QuestionsCategory: نکاح و طلاقولی اور گواہوں کے بغیر نکاح کا حکم
Mufti Shabbir Ahmad Staff asked 5 years ago

ایک لڑکے اور لڑکی نے اس طرح نکاح کیا  کہ لڑکی کا ولی بھی موجود نہیں تھا اور نکاح کے گواہ بھی موجود نہیں تھے۔ بغیر ولی اور گواہوں کے  محض لڑکے اور لڑکی نے ایجاب و قبول کیا۔  یہ نکاح ایک مجلس میں ہوا ہو یا فون پر ہوا ہو تو ایسے نکاح کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ اب وہ لڑکا اس لڑکی سے کہتا ہے کہ تم میری بیوی ہو اور اسے کہیں اور نکاح بھی نہیں کرنے دیتا۔

انہوں نے کسی مفتی صاحب سے پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ لڑکی شرعاً اس لڑکے کی بیوی ہے۔  براہِ کرم آپ  اس مسئلہ کا تفصیل سے جواب دیں۔

سائل: محمد عارف

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 5 years ago

جواب:
سوال میں ذکر کردہ صورت میں دو باتیں قابل توجہ ہیں:
1:            عورت کے ولی کے بغیر نکاح
2:            بغیر گواہوں کے نکاح
ہر ایک کی تفصیل یہ ہے:
عورت کے ولی کے بغیر نکاح:
جہاں تک عورت کے ولی کے بغیر نکاح کا تعلق ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں:
 ایک صورت یہ ہے کہ لڑکا اس لڑکی کی برادری کا ہو اور تعلیم، اخلاق، مال وغیرہ میں بھی اس کے جوڑ کا ہو۔ اس صورت میں تو نکاح صحیح ہوجاتا ہے  بشرطیکہ دیگر شرائط (مثلاً دو گواہ ہوں) بھی ہوں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ وہ لڑکا خاندانی لحاظ سے لڑکی کے برابر کا نہیں یا ہے تو اس کی برادری کا  مگر عقل و شکل، مال و دولت، تعلیم اور اخلاق و مذہب کے لحاظ سے لڑکی سے گھٹیا ہے تو اس صورت میں لڑکی کا اپنے طور پر نکاح کرنا شرعاً لغو اور باطل ہوگا جب تک ولی اس کی اجازت نہ دے۔  ولی کی اطلاع و اجازت کے بغیر خفیہ نکاح عموماً وہاں ہوتا ہے جہاں لڑکا، لڑکی کے جوڑ کا نہ ہو۔ اس لیے ایسی صورت میں نکاح کالعدم اور لغو تصوّر کیا جائے گا۔
 
¨           علامہ محمد امین ابن عابدین شامی (م1252ھ) لکھتے ہیں:
أَنَّ الْمَرْأَةَ إذَا زَوَّجَتْ نَفْسَهَا مِنْ كُفْءٍ لَزِمَ عَلَى الْأَوْلِيَاءِ وَإِنْ زَوَّجَتْ مِنْ غَيْرِ كُفْءٍ لَا يَلْزَمُ.
(رد المحتار مع الدر المختار: ج4 ص195 کتاب النکاح. باب الکفاءۃ)
ترجمہ: عورت اگر اپنا نکاح کفو (یعنی خاندان، اخلاق و مذہب، دولت و تعلیم وغیرہ  کے اعتبار سے برابر شخص) میں کرتی ہے تو یہ نکاح منعقد ہو جاتا ہے اور اگر یہ عورت  نکاح غیر کفو میں کرتی ہے تو ایسا نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
¨           علامہ علاء الدین محمد بن علی الحصکفی (ت1088ھ) اس بارے میں مفتیٰ بہ قول یہ بیان فرماتے ہیں:
(وَيُفْتٰى) فِي غَيْرِ الْكُفْءِ (بِعَدَمِ جَوَازِهِ أَصْلًا) وَهُوَ الْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى.
(الدر المختار: ج4 ص152 کتاب النکاح. باب الولی)
ترجمہ: عورت کے غیر کفو میں نکاح کرنے سے نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ اسی قول پر فتویٰ ہے۔
¨           علامہ زین الدین بن ابراہیم بن محمد المعروف ابن نجیم الحنفی (ت970ھ) فرماتے ہیں:
وَأَنَّ الْمُفْتٰى بِهِ رِوَايَةُ الْحَسَنِ عَنْ الْإِمَامِ مِنْ عَدَمِ الِانْعِقَادِ أَصْلًا إذَا كَانَ لَهَا وَلِيٌّ لَمْ يَرْضَ بِهِ قَبْلَ الْعَقْدِ.
(البحر الرائق: ج3 ص226  کتاب النکاح. فصل فی الاکفاء)
ترجمہ: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جو روایت امام حسن سے مروی ہے اسی پر فتوی ہے کہ (غیر کفو میں) ولی جب نکاح سے قبل راضی نہ ہو تو لڑکی کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔
بغیر گواہوں کے نکاح:
نکاح کے منعقد ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ دو عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول ہو۔ اگر گواہوں کی موجودگی کے بغیر کسی نے ایجاب و قبول کر لیا تو اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
¨           عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلْبَغَايَا اللَّاتِي يُنْكِحْنَ أَنْفُسَهُنَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ.
(سنن الترمذی: ج1 ص337 ابواب النکاح. بَاب مَا جَاءَ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِبَيِّنَةٍ)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عورتیں زانیہ ہیں جو گواہوں کے بغیر اپنا نکاح کرلیتی ہیں۔
یہ روایت  صحیح ہے۔ (اعلاء السنن: ج11 ص18 اشتراط الشہود فی النکاح)
¨           حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
لَا نِكَاحَ إِلَّا بِبَيِّنَةٍ. (سنن الترمذی: ج1 ص337 ابواب النکاح. بَاب مَا جَاءَ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِبَيِّنَةٍ)
ترجمہ: گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
یہ روایت صحیح ہے۔ (سنن الترمذی: ج 1ص337)
¨           علامہ علی بن ابی بکر بن عبد الجلیل المرغینانی المعروف صاحب ہدایہ (ت593ھ) فرماتے ہیں:
ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين.
(الہدایۃ شرح البدایۃ: ج2 ص326)
ترجمہ: دو مسلمانوں کا نکاح اس وقت تک منعقد نہیں ہوتا جب تک، دو آزاد ، عاقل بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں  بطور گواہ موجود  نہ ہوں۔
اس تفصیل کی روشنی میں اس لڑکے اور لڑکی کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا، وہ لڑکا اس لڑکی کا خاوند نہیں ہے  ۔اس لیے اس کا لڑکی کو اپنی بیوی کہنا اور کہیں اور نکاح نہ کرنے دینا ناجائز اور حرام ہے۔ سوال میں ذکر کردہ مفتی صاحب کا بتایا ہوا مسئلہ غلط ہے۔