QuestionsCategory: نمازبیس رکعات سے کم نماز تراویح ادا کرنا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

آج کل کے نا گزیر حالات لاک ڈاون میں کیا نماز تراویح کی 8 رکعت کا انکار کرتے ہوئے 20 تراویح کو قصر یا short کرتے ہوئے 10 تراویح پر اکتفا کیا جا سکتا ہے؟  برائےمہربانی وضاحت کریں ۔ شکریہ.

العبد حافظ فاروق احمد ابن غلام نبی کشمیری انڈیا

1 Answers
Mufti Muhammad Riaz Staff answered 4 years ago

الجواب
حامداومصلیا و مسلما
اما بعد !
امت مسلمہ  کا  اتفاقی مسئلہ ہے کہ تراویح بیس رکعت سنت مؤکدہ ہے۔ لہذا بیس رکعت ہی ادا کی جائے  اس سے کم رکعات ادا کرنے کی گنجائش نہیں  اگر کرونا وائرس یا کسی وبا عام کی وجہ سے مساجد میں 20 سے کم رکعت تراویح ادا کی جائے تو بقیہ تراویح کی رکعات کو  گھر جا کر پورا کیا جائے ۔
(رد المحتار: ج2ص496، 597، بدایہ المجتہد ج1ص214، قیام اللیل ص159، جامع الترمذی : ج1 ص166  باب ما جاء في قيام شہر رمضان)
قال الامام الحافظ المحدث أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي (مـ 235 هـ) : حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ.
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 ص284 باب كم يصلي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ. المعجم الکبیر للطبرانی ج5ص433 رقم 11934، المنتخب من مسند عبد بن حميد ص218 رقم 653، السنن الكبرى للبیہقی ج2ص496 باب مَا رُوِىَ فِى عَدَدِ رَكَعَاتِ الْقِيَامِ فِى شَهْرِ رَمَضَانَ.)
تحقیق السند: اسنادہ حسن و قد تلقتہ الامۃ بالقبول   فہو صحیح.
اجماع امت  وجمہور علماء کا موقف
(1)۔۔ امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ الترمذی (ت279ھ) فرماتے ہیں:
واکثر اہل العلم علی ماروی عن علی وعمر وغیرھما من اصحاب النبی  صلی اللہ علیہ و سلم  عشرین رکعۃ.
(سنن الترمذی ج1ص166)
ترجمہ:
اکثراہل علم کا اتفاق ہے اس بات پر کہ حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہمااور اس کے علاوہ اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے تراویح کی بیس رکعات مروی ہیں۔
(2)۔۔علامہ ابن عبدالبر المالکی (ت463ھ) فرماتے ہیں:
وھوقول جمھور العلماء وبہ قال الکوفیون والشافعی واکثر الفقھاء وھوالصحیح عن ابی بن کعب من غیر خلاف من الصحابۃ.
 (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری  للعینی: ج8ص246)
ترجمہ:
جمہور علماء  کا یہی قول[کہ تراویح بیس رکعت ہیں ] ہے اور اسی کے قائل کوفی اور شوافع اور اکثر فقہاء    ہیں اور یہی صحیح ہے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بغیر کسی صحابی  کے اختلاف  کے مروی ہے۔
(3)۔۔ علامہ علاء الدین ابو بكر بن مسعود بن احمد الکاسانی الحنفی (ت587ھ) اس اجماع کاتذکرہ ان الفاظ سے کرتے ہیں:
والصحیح قول العامۃ لماروی ان عمررضی اللہ عنہ جمع  ابی بن کعب فصیلی بھم فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ ولم ینکر علیہ احدفیکون اجماعامنھم علی ذلک.
(بدائع الصنائع ج1ص644)
ترجمہ:
صحیح وہ جمہور کا قول ہے جو روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابی بن کعب کے پاس لوگوں کو جمع کیا انہوں نے ہر رات میں بیس رکعت تراویح پڑھائی کسی  ایک نے بھی اس  کا انکار نہیں کیا لہذا اس پر اجماع ہوگیا۔
(4)۔۔ علامہ ابوزکریا یحیی بن شرف نووی مشقی الشافعی (ت676ھ) فرماتے ہیں:
اعلم ان صلاۃ التراویح سنۃ باتفاق العلماء وھی عشرون رکعۃ.
(کتاب الاذکارص226)
جان لیجئے کے تراویح کی نماز سنت ہے  باتفاق اور وہ بیس رکعات ہیں۔
(5)۔۔ ملا علی بن سلطان محمد القاری الھروی الحنفی (ت1014ھ)فرماتے ہیں:
اجمع الصحابہ علی ان التراویح عشرون رکعۃ. (مرقاۃ المفاتیح: ج3ص346)
ترجمہ:
تمام صحابہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ تراویح کی بیس رکعات ہیں۔
(6)۔۔  علامہ سید محمد بن محمد الحسینی الزبیدی المعروف مرتضیٰ الزبیدی (ت1205ھ)فرماتے ہیں:
(7)۔۔خاتمہ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبد العزیز بن احمد ابن عابدین شامی (ت1252ھ) فرماتے ہیں:
(وھی عشرون رکعتہ)ھوقول الجمھور وعلیہ عمل الناس شرقا وغربا.
(رد المحتار لابن عابدین الشامی: ج2ص599)
ترجمہ:
اور تراویح کی بیس رکعات ہیں  یہی جمہور کا قول ہے اور اسی پر مشرق اورمغرب میں لوگوں کا عمل ہے۔
(8)۔۔استاذ المحدثین فقیہ النفس، قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی (ت1322ھ) اپنے رسالہ “الحق الصریح” میں فرماتے ہیں:
الحاصل ثبوت بست رکعت باجماع صحابہ رضی اللہ عنہ درآخر زمان عمررضی اللہ عنہ ثابت شد پس سنت باشد وکسیکہ از سنت آہ انکار دار وخطاست۔(الحق الصریح ص14)
خلاصہ یہ کہ بیس رکعات کاثبوت اجماع صحابہ سے آخر عہد فاروقی میں ثابت شدہ ہے لہذا یہی سنت ہے اورجوشخص اس کے سنت ہونے کا انکارکرے وہ غلطی پرہے۔فقط واللہ اعلم بالصواب:
دارالافتاء
مرکزاھل السنۃ والجماعۃ
سرگودھا ،پاکستان
26- اپریل2020ء