QuestionsCategory: نکاح و طلاقطلاق میں اختلاف کی صورت میں احتیاط
Molana Abid Jamshaid Staff asked 6 years ago

ایک شخص نے اپنی بیوی کو زد و کوب کرنے کے بعد تین بار کہا ہے: تو مجھ پر حرام ہے ۔ پھر دوبارہ کہتا ہے: طلاق طلاق طلاق۔ پھر کہا: تو میری طرف سے فارغ ہے۔ پھر بیوی کو اس کےوالدین کے گھر چھوڑ جاتا ہے۔ 3 ماہ کے بعد پھر یہ شخص سسرال کے گھر آکر اپنی ساس سے کہتا ہے۔ جب ساس نے پوچھا: تو نے طلاق دے دی ہے؟ تو شوہر جواباً کہتا ہے: ہاں جی۔ ساس اس بات کو 3 بار دہراتی ہے کہ ”طلاق ہو گئی؟“ جواباً شوہر کہتا ہے: ہو گئی۔ اس موقع پر جو ساس کے گھر بیان ہوئے ہیں بیوی نے بھی خود سنے، گواہ (۱)حافظ قرآن محمد عاصم (بالغ ہے) جو کہ بیوی کا بھانجا ہے (۲) عمر رسیدہ عورت خدیجہ جو کہ اس وقت گھر میں موجود تھی۔ بیوی کے ہاں جو پہلی کارروائی ہوئی ہے اس میں کوئی گواہ نہیں ہیں۔ بیوی اور ساس سے حلف لیا گیا ہے کہ کیا واقعتاً شوہر نے یہ کلمات کہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں، یہ کلمات کہے ہیں۔ اب شوہر پہلے اور دوسرے واقعہ سے حلفاً مکر رہا ہے۔ اب صورت بتائیں کون سا راستہ اختیار کریں؟

محمد رمضان حسان کالونی بھاگٹانوالہ

1 Answers
Molana Abid Jamshaid Staff answered 6 years ago

ایسی صورت حال میں جب کہ عورت بذات خود طلاق کے الفاظ سننے کی مدّعیہ ہو اور خاوند انکار کرتا ہو شریعت کی طرف سے یہ راہنمائی ہے کہ دیانۃً طلاق واقع ہوجائے گی، البتہ قضاءً واقع نہیں ہوگی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اس مرد کے ساتھ آباد بھی نہیں ہوسکتی اور دوسرے مرد کے ساتھ نکاح بھی نہیں کر سکتی ۔ قضاءً طلاق تب نافذ ہو گی جب عورت اپنے اس دعویٰ کی سچائی پر کم از کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی پیش کرے یا پھر مرد طلاق دینے کا اقرار کرے۔
مذکورہ صورت میں چونکہ خود شوہر طلاق دینے سے انکاری ہے اور عورت کے پاس جو گواہ ہیں وہ شریعت کی طرف سے مقرر کردہ نصاب سے کم ہیں کیونکہ عورت نے جن گواہوں کا تذکرہ کیا ان میں سے اس کی والدہ کی گواہی اس کے حق میں شرعی طور پر قابلِ قبول نہیں اور باقی ماندہ گواہ (یعنی عورت کا بھائی اور عمر رسیدہ عورت) شرعی لحاظ سے کم ہیں۔ اس لئے مذکورہ صورت میں قضاءً طلاق کا حکم نافذ نہ ہوگا۔ مگر عورت نے چونکہ اپنے کانوں سے طلاق کے الفاظ سن لئے ہیں اس لئے دیانۃً تین طلاق کے وقوع کا حکم ہوگا۔
لہٰذا اب عورت کیلئے جائز نہیں کہ وہ مرد کو قربت و صحبت کا موقع دے بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے مرد کو اپنی قربت سے باز رکھے۔ صورتِ مسئولہ میں عورت کو چاہیے کہ وہ مرد کو خوفِ خدا دلا کر اور عذابِ آخرت سے ڈرا کر طلاق کے اقرار پر آمادہ کرے۔ تاہم اگر کسی صورت بھی مرد اس کی جان چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو اس صورت میں وہ عدالت کے ذریعے خلع حاصل کر لے تاکہ قضا ءً بھی طلاق کا حکم نافذ ہوجائے ۔
البتہ یہ بات واضح رہے کہ جب تک قضاءً طلاق نافذ نہ ہوگی تب تک اس عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں۔ قضاءً طلاق واقع ہونے کی صورت یہ ہے کہ وہ مرد تین طلاق کا اقرار کرے یا گواہوں کی شرعی تعداد سے تین طلاق ثابت ہو جائے یا عدالت کے ذریعے سے عورت خلع حاصل کرلے۔ تاہم جس طریقہ سے بھی قضاءً طلاق واقع ہوجائے اس کے بعد عدت گزار کر عورت کے لئے دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا ۔
لما فی قولہ تعالی: فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ.
سورۃ البقرۃ:230
لما فی الھدایۃ، ج3 ص122
ولا شهادة الوالد لولده وولد ولده ولا شهادة الولد لأبوية وأجداده.
لما فی الدر المختار ، کتاب الشہادات ج 8ص 202 دارالمعرفۃ
ونصابھا لغیرھا من الحقوق سواء کان الحق مالا او غیرہ کنکاح وطلاق ووکالۃ ووصیۃ… رجلان او رجل وامراتان.
لما فی الھندیۃ ج 1 ص 389 الباب الثانی فی ایقاع الطلاق
والمراۃ کا لقاضی لا یحل لھا ان تمکنہ اذا سمعت منہ ذالک او شھد بہ شاھد عدل عندھا.
لما فی امداد الفتاوی للشیخ التھانوی رحمۃ اللہ علیہ
امداد الفتاویٰ: ج2 ص349 بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ ج8 ص286
در صورت مسئولہ از دو حال خالی نیست یازن مطلقہ را عدد طلاق یاد است یانہ اگر یادہست در حق او حجت باشد ۔ پس اگر سہ بار شد مغلظہ شد حسب علم خود ۔پس او را روانیست کہ زوج خود را بر خود قدرت دہد.
فقط واللہ اعلم
کتبہ: مفتی محمد یوسف
دار الافتاء مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا
الجواب صحیح
ابو محمد شبیر احمد حنفی