QuestionsCategory: نکاح و طلاقنکاح میں کلمے پڑھوانے کا حکم
Mufti Shabbir Ahmad Staff asked 5 years ago

نکاح کی محفل میں ہم نے کئی مرتبہ دیکھا ہے کہ قاضی صاحبان دولھا دلھن کو کلمے پڑھواتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ کلمے پڑھوانا ضروری ہوتا ہے اور کیا ان کے بغیر نکاح نہیں ہوتا؟

سائل محمد عامر، کراچی

1 Answers
Mufti Shabbir Ahmad Staff answered 5 years ago

جواب:
نکاح کے لئے ایجاب و قبول شرط ہے، یعنی ایک طرف سے کہا جائے کہ: ”میں نے نکاح کیا“ اور دُوسری طرف سے کہا جائے: ”میں نے قبول کیا“۔ نیز دو عاقل بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے۔ قاضی صاحبان جو کلمے پڑھاتے ہیں وہ کچھ ضروری نہیں، غالباً ان کلموں کا رواج اس لئے ہوا کہ لوگ جہالت کی وجہ سے بسااوقات کلماتِ کفر بک دیتے ہیں اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کلمہٴ کفر زبان سے کہہ کر اسلام سے خارج ہو رہے ہیں۔ نکاح سے پہلے کلمے پڑھادئیے جاتے ہیں تاکہ خدانخواستہ ایسی صورت پیش آئی ہو تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجائیں تب نکاح ہو۔ بہرحال نکاح سے پہلے کلمے پڑھانا کوئی ضروری نہیں اور کوئی بُری بات بھی نہیں۔
¨  علامہ علاء الدین محمد بن علی الحصکفی (ت1088ھ) فرماتے ہیں:
(وینعقد) ملتبسا (بایجاب) من احدھم (وقبول) من الآخر.
(الدر المختار مع رد المحتار: ج3 ص9 کتاب النکاح)
ترجمہ: نکاح اس وقت منعقد ہوتا ہے جب ایک جانب سے ایجاب اور دوسری جانب سے قبول پایا جائے۔
¨  علامہ علی بن ابی بکر بن عبد الجلیل المرغینانی المعروف صاحب ہدایہ (ت593ھ) فرماتے ہیں:
ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين.
(الہدایۃ شرح البدایۃ: ج2 ص326)
ترجمہ: دو مسلمانوں کا نکاح اس وقت تک منعقد نہیں ہوتا جب تک، دو آزاد ، عاقل بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں  بطور گواہ موجود  نہ ہوں۔
واللہ اعلم بالصواب
دار الافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ
سرگودھا، پاکستان
22-  ربیع الاول 1440ھ
یکم دسمبر 2018