے۔

(2): امام محمد بن رشد مالکی:

بأن حديث ابن عباس الواقع في الصحيحين إنما رواه عنه من أصحابه طاوس ، وأن جلة أصحابه رووا عنه لزوم الثلاث منهم سعيد بن جبير ومجاهد وعطاء وعمرو بن دينار وجماعة غيرهم.
بدایۃ المجتہد ج2ص61 کتاب الطلاق، الباب الاول
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت جو صحیحین [صرف صحیح مسلم میں۔ناقل] میں واقع ہے اسے آپ کے شاگردو ں میں سے صرف طاوس روایت کرتے ہیں، آپ کےجملہ جلیل القدر شاگرد مثلاً امام سعيد بن جبير، امام مجاهد، امام عطاء ، امام عمرو بن دينار اور ان کے علاوہ ان کے شاگردوں کی ایک خاصی جماعت ، تین طلاق کا تین ہونا ہی روایت کرتے ہیں۔

(3):قال امام ابو بکرالبیہقی:

فَهٰذِهِ رِوَايَةُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَعَطَاءِ بْنِ أَبِى رَبَاحٍ وَمُجَاهِدٍ وَعِكْرِمَةَ وَعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ وَمَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ وَمُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ وَرُوِّينَاهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِى عَيَّاشٍ الأَنْصَارِىِّ كُلُّهُمْ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ أَجَازَ الطَّلاَقَ الثَّلاَثَ وَأَمْضَاهُنَّ
السنن الکبری للبیہقی: ج7 ص338 باب مَنْ جَعَلَ الثَّلاَثَ وَاحِدَةً
ترجمہ: امام سعيد بن جبير، امام عطاء بن ابی رباح، امام مجاهد، امام عکرمہ، امام عمرو بن دينار، امام مالک بن حارث، امام محمد بن ایاس بن بکیر اور امام معاویہ بن ابی عیاش انصاری تمام راوی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سےیہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیا ہے۔
الحاصل اگر اس روایت کا یہ مطلب لیا جائے کہ ”تین طلاق ایک ہوتی ہے“ تو یہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ان تمام روایات کے خلاف ہو گی جنہیں آپ رضی اللہ عنہ کے دیگر تمام شاگرد روایت کرتے ہیں۔ اس صورت میں طاؤس کی یہ روایت ان سب کے مقابلے میں شاذ ہے۔

خلاصہ کلام:

مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہواکہ قرآن مجید،احادیث نبویہ علی صاحبہا السلام، فیصلہ ہائے خلفاء راشدین و اقوال دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم، اجماع امت اور حضرات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کے فتاویٰ جات سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک مجلس میں متفرق الفاظ سے یا ایک ہی کلمہ سے دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں اور بیوی اپنے خاوند پر حرام ہو جاتی ہے۔ ہاں اگر وہ عورت عدت گزرنے کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور نکاح کے بعد دوسرا شوہر اس سے صحبت کرے پھر مر جائے یا از خود طلاق دے دے اور اس کی عدت گزر جائے تب یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو گی اور وہ اس سے دوبارہ نکاح کر سکے گا۔ واللہ اعلم بالصواب
کتبہ:ابو محمد شبیر احمد حنفی
دار الافتاء مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا