زبیر حنفی asked 5 years ago

حق مہر کی مقدار مسنون کتنی ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے؟

برائے مہربانی  تفصیل سے بیان فرمائیں۔

1 Answers
Mufti Mahtab Hussain Staff answered 5 years ago

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسلامی شریعت میں مہر کی کوئی خاص مقدار مسنون نہیں ہے  حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر اپنی ازواج مطہرات اوربنات طیبات کا مہر پانچ سو درہم طے کیا تھا؛ ازواج مطہرات کے بارے میں روایات میں بارہ اوقیہ اورایک نش کی صراحت آئی ہے؛ 
صحیح مسلم میں مروی ہے:
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمْ كَانَ صَدَاقُ رَسُولِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَنَشًّا قَالَتْ أَتَدْرِي مَا النَّشُّ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَتْ نِصْفُ أُوقِيَّةٍ فَتِلْكَ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَزْوَاجِهِ 
(صیح مسلم، باب الصداق)
’’حضرت ابوسلمہؒ سے مروی ہےکہ انہوں نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیاکہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کا مہر کتنا تھا؟ فرمایا: آپ ﷺ نے بارہ اوقیہ اورنش مہر دیا تھا، پھر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: تم کو معلوم ہے نش کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا نہیں، حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: آدھا اوقیہ (یعنی بیس درہم) اس طرح کل مہر پانچ سو درہم ہوا؛ یہی ازواج مطہرات کا مہر تھا‘‘۔ایک اوقیہ چالیس درہم کا اورنش نصف اوقیہ یعنی: بیس درہم کا ہوتا ہے؛ اس طرح مجموعہ پانچ سو درہم ہوتا ہے۔یہی مقدار مہر فاطمی سے مشہور ہے۔ مہر فاطمی موجودہ وزن سے: ایک کلو، پانچ سو تیس (530) گرام، نوسو (900) ملی گرام چاندی ہوتا ہے۔اورقدیم تولہ سے ایک سو، سوااکتیس (131٫25) تولہ ہوتا ہے۔ بعض کتابوں میں جو 53 تولہ لکھا ہے، وہ دس گرام کے تولہ سے لکھا ہے۔ 
بعض روایات میں صرف بارہ اوقیہ کا تذکرہ ہے، اس کے مطابق مہر فاطمی 480 درہم ہوگا۔ مگر صحیح مقدار وہی ہے، جو اوپر لکھا گیاہے؛ کیونکہ اس روایت میں نش کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے، جیساکہ عربوں کی عادت ہےکہ کسر چھوڑ کر بولتے ہیں۔ روایت یہ ہے:
(عن عمر بن الخطاب) مَا عَلِمْتُ رَسُولَ اللہ ﷺ نَكَحَ شَيْئًا مِنْ نِسَائِهِ وَلاَ أَنْكَحَ شَيْئًا مِنْ بَنَاتِهِ عَلَى أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَىْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. (ترمذی،باب فی مہور النساء)
’’حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں: میرے علم کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں یا بیٹیوں میں سے کسی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا‘‘۔
باقی مہر کی کم سے کم مقدار حنفیہ کے نزدیک دس درہم ہے، اور دس درہم میں دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی ہوتی ہے اور یہ موجودہ گراموں کے حساب سے تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام چاندی ہوتی ہے اور شریعت میں مہر کی زیادہ مقدار کی کوئی تعیین نہیں ہر ایک اپنی حیثیت کے مطابق جو تعیین کر لے گا وہی اس کے اوپر لازم ہوگا۔ (مستفاد: ایضاح المسائل129)
وأقلہ عشرۃ دراہم (وقولہ) ویجب الأکثر منھا إن سمیٰ الأکثر۔ وفي الشامي: أي بالغاً ما بلغ۔ (تنویر مع الدر المختار، کتاب النکاح، باب المھر، کراچي3/101- 102، زکریا4/230-233،کوئٹہ 2/357)
 عموماً ہمارے معاشرے میں مہر فاطمی کو لوگ مہر مسنون قرار دیتے ہیں تو کوئی اگر مہر فاطمی پر مہر رکھے تو اس کی ادائیگی کی صورت میں اتنی مقدار ہی دینی ہو گی جو مہر فاطمی کی بنتی ہے اور  مہر فاطمی کی مقدار 12اوپر گزر چکی ہے  اس کی قیمت بازار سے معلوم کر لی جائے۔(مستفاد:ایضاح المسائل:219)
دارالافتاء
مرکز اھل السنۃ والجماعۃ
سرگودھا، پاکستان
20 جمادی الاول 1440ھ مطابق 27 جنوری2019